جنرل باجوہ نے کہا آپ پلے بوائے ہیں، پنجاب سے 3 ارکان کو نیوٹرل رہنے کا کہا جا رہا ہے۔ عمران
خان صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بولتے وقت بہت سی باتوں کا دھیان نہیں رکھتے۔ بڑوں نے کہا ہے پہلے تولو پھر بولو۔ عمران خان اس بات سے بے نیاز بے تکان جو منہ میں آیا کہہ ڈالتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ اور خاص طور پر مخالفین کو فسانے بنانے کا موقعہ ملتا ہے۔ پہلے دوسروں پر کیچڑ اچھالتے ہیں پھر صاف مُکر جاتے ہیں۔ اس کا نام انہوں نے یوٹرن رکھا ہے اور بقول ان کے ایسا کرنا بُرا نہیں۔ پہلے خود یوٹرن کو گناہ کہتے تھے۔ اب خود کہتے ہیں جنرل (ر) باجوہ نے مجھے کہا آپ پلے بوائے ہیں ۔میں نے کہا ہاں میں تھا۔ اب بھلا یہ کہنے والی بات ہے۔ خود اپنا مذاق بنا رہے ہیں مخالفین کو ہنسانے سنانے کا موقع دے رہے ہیں۔ اب لوگ کیا کہیں گے کھیل کے پلے بوائے یا یورپی کلچر والے پلے بوائے۔ اب تو آپ نے خود تصدیق کر دی ہے کہ آپ پلے بوائے تھے۔ ایک بڑے سیاستدان کا امیج اس طرح کی باتوں سے خراب ہوتا ہے۔ یہ تو کھلنڈرے نوجوانوں کا وطیرہ ہے کہ وہ اس طرح اپنی مقبولیت کی تشہیر کرتے ہیں۔ رہی بات آپ کے تین ارکان پنجاب اسمبلی کو نیوٹرل رہنے کا کہنے کی تو یہ بات سب جانتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل سے صرف ق لیگ کے ارکان ہی نہیں خود پی ٹی آئی کے بہت سے ارکان متفق نہیں بس خاموش ہیں۔ شاید خان صاحب نے اس خاموشی کو بھانپ لیا ہے۔ کیا معلوم یہ تین نہیں تیرہ نکلیں۔ ابھی خیبر پی کے اسمبلی سے پی ٹی آئی کے ایک رکن اسمبلی نے اُڑان بھری ہے اور وہ جے یو آئی کے شجر پر جا بیٹھے ہیں۔ دیکھتے ہیں اور کون کون اُڑان بھرتا ہے۔ عمران خان کو امید بھی نہ ہو گی کہ ان کی اپنی حکومت والے صوبے سے بھی کوئی ایسی حرکت کر سکتا ہے۔ اب اس پر کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔ ویسے جو بھی خان صاحب سے علیحدہ ہوتا ہے وہ فوراً اسے نیوٹرل، غدار اور نجانے کس کس خطاب سے نوازتے ہیں ا س کے سماجی مقاطع کا فرمان جاری کرتے ہیں مگر لگتا ہے لوگ اب اس خوف سے بھی آزاد ہو گئے ہیں۔
٭٭٭٭٭
گورنر سندھ کامران ٹیسوری بھی شہرہ آفاق جوتا کلب میں شامل ہو گئے
اس میں پریشان ہونے والی کوئی بات نہیں۔ یہ ایک اعزازی کلب ہے جس میں دنیا کے بڑے بڑے نامور سیاستدان، صدر اور وزیر اعظم بھی شامل ہیں۔ ان میں سے کسی نے اس میں شمولیت کا بُرا نہیں منایا۔ بڑے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ترقی پذیر ممالک میں بھی ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ بے شک یہ ایک انتہائی غلط حرکت ہے۔ مگر اس میں سکیورٹی والوں کی خامی بھی سامنے آتی ہے۔ انہیں کیوں پتہ نہیں چلتا کہ کون شخص ہال میں یا تقریب میں جھک کر زمین پر کیاتلاش کر رہا ہے۔ آخر جو بھی جوتا اُٹھا کر کسی پر پھینکتا ہے وہ ہاتھ بلند کر کے پھینکتا ہو گا۔ اس کو اُڑنے سے پیشتر ہی کیوں قابو نہیں کر لیا جاتا۔ کئی واقعات میں تو چہرے پر کپڑوں پر کوئی نامعقول شخص سیاہی پھینک یا انڈیل دیتا ہے۔ جوتا مارنے والے کا نشانہ توخطا بھی ہو جاتا ہے زیادہ تر نشانہ چوک جاتا ہے۔ مگر سیاہی تو تادیر چہرے اور کپڑے پر لگی نظر آتی ہے۔ اس سے زیادہ دل شکنی ہوتی ہے۔اب گورنر سندھ اس بات کا زیادہ اثر نہ لیں ہاں یہ ضرور پتہ کرائیں کہ یہ حرکت کس نے کی اور کیوں کی۔ آخر اپنی طرف متوجہ کرنے کے اور بھی کئی طریقے ہیں یہ جوتا پھینکنا نہایت معیوب ہے۔ اس کے بعد از اثرات بھی خاصے خطرناک ہو سکتے ہیں پہلے تقریب والے اور سکیورٹی والے ایسا کرنے والے کی اچھی خاصی پھینٹی لگا کر طبیعت بحال کرتے ہیں بعدازاں پولیس والے اچھے خاصے شخص کو بھوت بنا دیتے ہیں اور عرصہ تک وہ مخبوط الحواس نظر آتا ہے۔ تقریب میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے اس حرکت پر جس صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا وہ قابل تعریف ہے۔ لگتا ہے بہت سے لوگوں کو ان کی ایم کیو ایم کو متحد کرنے کی کوشش پسند نہیں آ رہی۔
٭٭٭٭٭
برائلر کے گوشت نے مہنگائی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے سوا پانچ سو روپے کلو ہو گیا
یہ ہوتی ہے اندھیر نگری وہ بھی روشنیوں سے جگ مگ کرتے شہر لاہور میں جو پنجاب کا دارالحکومت ہے۔ جہاں تمام عمائدین حکومت اور انتظامیہ کے اعلیٰ افسران ہر وقت دربار لگائے بیٹھتے ہیں۔ مگر حال یہ ہے اس شہر بے مثال میں مرغی کے گوشت کی قیمت یکدم 3 سو سے پانچ سو سے بھی اوپر چلی گئی ہے۔ وہ بھی ولایتی مرغی کی جسے برائلر کہتے ہیں۔ دیسی مرغی کی تو بات چھوڑیں اس کی شان بیان کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ لوگ تو اسے دکانوں پر دیکھ کر عقیدت سے آنکھیں جھکا لیتے ہیں اور دل ہی دل میں اس کی بلائیں لیتے ہیں کہ کیا دور تھا جب یہ مرغی عوام کے دسترس میں تھی اور سیانے گھر کی مرغی دال برابر کہتے تھے۔ اب یہ دیسی مرغی صرف دیکھنے کے کام آتی ہے لوگ دور سے اس کا دیدار کر کے گزر جاتے ہیں کیونکہ اب وہ دال برابر نہیں رہی اس کا گوشت 1500 کلو سے بھی اوپر جا چکا ہے۔ یہ جو ولایتی مرغی تھی یہ تو غریبوں کے دلوں کی رانی بن چکی تھی۔ غریب غربا بھی تھوڑا بہت اس کا گوشت دال یا سبزی میں ڈال کر اپنا کھانا چٹخارے دار بنا دیتے تھے۔ ذرا عیش کر لیتے تھے۔ اب دال اور سبزی کی طرح یہ بھی بے وفا نکلی اور اس کے دام بھی آسمان کو چُھو رہے ہیں۔ اب بیمار کو بھی کوئی مرغی کا شوربہ پلانے کا نہیں کہہ سکتا۔ حالانکہ سردیوں میں مرغی کا شوربہ کئی بیماریوں کا بہترین علاج ہے۔ کیا حکومت پنجاب اور مقامی انتظامیہ اس طرف توجہ دے گی کہ آخر کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے کہ آٹا، چاول ، گھی، سبزیاں، دالیں ، بکرے اور گائے کے گوشت کے بعد مرغی کے گوشت نے بھی آنکھیں ماتھے پر رکھ لی ہیں۔ بے شک پورے ملک میں یہی حال ہے مگر خدارا پنجاب کا سوچیں جو اجناس اور لائیو سٹاک فارمنگ کا گڑھ ہے۔ یہاں تو عوام کے منہ سے نوالہ چھیننے والوں پر آہنی ہاتھ ڈالا جائے تاکہ عوام کو ریلیف ملے۔
٭٭٭٭٭
خانہ کعبہ میں برفباری کی جعلی ویڈیو وائرل ہونے پر سعودی حکام کی وضاحت
اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا کس قدر بے احتیاط اور بے لگام ہو گیا ہے۔ جس کا جو جی چاہتا ہے غلط ویڈیو بنا کر جن میں سے اکثر جعلی ہوتی ہیں وائرل کر دیتا ہے۔ سادہ لوح افراد یہ ویڈیو آگے بھی شیئر کر دیتے ہیں جس سے ہزاروں افراد متاثر ہوتے ہیں۔ لوگوں نے عام زندگی اور واقعات سے ہٹ کر اب مقدس مذہبی مقامات کوبھی نہیں چھوڑا۔ خانہ کعبہ مسلمانوں کی سب سے مقدس جگہ ہے۔ ڈیڑھ ارب مسلمان اس کی حرمت پر جان قربان کرنا باعث سعادت سمجھتے ہیں۔ وہاں کوئی غیر مسلم داخلے کی جرا¿ت بھی نہیں کر سکتا۔ اب وہاں جعلی برفباری کی تصویر جس نے بھی بنائی وہ تو گنہگار ہوا مگر عقیدت کی وجہ سے ہزاروں مسلمانوں نے یہ ویڈیو آگے بھی شیئر کر دی ان کو کیا کہا جا سکتا ہے۔ وہ تو بے گناہ ہیں۔ اب تیزی سے وائرل ہونے والی اس ویڈیو پر سعودی حکام کو وضاحت کرنا پڑی ہے کہ یہ ویڈیو جعلی ہے۔ سوشل میڈیا کی اس بے لگامی کی وجہ سے بہت سے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ طرح طرح کی قباحتیں جنم لیتی ہیں۔ اب ضروری ہو گیا ہے کہ جھوٹی من گھڑت ویڈیو بنا کر دوسروں کی زندگیوں کا تماشہ بنانے ، ان کے جذبات سے کھیلنے والوں کے خلاف ایکشن لیا جائے۔ لوگ خود بھی ایسی حرکات سے اجتناب کریں جن کی وجہ سے کوئی متاثر ہوتا ہو۔ اب یہی دیکھ لیں تاریخ میں پہلی بار کعبہ شریف میں برفباری کی اس جعلی ویڈیو نے کتنے لوگوں کے مذہبی جذبات کو متاثر کیا۔ کم از کم ایسی ویڈیو بنانے والے کچھ تو خدا کا خوف کریں۔
٭٭٭٭٭