چوتھی بار وزیر اعظم؟

پاکستان مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنما میاں نواز شریف واحد سیاسی لیڈر ہیں جو پاکستان کے تین بار وزیر اعظم بن چکے ہیں اور اب وہ چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں- 2017ء میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کرتے ہوئے فیصلہ دیا تھا کہ جو پبلک آفس ہولڈر آئین کے آرٹیکل 62 کے مطابق صادق اور امین قرار نہیں پائے گا اسے تاحیات نا اہل تصور کیا جائیگا - سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی روشنی میں میاں نواز شریف انتخابات میں حصہ لینے اور چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے اہل نہ رہے- میاں شہباز شریف کی اتحادی حکومت کے دوران پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ کے قانون میں ترمیم کرکے نا اہلی کی سزا پانچ سال کر دی تھی- میاں نواز شریف یہ مدت پوری کر چکے ہیں-ان کے خلاف ایون فیلڈ اور العزیزیہ کیس میں دی گئیں سزائیں بھی ختم ہو چکی ہیں- اسکے باوجود بعض قانونی ماہرین تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں- انکی رائے کے مطابق میاں نواز شریف کو چونکہ سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل کی روشنی میں تا حیات نا اہل قرار دیا تھا لہذا پارلیمنٹ قانون کے ذریعے آئین کے آرٹیکل کو تبدیل نہیں کرسکتی- آئین کے آرٹیکل کو تبدیل کرنے کے لیے لازم ہے کہ پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت آئینی ترمیم منظور کرے- میاں نواز شریف کے چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے لیے لازم ہے کہ سپریم کورٹ پانچ رکنی بینچ کا تاحیات نااہلی کا فیصلہ سات رکنی بینچ بنا کر تبدیل کرے اور پارلیمنٹ کے قانون کو درست تسلیم کرتے ہوئے نا اہلی کی مدت تاحیات کی بجائے پانچ سال مقرر کر دے - چیف جسٹس پاکستان محترم قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا سات رکنی بنچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے جو نا اہلی کی مدت کا تعین کریگا- مسلم لیگ نون کے حامی مطمئن ہیں کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کی قانونی ترمیم کو تسلیم کر لے گی اور میاں نواز شریف کے لیے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے راستے کی واحد رکاوٹ ختم ہو جائے گی-
سینئر تجزیہ نگاروں کے مطابق تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین کے لیے آنے والے انتخابات ڈراؤنا خواب بن چکے ہیں- میاں نواز شریف احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے لاہور اور مانسہرہ کی دو قومی اسمبلی کی نشستوں سے انتخاب لڑ رہے ہیں- ان کی انتخابی کامیابی اور چوتھی بار وزیر اعظم بننا آسان کام نہیں ہے۔ اس میں دو چار بڑے سخت مقام آتے ہیں- اگر پولنگ ڈے پر عمرانی لہر چل پڑی تو 1970ء کے انتخابات کی طرح بڑے بڑے سیاسی بت پاش پاش بھی ہو سکتے ہیں- مسلم لیگ نون میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے سلسلے میں اختلافات سامنے آئے ہیں- حمزہ شہباز نے کھلے عام اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ خواتین کی خصوصی نشستوں کے پارٹی ٹکٹ دیتے وقت پارٹی سے وفاداری اور قربانیوں کو مد نظر رکھا جائے - مسلم لیگ نون آئی پی پی کے ان امیدواروں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے پر مجبور ہے جنہوں نے تحریک انصاف کے ساتھ بے وفائی کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران مسلم لیگ نون کا ساتھ دیا تھا- کئی انتخابی حلقوں میں مسلم لیگ نون کے پرانے ناراض کارکن آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑ سکتے ہیں اور مسلم لیگ نون کی نمبر گیم متاثر ہو سکتی ہے- افسوس کی بات ہیکہ جمہوریت کے دعویدار لیڈر آج تک جمہوری اصولوں کے مطابق پارٹی ٹکٹ دینے کا اصولی فارمولا تشکیل نہیں دے پائے- حقیقی جمہوریت کے اصولوں کے مطابق پارٹی امیدواروں کے چناؤ کا حق انتخابی حلقے کے کارکنوں کو دیا جاتا ہے- 76 سال کے بعد بھی پاکستان میں سیاسی کارکن اپنے اس جمہوری حق سے محروم ہیں- میاں نواز شریف کو چوتھی بار وزیر اعظم بنانے کے لیے مسلم لیگ نون کو قومی اسمبلی کی 100 نشستیں جیتنا ہوں گی- گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران پاکستان کے عوام مہنگائی کے پل صراط سے گزرتے رہے ہیں- عوام بہت سی وجوہات کی بناء پر غصے میں ہیں- پولنگ ڈے پر اگر عوامی غصہ سڑکوں پر نکل آیا تو اس پر کنٹرول پانا آسان کام نہیں ہوگا- آنے والے انتخابات سے پہلے جبر خوف اور غصہ بڑھتا جا رہا ہے جو آنے والی حکومت کے لیے بھی تشویشناک ہو سکتا ہے- پاکستان کے سیاستدان اگر آل پارٹیز کانفرنس بلا کر اگلے انتخابات سے پہلے انتخابی ضابطہ اخلاق پر اتفاق رائے کر لیں تو نہ صرف جمہوری نظام بلکہ ریاست پاکستان دونوں مضبوط اور مستحکم ہو سکتے ہیں- میاں نواز شریف کے شفاف انتخابات کے ذریعے چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے امکانات مخدوش ہیں- البتہ عالمی اور مقامی اسٹیبلشمنٹ میاں نواز شریف کو چوتھی بار وزیر اعظم بنانا چاہتی ہے تو میاں نواز شریف نیا ریکارڈ قائم کر سکتے ہیں-

ای پیپر دی نیشن