کم ہو تی تجارت معشیت کیلئے اچھا شگون نہیں سیکرٹری انڈسٹریز ، تجارت


لاہور(کامرس رپورٹر ) پنجاب کے سیکریٹری انڈسٹریز ، تجارت، سرمایہ کاری و سکل ڈویلپمنٹ لیفٹیننٹ (ر) سہیل اشرف نے کہا ہے کہ کم ہوتی تجارت معیشت کیلئے اچھا شگون نہیں کیونکہ تجارت اور ملک کی معاشی ترقی کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ وہ لاہور چیمبر میں اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور، نائب صدر عدنان خالد بٹ، ایم ڈی سمال انڈسٹریز، ایڈیشنل سیکرٹری کامرس اور ٹیوٹا، فیڈمک اور پی بی آئی ٹی کے نمائندوں نے بھی اس موقع پر خطاب کیا۔سیکریٹری انڈسٹریز نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق صرف بھائی پھیرو اور آس پاس کے علاقوں میں 10 سے 15 ہزار لوگ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ محکمہ صنعت کی اولین توجہ صنعتی شعبے کی ترقی ہے۔ ہم اپنے بورڈ میں کم از کم 3 نمائندے پرائیویٹ سیکٹر سے چاہتے ہیں۔ معیشت کو دوبارہ پٹڑی پر لانے کیلئے درآمدی متبادل بہت ضروری ہے۔ اداروں کے درمیان مستحکم روابط ہونے چاہئیں۔ محکمہ ماحولیات کو صنعت سے متعلق اقدامات کرتے ہوئے محکمہ صنعت سے مشاورت کرنی چاہیے۔ ہر دہائی پچھلی دہائی سے بہتر نظر آتی ہے جس کا مطلب ہے کہ صنعتی ترقی نہیں ہورہی۔ انہوں نے کہا کہ فیکٹریوں کی جگہ ہائوسنگ سوسائٹیز قائم ہورہی ہیں جس کی وجہ سے آمدن اور روزگار کے مواقع محدود ہورہے ہیں۔ سیکرٹری انڈسٹریز نے کہا کہ پچھلے 15 سالوں میں آنے والے تمام مسودات یا نوٹیفائیڈ بل لاہور چیمبر کے ساتھ فیڈ بیک کیلئے شیئر کیے جائیں گے۔ ورلڈ بنک کے پنجاب گرین ڈویلپمنٹ پروگرام پر کام جاری ہے۔ صنعتوں کو چاہیے کہ وہ اسکربرز کی تنصیب کیلئے خود سروے کریں۔ لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور نے کہا کہ پہلے ہماری پالیسی برآمدات میں اضافہ اور درآمدات کو کم کرنا تھی لیکن ہمیں اسے تبدیل کرنا ہوگا۔ ہم برآمدات نہیں بڑھا سکتے لیکن درآمدات کم کر سکتے ہیں اس لیے پہلے یہ کرنا چاہیے۔ ہمارے پاس زرمبادلہ کے ذخائر نہیں ہیں جبکہ آئی ایم ایف کا دبائو معیشت کی مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے۔ متعلقہ محکمے پالیسیاں بناتے وقت پرائیویٹ سیکٹر سے مشورہ کرنے کی زحمت نہیں کرتے اور سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ نہیں لیتے۔ کاشف انور نے کہا کہ پاکستان میں پالیسی ریٹ بہت زیادہ ہے جسے نیچے لایا جائے۔ چھوٹی، درمیانی اور طویل مدتی پالیسیاں بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ خاص طور پر، قلیل المدت پالیسیاں وقت کی ضرورت ہیں۔ ایمنسٹی بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے غیر اعلانیہ رقم معاشی سرکل میں آئے گی۔ تجوریوں میں بہت پیسہ ہے اور زمین میں سرمایہ کاری ہے جسے ایمنسٹی کے ذریعے گردش میں لایاجائے۔ اس سے قبل تمام ایمنسٹی سکیمز جان بوجھ کر ناکام کی گئیں۔ ایمنسٹی ملک بھر میں اور غیر مشروط طور پر دی جانی چاہئے کیونکہ اس سے 10 بلین ڈالر گردش میں آسکتے ہیں۔ آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ سبسڈی کم کرے اور بجلی کے بلوں اور شرح سود میں اضافہ کرے۔ عوام پہلے ہی تھک چکے ہیں اور مزید بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ ٹیکس پالیسیوں کو ہم آہنگ کیا جائے۔ ڈھائی کروڑ روپے پر ویلتھ ٹیکس لگایا گیا ہے،جس شخص نے تمام ٹیکس دے کر پیسہ کمایا ہے وہ ویلتھ ٹیکس کیوں ادا کرے؟۔ٹیکس دہندگان کو جرمانے میں کمی کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں ، انہیں مراعات دی جائیں۔ لاہور، فیصل آباد اور گوجرانوالہ کی صنعتوں کیلئے پانی کے نرخ مختلف ہیں۔لاہور چیمبر کے صدر نے کہا کہ اربوں ڈالر کا پانی سمندر میں پھینکا جا رہا ہے۔ حالیہ سیلاب سے 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ کپاس پیدا کرنے والے علاقوں میں گنے کی کاشت ہو رہی ہے اور اب ہمیں 10 ارب کپاس کی گانٹھیں درآمد کرنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان اہلکاروں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے جو بجلی چوری میں معاونت کرتے ہیں۔لاہور چیمبر کے نائب صدر عدنان خالد بٹ نے فیروز پور روڈ انڈسٹریل ایریا کے مسائل پر روشنی ڈالی اور حکومت پر زور دیا کہ صنعتی شعبے کو مناسب سہولتیں دی جائیں۔

ای پیپر دی نیشن