مہذب معاشروں میں انکی قیادتیں انتخابات میں اپنے عوام کو منشور کی صورت میں اپنا پروگرام دیتی ہیں کہ اگر آپ نے ہمیں منتخب کیا تو یہ ہماری ترجیحات ہوں گی۔ عوام بھی کسی کا چہرہ دیکھے بغیر جس کا منشور بہتر ہوتا ہے اسے ووٹ دیتے ہیں۔ وہاں کوئی بدمعاش، جاگیردار وڈیرہ،نمبردار،چوہدری تھانیداراور پٹواری کسی کو زبردستی ووٹ کے لیے قائل نہیں کر سکتا نہ ہی وہاں نادیدہ قوتیں اثر انداز ہوتی ہیں اور نہ ہی نالی سولنگ، بریانی کی پلیٹ گھی کا پیکٹ یا آٹے کا تھیلا اثر انداز ہوتا ہے۔ وہاں عوام مدت ختم ہونے کے بعد دیکھتے ہیں کہ حکومت نے اپنے منشور پر کس حد تک عمل کیا ہے اور پھر اس کی روشنی میں کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دیا جاتا ہے۔ وہاں ہر کسی کو الیکشن لڑنے کا حق حاصل ہے۔ پیسے کی چمک اثر انداز ہونے کی بجائے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے لیکن پاکستان کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں ہر کام ہی الٹ ہے۔ کیا کچھ ہوتا ہے اسے دہرانے کی ضرورت نہیں بچہ بچہ بخوبی جانتا ہے۔ لیکن ایک فرق نمایاں ہو گیا ہے کہ ملاوٹی قوم میں ہر کام میں ملاوٹ ہوتی تھی۔ اب پہلی بار صاف شفاف دھاندلی ہو رہی ہے۔
آج ہمارا یہ موضوع نہیں ورنہ اس بارے بڑی لمبی بات ہو سکتی ہے۔ آج ہم سیاسی جماعتوں کے منشور پر بات کر رہے ہیں انتخابات سر پر ہیں اور سیاسی جماعتوں کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں منشور کو کسی کھاتے میں ہی نہیں ڈالتیں۔ وہ اتمام حجت کے لیے ایک کتابچہ تیار کرکے الیکشن کمیشن میں جمع کروا دیتی ہیں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ نہ اس جماعت کے سربراہ اور نہ الیکشن لڑنے والے امیدواروں کو پتہ ہوتا ہے کہ اس کتابچے میں کیا لکھا ہے کیونکہ انھیں منشور سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ ان کے ایوان اقتدار میں پہنچنے کے بعد مقاصد کچھ اور ہو جاتے ہیں لیکن جب وہ عوام میں ووٹ لینے کے لیے جاتے ہیں تو عوام کو ایسے ایسے سبز باغ دکھاتے ہیں کہ وہ عشں عشں کر اٹھتے ہیں۔ عوام سے ایسے ایسے وعدے کر لیے جاتے ہیں کہ ان پر عملدرآمدممکن ہی نہیں ہوتا لیڈران کو بھی علم ہوتا ہے کہ یہ ناممکنات ہیں لیکن وہ کہتے ہیں ہمیں کل کو کس نے پوچھنا ہے کہ آپ نے یہ وعدہ کیا تھا۔ ماضی میں بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ کیا تھا یہ وعدہ تو ترقی یافتہ ملک بھی پورا نہیں کرسکتے لیکن ہم آج تک اس پر عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ تحریک انصاف نے کروڑوں نوکریاں لاکھوں گھر اور نہ جانے کیا کیا وعدے کیے۔ وہ نہ پورے ہوسکتے تھے نہ ہوئے۔
اسی طرح کے سبز باغ مسلم لیگ ن اپنے ہر دور حکومت میں دکھاتی رہی ہے اور آج اگلے اقتدار کی گارنٹی لیے پھر رہی ہے اور کہتی ہے ہماری بات اوپر ہو چکی ہے لیکن عوام کے ساتھ کیا کرنا ہے اس بارے میں کچھ نہیں بتا رہے۔ پنجابی کا ایک محاورہ ہے
’’ بْوہے آئی جنج ونھّوں کْڑی دے کن۔‘‘ یعنی بارات دروازے پر کھڑی ہے اور دلہن کو زیور پہنانے کے لیے اسکے کان چھدوائے جا رہے ہیں۔ الیکشن میں چند دن باقی رہ گئے ہیں اور مسلم لیگ ن نے ایک "دانشور" کی ڈیوٹی لگا دی ہے کہ منشور نامی ایک کتابچہ لکھ دو۔ تاحال جن جماعتوں نے منشور عوام کی عدالت میں پیش کیا ہے ان میں جماعت اسلامی واحد سیاسی جماعت ہے جس کے منشور کو پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ اس پر کتنی محنت ہوئی، کتنی تحقیق ہوئی اور پاکستان کے زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر مسائل کا حل تلاش کیا گیا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں ان کو قبول نہیں کیا جاتا اور جن کو قبولیت کے درجے پر فائز کیا جاتا ہے ان کے پاس کوئی پروگرام نہیں ہوتا۔
جماعت اسلامی پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے جو جمہوری نظام کی روح کے مطابق رول ماڈل کا درجہ رکھتی ہے جہاں کسی کی اجارہ داری نہیں، جہاں میرٹ پر امیر کا انتخاب ہوتا ہے، جہاں کارکن سے لے کر سربراہ تک ہر کسی کا احتساب ہوتا ہے، جہاں کارکن کی تربیت کی جاتی ہے اور جمہور کے اکثریتی فیصلے کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ جہاں کمیٹیاں ہر پہلو پر تحقیق کرکے رپورٹ مرتب کرتی ہیں۔ جماعت اسلامی نے موجودہ انتخابات میں ایک جامع منشور دیا ہے جس کے چیدہ چیدہ نکات پیش ہیں۔ آزاد خارجہ پالیسی۔ کسی بلاک کا حصہ بنے بغیر دنیا سے تعلقات، پاکستان کو اسلامی جمہوری خوشحال ترقی یافتہ ریاست بنانا،قرآن وسنت کی بالا دستی۔ آئین جمہوریت اور قانون کی حکمرانی، عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ سے آزاد غیر سودی مضبوط معیشت،انصاف امن روزگار،تعلیم علاج۔چھت سب کے لیے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ، احتساب سب کا۔ انصاف سب کے لیے۔ دور دراز علاقوں میں انصاف کی فراہمی کے لیے انصاف موبائل یونٹ کا قیام۔ فاسٹ ٹریک بزنس کورٹس کا قیام۔ 50 لاکھ مستحق گھروں کو سولر کٹ کی سستی اقساط پر فراہمی، ہر مستحق خاندان کو 100 یونٹ مفت بجلی کی فراہمی، اعلی تعلیم کے لیے بلا سود قرضے،زرعی گریجویٹس کو بنجر زمین کی آلاٹمنٹ، وراثت میں خواتین کو حصہ نہ دینے والوں کے بیرون ملک سفر پر پابندی۔ خواتین کو اسلامی حدود میں رہ کر تعلیم وترقی کے مواقع فراہم کرنا، وی آئی پی کلچر کا خاتمہ۔ بڑے حکومتی عہدیداروں اور ریٹائرڈ افسران سے لگڑری گاڑیوں اور مفت پٹرول کی سہولت واپس، لگڑری گاڑیوں اور پرتعیش اشیاء کی امپورٹ پر پابندی، دولت کی نمائش پر پابندی، فحاشی بدکاری کو روکنے کے اقدامات، وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ،مسجد کو کمیونٹی سنٹر بنانا،اقلیتوں کی آزادی، مضبوط پارلیمان، انتخابی اصلاحات، متناسب نمائندگی طریقہ انتخاب۔ انتخابی عمل میں سرمایہ اور نادیدہ قوتوں کے عمل دخل کا خاتمہ،الیکشن کمشن کو مالی انتظامی اور عدالتی خودمختاری، سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق اور پارلیمنٹ میں نمائندگی، اردو سرکاری زبان اور بنیادی ذریعہ تعلیم،خود مختار بلدیاتی حکومتوں کا قیام،آزاد میڈیا، مضبوط معیشت اور گورننس، زراعت اور صنعت کی ترقی، سیاحت کی ترقی اور جنگلات میں اضافہ گویا ہر شعبہ کے بارے میں مکمل پروگرام۔