سرگودہا میرا ننہالی شہر ہے جس سے بچپن کی بیشمار یادیں جڑی ہوئی ہیں۔ جوانی کے ایام میں جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو ا س وقت بھی یہی کوشش ہوتی کہ جب بھی کام سے فرصت ملے تو وہ لمحات اسی ننہالی شہر میں چل کر گزارے جائیں۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ اس شہر میں کہیں دل ہار بیٹھے تھے، دل کا سودا تو کسی اور شہر میں ہو چکا تھا لیکن اس شہر کی گلیوں اور خاص کر نانی اماں کے چھ بلاک والے گھر سے ایک ایسا عشق تھا جو ہر وقت دل میں ایک شعلہ جلائے رکھتا تھا- نانی کے گھر کے علاوہ اس شہر میں میری خالہ اور ماموں کے گھر بھی تھے لیکن نانی کی وفات کے بعد جب بھی سرگودہا جانا ہوتا زیادہ تر قیام خالہ زاد بہن رانی جس میں آج بھی ماں کا روپ دیکھتا ہوں اور جو سگی بہنوں سے بھی زیادہ عزیز ہے اسکے ہاں ہی ہوتا لیکن 1988 میں ایک ایسا حادثہ رونما ہوا جسکے بعد اس بہن کے گھر جانا ضرور ہوتا ہے لیکن گھنٹے دو گھنٹے کے بعد اس گھر کے ایک فرد سے جڑی کچھ یادیں اسطرح دل پر لشکر کشی کرتی ہیں کہ لگتا ہے کہ اب جان سے گے کہ گئے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ میری اس بہن کا چودہ سالہ ایک بیٹا تھا محمد علی ، جسطرح یہ بہن پوری عزت و تکریم کے ساتھ بہت عزیز ہے اسی طرح اسکا یہ بیٹا بھی شدت سے پیارا لگتا تھا اور وہ بھی اس خاکسار سے اتنی ہی محبت کرتا تھا جسکا الفاظ میں بیان شائد ممکن نہیں۔
ذکر چل نکلا تو سنہری یادوں کی خوشبو بند دریچوں سے ایک بار پھر سے ان خوشگوار لمحات کا احساس دلانا شروع ہوگئی ہے جب راقم نانی کے گھر بیٹھا ہوتا تھا تو یہ بھانجا اپنی ماں کے ساتھ آتا، چپکے سے ا’ کمرے میں جاتا جہاں میرا سامان پڑا ہوتا اور پھر وہاں سے کبھی میرے کپڑوں والا بیگ اٹھاتا تو کبھی میرے جوتے اٹھا کر باری باری باپ کی گاڑی میں رکھ اتا اور جب اسکے ماں باپ جانے لگتے تو بڑی معصومیت کے ساتھ کہتا ماموں آپکا سامان تو میں نے گاڑی میں رکھ لیا اب چلیں جسکے ساتھ ہی میری یہ بہن آنکھوں میں ممتا کی چمک لیئے مجھے کہتی، دیکھتی ہوں اب تم علی کو کیسے انکار کرتے ہو۔
پھر کیا ہوا ایک دن یہ چودہ اپریل 1988کی بدقسمت گھڑی تھی میری یہ بہن راولپنڈی شمس آباد جہاں وہ اپنی ماں کے پاس بچوں کے ساتھ چھٹیاں گزارنے آئی ہوئی تھی واپسی کیلئے گاڑی میں بیٹھ ہی رہی تھی کہ اوجڑی کیمپ میں دھماکہ ہو گیا اور اسکا سب سے پہلا نشانہ میرا یہ چودہ سالہ بھانجا محمد علی بنا اور جام شہادت نوش کر گیا۔ میری بہن کی دنیا تو تاریک کر گیا لیکن اسکے ساتھ ہی میرے لئے یہ ناممکن کر گیا کہ اسکے گھر میں جہاں وہ میرے ساتھ طرح طرح کے کھیل کھیلتا اور باتیں کرتا اب وہاں میں رات گزار سکوں۔ اسکے بعد جب بھی سرگودہا جانا ہوتا میرا قیام میری خالہ ذکیہ کے ہاں ہوتا۔
یہ نوے کی دہائی کے ابتدائی سالوں کی بات ہے کہ یہ خاکسار سرگودہا شہر گیا ہوا تھا۔ میرا خالو مبین ملک جو سرگودہا میں بڑا سوشل جانا جاتا تھا لیکن اب خالہ کی وفات کے بعد امریکہ چلا گیا ہے ان دنوں وہ وہاں ایک بیکری اور سویٹ شاپ چلا رہا تھا جہاں ہر وقت میلے ٹھلے کا سماں لگا رہتا تھا اور جیسا ہمارے ہاں رواج ہے کہ ایسی بیٹھکوں میں لوکل سیاست پر بہت زیادہ گفتگو ہوتی ہے سو اس دن وہاں جو گپ شپ چل رہی تھی میں نے محسوس کیا کہ اس میں زیادہ تر تذکرہ کمشنر صاحب کا ہو رہا تھا کہ کس طرح موصوف نہ صرف بذات خود تمام ترقیاتی کاموں کی نگرانی کر رہے ہیں بلکہ بتانے والے یہاں تک بتا رہے تھے کہ صاحب بہادر کئی دفعہ بطور عام شہری خود سبزی منڈی اور اتوار بازاروں میں خریداری کی غرض سے چکر لگا کر ریٹس چیک کر چکے ہیں۔ پاکستان میں کسی سول سرونٹ کی اسطرح کی انتظامی سرگرمیوں بارے سنا جائے تو کانوں کو یقین نہیں آتا، راقم نے بھی جب ایسی باتیں سنیں تو پہلے پہل یقین ہی نہ آیا، تجسس بڑا کہ ایسے مردِ قلندر کا نام جانا جائے۔ استفسار پر پتا چلا کہ مرد حر کا نام عبدالرشید خان ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان کا ظاہر اور باطن صاف ہو تو اسکے کردار کی گواہی کے اللہ پاک خود اسباب پیدا کرتا ہے۔
خان صاحب سے میری یاد اللہ 1984ء سے شروع ہوئی تھی جب وہ ایڈیشنل ہوم سیکرٹری پنجاب تعینات تھے جسکے بعد ایک لمبا عرصہ ان سے ملاقات نہ ہو سکی چنانچہ اگلے دن یہ خاکسار ان سے ملنے انکے دفتر گیا اور اتفاق سے اس ملاقات کے دوران ان گناہگار آنکھوں نے وہاں کے مقامی ایم این اے اور کچھ دوسری شخصیات کے ساتھ جو مخصوص مفادات کی حصول کیلئے تشریف لائے ہوئے تھے انکے ساتھ کمشنر صاحب کا اصولوں پر مبنی جو موقف اور رویہ دیکھا تو یقین ہو چلا کہ کل اس مرد قلندر کے متعلق لوگ ایسے ہی تعریفوں کے پل نہیں باندھ رہے تھے، جو سنا وہ واقع ہی سچ پر مبنی تھا۔
یہ تو ماضی بعید کا ایک قصہ ہے آج عرصہ دراز بعد سوشل میڈیا پر ایک اور انتظامی افسر سید منور عباس بخاری ڈپٹی کمشنر کوٹ ادو بارے کافی پوسٹیں نظر سے گزریں کہ کس طرح یہ آفیسر دن رات کوٹ ادو کی بہتری کیلئے کام کر رہا ہے تو ایسا لگا کہ یہ کسی ایک اور عبدالرشید خان کا جنم ہے۔صحافتی حس پھڑکی تو معاملات کو کھنکالنے پر پتہ چلا کہ موصوف آج سے تین سال پہلے اے سی چکوال بھی رہے ہیں جہاں پر وہ اپنی انہی انتظامی صلاحیتوں کی بدولت مقامی ایم پی اے کے قہر کا نشانہ بنے کہ موصوف ہر کام میرٹ پر کرنا چاہتے تھے جبکہ ممبر صاحب کی ترجیحات کچھ اور تھیں۔کہتے ہیں بطور ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے بھی جب بڑے مگرمچھوں پر اس مجاہد نے ہاتھ ڈالا تو وہاں بھی لوگوں نے اسکا سانس لینا مشکل کر دیا تھا۔ ویسے آپس کی بات ہے آجکل ایسے ہیروں کو فیلڈ میں کام کرتے دیکھتے آپکو احساس نہیں ہوتا کہ بزدار دور کا پانچ کروڑ میں ڈی سی کی پوسٹنگ والا زمانہ اب ماضی کا ایک ڈراؤنا خواب ہی رہ گیا ہے۔ دعا ہے اللہ اس مرد مجاہد کا حامی و ناصر ہو اور اسے نظر بد سے محفوظ رکھے۔آمین
انمول ہیرے
Jan 03, 2024