محترم وزیر اعظم ! مجھ ناچیزسموسے کی طرف سے جناب کی خدمت میں چکنائی بھرا سلام پہنچے ۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ گزشتہ کئی دہائیوںسے میرا شمار وطن ِ عزیز کی لذید غذاؤں میں ہوتا ہے۔دورِ رفتہ ہو یا عصرِ حاضر ،میںہر زمانے میں پاکستان کے دستر خوان کی زینت رہاہوں۔بیوی بچوںکا دل بہلانا ہو یا گھر آئے مہمانوں کی رونق بڑھانا ہو،آسانی سے دستیاب یہ ارزاں مخلوق ہی کام آتی ہے۔سموسے بلاناغہ دفتروں، تعلیمی اداروںاورچوک چوراہوں میںلذتِ کام و دہن کاسامان بنتے ہیں۔ رمضان کے مبارک مہینے میں ہر شام افطاری کی تیاری ہم سے شروع ہوتی ہے۔ ہمارے قبیلے نے کبھی دھوپ دیکھی نہ بارش کی پرواکی، ہر موسم میںعوام کے دانتوں تلے رہے۔وقت کے ساتھ ساتھ ہماری مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا،لوگ قطار میں لگ کر ہاتھوں ہاتھ لیتے رہے لیکن آج اس ملک میں ہم پر برا وقت آن پڑا ہے۔جس سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ تصویریں لگائی جاتی تھیں،سموسمہ بنانے کی مختلف ترکیبیں بتائی جاتی تھیں، آج وہی ہماری جگ ہنسائی کا مرکز بنا ہواہے۔بعض’’ سموسہ نا اندیش‘‘ ڈاکٹر اپنے کلینک چلانے کی بجائے مختلف ویب سائٹس پرہمارے خلاف معرکہ آرا ہیں اور ہمارے نقصان گنوا کر اپنی شان بڑھا رہے ہیں۔ اپنے پُر کھوں کی طرح ہم بھی اپنی عمرِدوروزہ گزار کر آپ کی خدمت میں گرمِ سفر ہو جاتے ہیں۔کیا ہماری دیرینہ خدمات کا یہ صلہ ہے کہ ہمارے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی جائے؟ہمیں مضرِ صحت قرار دیتے ہوئے ’’ایٹم بم‘‘کا لقب دیا جارہا ہے ۔آپ ہی بتائیے ،کیا ہم اس قدر تباہی پھیلا سکتے ہیں؟براہِ کرم اس توہین ِ غذائیت کا نوٹس لیں۔ ڈاکٹرصاحبان،جن میں سے بیشترکڑاہی میں تلے سموسے کھا کر ہی پلے بڑھے ہیں ،کو شکایت یہ ہے کہ سموسوں میں استعمال ہونے والے غیر معیاری تیل سے خطر ناک بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ہم تو بازار میں پکنے کیلئے آئے ہیں، ہمیں کیا خبر کہ کس تیل میں تلا جارہا ہے، اپنا تو بقول شاعریہ عالم ہے کہ’’اِدھر ڈوبے،اُدھر نکلے‘‘۔آپ خود ہی انصاف کریں ،اگر مچھلی کو آلودہ پانی میںرکھا جائے تو اس میں مچھلی کا کیا قصور؟ایک ہی تیل میں کئی بار غوطے کھا کر ہمارا اپنا دم گھٹنے لگتا ہے ۔فوڈ اتھارٹی اور لیبارٹری کو چاہیے کہ انسانوں کیساتھ ساتھ ہم سموسوں کی صحت کا بھی خیال رکھے اور غذائی اجزا کے معیارکی جانچ پرکھ یقینی بنائے۔ اس ملک میں میرے علاوہ بھی بہت سی اشیائے خور ونوش غیر معیاری تیل میں پکائی جاتی ہیں اور پوش جگہوں پر ’’فاسٹ فوڈ‘‘کے نام پر فروخت ہوتی ہیں۔ ان پر کم ہی اعتراض ہوتا ہے جبکہ میں آسان ہدف ہوں کہ سرِ بازار تیار کیا جاتا ہوں ۔کبھی اعتراض اٹھتا ہے کہ سموسوں کے میدے سے معدے خراب ہو رہے ہیں۔ حالانکہ یہ میدہ بھی انہی فلور مِلوں سے آتا ہے جہاںسے ہوٹلوں اور تندوروں پر استعمال ہونے والا آٹا اور میدہ منگوایا جاتا ہے۔ اگر سموسہ کھانے سے لوگ بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں تو ڈاکٹروں کو ہمارا شکرگزار ہونا چاہیے کہ مریضوں کی صورت میں انہیں ان کاشکار میسر ہو رہاہے۔اسکے باجود اگر کوئی سمجھتا ہے کہ سموسوں کو دیس نکالا دے سکتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔
گلی گلی میری یاد بچھی ہے،پیارے رستہ دیکھ کے چل
مجھ سے اتنی وحشت ہے تو میری حدوں سے دور نکل
حضور!ایک ڈاکٹر صاحب ہماری نسل کشی کا منصوبہ بناتے ہوئے عوام کو سموسے کی بجائے گاجر کھانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔آپ خود سوچیے ،کیا چائے قہوے کے ساتھ گاجر کھائی جا سکتی ہے؟اس طرح معاشرے میں بدنظمی پھیلے گی۔آج اگر کوئی یہ حرکت کرتا ہے توخاکم بدہن کل کوئی گاجر کی جگہ سموسے کا حلوہ بناکربیٹھا ہوگا۔ان حالات میں جب ملک کے معاشی حوالے سے دیوالیہ ہونے کی خبریں چل رہی ہیں،یہ ڈاکٹر صاحب لوگوں کو ’’ایئر فرائیر ‘‘جیسی مہنگی مشین میں سموسہ بنانے کی تجویز دے رہے ہیں۔ہمارے غریب عوام تو صرف اوپن ایئر میں فرائی سموسے کھاکرہی پیٹ پوجا کرسکتے ہیں۔ہمیںڈاکٹرو ں کے علاوہ دکانداروں سے بھی شکوہ ہے۔یہ گزشتہ دو تین برس سے سموسے کے نرخ مسلسل بڑھااور معیار گھٹا رہے ہیں۔ان لوگوں کے لالچ کی وجہ سے سموسے اور عوام کے باہمی تعلقات متاثر ہورہے ہیں۔ کہیں تو ہماری شکل و صورت بھی بگاڑی جا رہی ہے۔آلویا قیمے کی حد تک توٹھیک تھا،اب یہاں چاکلیٹ والے سموسے بھی سن رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر یہ بدتہذیبی بھی دیکھنے کو ملی کہ لاہور میں ایک آئس کریم والا سموسے اور کریم کو ملاتا ہے اورتوے پریہ ملغوبہ تیار کرکے ’’سموسہ آئس کریم‘‘کے نام پر فروخت کرتا ہے۔ اس ملک میں یوں بھی میرا ’’توا‘‘لگایا جا رہا ہے۔جناب وزیر اعظم !آپ سے گزارش ہے کہ ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دیکر ہمارے خلاف اس مذموم مہم کا تدارک کیا جائے۔چھوٹا منہ بڑی بات،اگر جناب ہم پر کرم فرماتے ہوئے سموسوں کے برینڈ ایمبیسڈر بن جائیںتو سٹریٹ فوڈ کا یہ بادشاہ اپنے وزیر اعظم کا ممنو ن رہے گا۔موجودہ حالات میں کفایت شعاری اپناتے ہوئے سرکاری تقریبات بالخصوص روز افزوں کابینہ کے اجلاس میں سیاستدان کسی مہنگے پکوان کی بجائے مجھے لذتِ شکم بنائیں۔سموسے کو خارجہ پالیسی کا حصہ بنایا جائے ،یوں دنیا بھر میں اس ملک کی پہچان بن کر ’’کرینگے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد‘‘۔اگر آپ نے ان گزارشات پر توجہ نہ دی تو ڈاکٹروں کے ہاتھوں ہماری بقا خطرے میں ہے۔