وارث شاہ اسیں مرنا ناہیں!


’’وارث شاہ اسیں مرنا ناہیں تے گور پیا کوئی ہور ‘‘ترجمہ:۔’’وارث شاہ ہمیں موت نہیں آنی قبر میں کوئی اور دفن ہے‘‘’’ہیر رانجھا‘‘ جیسی پنجابی زندہ ادبی کہانی کے مصنف و شاعر وارث شاہ اس علامتی کہانی میں جا بجا اقوال زریں بکھیرتے علامتوں میں حق و صداقت کے مبلغ بن کر سامنے آتے ہیں شعر ہذا میں بھی انہوں نے طبعی موت کی حقیقت اوراس کا پردہ کھول کر رکھ دیا ہے کہ مرتے وہ ہیں جو زندگی مردہ کردار کی سی گزارتے ہیں جن سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا لیکن ہیروز اور انسان اور انسانیت کیلئے جینے والے ہمیشہ جیتے ہیں۔
ایسے ہی کرداروں میں سے ایک میرے پھوپھا جان آغا محمد شریف خان انتہائی رحمدل انسانیت دوست اور عزیزو اقارب ہی پر نہیںبلکہ سبھی کیلئے سایہ دار درخت تھے ننکانہ صاحب کے شہر سید والا میں بچپن میں ہمیں یعنی مجھے اور میرے کزنزبابرخان اور نجم کو ٹورنگ سینما میں فلم دکھانے لے کر گئے ۔سینما کے مالک نے اُن کی عزت کرتے ہوئے مفت یعنی بغیر ٹکٹ ہمیں بٹھا دیا۔ اُن کا انصاف اور ہمدردی مجھے کبھی بھول نہ پائے گا سینماوالے غالباً کوئی شیخ صاحب تھے ان کا بیٹا آتا ہے آپ بہانے سے اُسے ٹکٹوں کی قیمت سے زیادہ پیسے دے دیتے ہیں یعنی قیمت لوٹا دیتے ہیں ۔وہ اکثر ٹی وی پر ڈرامے کے دکھی مناظر دیکھ کر رو پڑتے اور منفی کرداروں کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیتے کہ کسی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔جب اُن سے کہا جاتا کہ یہ تو خود ساختہ کہانی یعنی ڈرامہ ہے تو جواب دیتے یہ معاشرے کے ظلم و زیادتی کی عکاسی ہے۔ اُن کے صدقہ جاریہ اکلوتے سپوت آغا غلام حیدر خان نے حق و صداقت کردار و عمل انسانیت دوستی کی شمعیں روشن کر کے تا ابد زندہ رہنے کا سامان کر دیا ۔
آج جب سیاست کو گالی بنا دیا گیا بلکہ ہر ادارے کی ساکھ تباہ کی جا رہی ہے میں بہت سے پولیس افسران کے اعلیٰ عہدہ پر فائز،ججز اور فوجی افسران کو جانتا ہوں گور میں جانے کے باوجود موت اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکی ۔ آغا غلام حیدر کو جیل بھی نہ ڈرا سکی۔آغا صاحب کو میں نے نوکروں خادموں سے پیار ہی نہیں کبھی ناراض ہوتے تومعذرت کرتے بھی سنا۔ آغا صاحب نے اپنی جائیدادیں فروخت کر کے ملک وقو م کی خدمت کی ۔میں اُن کے بیٹے آغا علی حیدر جو آج بھی ایم پی اے ہیں سابق مشیر وزیراعلیٰ پارلیمانی سیکرٹری بھی ہیںاُنہیں اکثر اُن کی وعدہ ایفائی اور منافقت سے پاک کردار کی یاد دہانیاں کروایا کرتا ہوں۔
ایک سے زیادہ بار ایم پی اے منتخب ہوئے جو کام بس میں نہ ہوتا لارے لپے اور جھوٹے وعدے کی بجائے صاف کہہ دیتے میرے بس سے باہر ہے ۔یہ صاف گوئی اُن کو عام سیاستدانوں سے منفردو یکتا کرتی ہے ۔دوست احباب اُن کی خوش مزاجی خوش مذاقی یعنی محفل کشتِ زعفران بنانے کی کھلی ڈھلی طبیعت کو کب بھول سکتے ہیں۔ اُن کی محفل ہو اور قہقوں کی برسات نہ ہو کیسے ہو سکتا تھا ۔ فراخدالی صبر و تحمل کا یہ عالم کئی قریبی عزیز ہمیشہ حسدو رقابت کی بنا پر یا ذاتی مفادات کیلئے سیاسی مخالفین کو سپورٹ کرتے اور مخالفین بھی محض اُن کا رشتہ دار ہونے کی وجہ سے پذیرائی بخشتے کہ کہہ سکیں ہمارے ساتھ اُن کے عزیز و اقارب بھی سپورٹر ہیں لیکن مجال ہے آغاصاحب نے کبھی مخالفین سے وہ اپنے ہوں یا پرائے انتقام کا سوچاتک بھی ہو بلکہ اُن کو ضرورت پڑتی تو اُن کے کام بھی آتے۔
ایک دفعہ بھابھی(آغا صاحب کی اہلیہ ) نے بتایا کہ نوکر سرکاری درخت ایندھن کیلئے کاٹ لائے وہ اُس دوران ایم پی اے تھے ۔علم ہوا توسخت ناراض ہوئے کہ میرا کھانا ان لکڑیوں پر تیار نہ کیا جائے۔اپنے مدِ مقابل الیکشن لڑنے والوں کیخلاف بھی کبھی جھوٹی الزام تراشی یا گری ہوئی گفتگو سے نہ صرف خود احتیاط برتتے بلکہ باقی مقررین کو بھی اس سے منع کرتے ۔ میرے کئی بار اصرار کے باوجود میڈیا سے پہلو تہی برتتے۔
رُکے تو چاندچلے توہوائوں جیسا تھا 
وہ شخص دھوپ میں دیکھو تو چھائوں جیسا تھا
وہ سابق وزیرِ مملکت اور ایم این اے رائے منصب علی خاں کے ہمیشہ حلیف بن کر الیکشن لڑتے جب بھی یہ جوڑی الگ ہوئی سیاسی نقصان ہوا۔یہی وجہ ہے کہ اب آغا صاحب کے بیٹے آغا علی حیدر خان ایم پی اے مسلم لیگ (ن) بھی رائے صاحب مرحوم کی صاحبزادی شذرہ منصب کی رفاقت میں سیاسی میدان مار رہے ہیں آغا صاحب کی سیاسی جانشینی تو سب سے چھوٹے بیٹے آغا علی حیدر خان کے ہاتھ آئی جو اپنے دونوں بڑے بھائیوں آغارضاحیدر(چن آغا) اور آغا عباس حیدر سے مل کر عوام کی خدمت میں مصروف ہیں۔اللہ تعالیٰ انہیں مرحوم کے لئے صدقہ جاریہ اور اُن کے سنہری اصولوں پر کاربند رہ کر مخلوق کی خدمت سے سرفراز کرے۔
اکھاں جدوں میٹیاں زمانہ مینوں رووے گا
اپنا تے اپنا بیگانہ مینوں رووے گا

ای پیپر دی نیشن