ارضِ وطن پر چھائے آسیب کے سائے

Jan 03, 2024

سعید آسی

ہماری ارضِ وطن پر نئے سال کا آغاز ہی بجلی کے طویل بریک ڈاؤن، گیس کی نایابی اور امن کو نقب لگاتی دہشت گردوں کی سرگرمیوں سے ہوا تو منیر نیازی بے اختیار یاد آئے۔ منیر اس شہر پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ۔جناب خدا لگتی کہیئے، کیا ہمارا چلن آبرو مندی کے ساتھ آسودہ اور پرامن زندگی گذارنے والا ہے یا ہم خود ہی کُدالیں مار کر اس وطن عزیز کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ کوئی ڈھب کا کام، کوئی ترتیب، کوئی سلیقہ؟ اشرافیہ ہیں کہ بدستور ایک دوسرے کے مفادات کی رکھوالی اور اپنی تجوریاں بھرنے میں لگے ہوئے ہیں اور راندہ درگاہ عوام بدستور مرے کو مارے شاہ مدار کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ میری خواہش اور دعا تو یہی ہے کہ اکیسویں صدی کا سال 2024ء ہماری ارض وطن اور اس پورے خطہ کیلئے امن و استحکام اور ترقی و خوشحالی کا سال ثابت ہو مگر انسانی دکھوں‘ مصائب‘ آلام‘ انتہاء درجے کو پہنچی غربت‘ بے روزگاری‘ آسمانوں کو چھوتی مہنگائی اور بجلی‘ گیس کی گرانی و کمیابی نے ہمارے معاشرے کو جس برے طریقے سے غیرمتوازن کر دیا ہے‘ اسکے پیش نظر یہ سال بھی دکھی انسانوں کو انکے محفوظ مستقبل اور خوشحالی کی نوید سناتا نظر نہیں آرہا۔ اسکے برعکس مجبور و بے بس اور راندہ درگاہ انسانوں کے پہلے سے بھی زیادہ تیزرفتاری کے ساتھ خطِ غربت سے نیچے لڑھکنے کا ماحول زیادہ سازگار بنا نظر آرہا ہے۔ ہماری سیاسی قیادتوں نے قائداعظم کی وفات کے بعد اب تک محض اپنے اقتدار و مفادات کی سیاست کی ہے جنہیں انسانی دکھوں میں کمی کا چارہ کرنے سے کوئی سروکار نہیں جبکہ قائداعظم کی فہم و بصیرت سے ہندو اور انگریز کے غلامانہ ساہوکارانہ نظام سے نجات پانے کیلئے پاکستان کے نام سے حاصل کی گئی اس ارض وطن پر بے بس و مجبور انسانوں کے دکھ مزید بڑھے ہیں اور ان کا پرامن اور خوشحال زندگی گزارنے کا خواب آج ڈرائونا خواب بن گیا ہے تو اسکے پس پردہ محرکات کا جائزہ لینے کیلئے ہماری قیادتوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے یا نہیں؟
آج عملاً ملک کی معیشت دیوالیہ ہونے کے سنگین خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے اور اپنے اپنے مفادات کے اسیر حکمران اشرافیہ طبقات معیشت کی اس خرابی کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈال کر عوام کے دکھوں پر سیاست چمکا رہے ہیں تو جناب ان دکھوں کو پاٹنے کا بھی تو کوئی چارہ کرلیں۔ آج عملاً پورا پاکستان اور اس کا ہر پیدا ہونیوالا بچہ بھی آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھا جا چکا ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں پر سود سمیت ان قرضوں کا مجموعی حجم آج ساٹھ ہزار ارب روپے تک جا پہنچا ہے جو آئی ایم ایف سے قوم کو مستقل نجات دلانے کے دعویدار عمران خان کے اقتدار میں آنے سے قبل تک 30 ہزار ارب روپے کے قریب تھا مگر عمران خان نے آئی ایم ایف کے پاس کشکول لے کر جانے پر خودکشی کو ترجیح دینے کے دعوئوں پر مٹی ڈال کر اپنے اقتدار کے آغاز ہی میں آئی ایم ایف پر مکمل تکیہ کرلیا اور اسکی ہر ناروا شرط مانتے مانتے اسے اس ارض وطن اور اسکی معیشت پر کاٹھی ڈالنے کا بھرپور موقع فراہم کر دیا۔ آج نگران دور میں بھی آئی ایم ایف کا عبوری بیل آؤٹ پیکج ہمارے پیدا ہونے والے ہر نئے بچے کی رگوں سے بھی خون نچوڑ کر انسانی زندگیاں قہرِ مذّلت کی جانب دھکیل رہا ہے اور ہمارے حکمران طبقات اس کی ہر ڈکٹیشن دو زانو ہوکر قبول کیئے جارہے ہیں۔ انوارالحق کاکڑ صاحب پر تو بطور نگران وزیراعظم نظرِ عنایت ہی اس لئے پڑی تھی کہ انہیں کٹھ پتلی کی طرح اپنے مفادات کے کھیل میں استعمال کرنے میں کوئی دقّت پیش نہیں آئے گی۔ تو جناب کیا آج نیا سال اس امر کا متقاضی نہیں کہ تمام قومی سیاسی قیادتیں آپس میں الجھنے کی بجائے باہم مل بیٹھ کر سوچنے اور آئی ایم ایف کی غلامی سے ملکی معیشت کو باہر نکالنے کی کوئی تدبیر ڈھونڈنے کی سازگار فضا استوار کر لیں جس کیلئے ’’میثاق معیشت‘‘ کی ٹھوس تجاویز سامنے آتی بھی رہی ہیں۔ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے سے تو یہ صورتحال کچھ بہتر ہی ہوگی۔ مگر افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ آج قوم کو ایک دوسرے کے ساتھ نفرت و حقارت کی راہ پر لگا کر اسکے ملک و ملت کیلئے کچھ کر گزرنے کے جذبات ہی مار دئیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے مجھے 1965ء کا وہ قومی جذبہ شدت سے یاد آ رہا ہے جب ہمارے دشمن بھارت نے ہم پر جنگ مسلط کی تو دفاع وطن کی خاطر تمام قومی سیاسی قیادتوں اور پوری قوم نے اس تلخ حقیقت کو پسِ پشت ڈال کر کہ ایوب خاں ایک فوجی ڈکٹیٹر ہیں جنہوں نے جمہوری حکومت کا مردہ خراب کر کے خود کو قوم پر مسلط کیا ہے، ایک اٹل قومی جذبے کے ساتھ ان کی کال پر لبیک کہا اور جب دفاع وطن کی خاطر انہوں نے ’’ایک پیسہ، دو ٹینک‘‘ کے نام پر دفاعی فنڈ قائم کیا تو قوم نے پلک جھپکتے میں گلّے بھرنا اپنے روزانہ کے معمولات کا حصہ بنا لیا۔ اس قومی جذبے کے حوالے سے ہی میرے دل میں خیال امڈا کہ قوم آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کیلئے بھی تو یکسو ہو کر ایسے ہی جذبے کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔ اس حوالے سے کچھ تجاویز میرے ذہن میں آئیں جس کا تذکرہ میں نے گذشتہ سال کے آغاز پر لکھے گئے اپنے کالم میں بھی کیا تھا اور آج تو آئی ایم ایف کے محض تین ارب ڈالر کے عبوری بیل آؤٹ پیکج نے ہمارے پورے سسٹم کو جکڑ لیا ہے جسے آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق تکمیل کو پہنچانے کی خاطر جمہوریت کو بھی ٹریک سے ہٹانے کے جتن کئے جاتے نظر آرہے ہیں، تو کیوں نہ آئی ایم ایف کو ہی اسکے متعینہ ٹریک سے ہٹانے کا کوئی چارہ کر لیا جائے۔ اس کیلئے میں اپنے گذشتہ سال کے کالم میں پیش کی گئی تجویز دوبارہ اپنے قارئین اور قوم کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ ’’ شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات‘‘۔
تجویز یہ ہے کہ ایوب خان کے ٹیڈی پیسہ دوٹینک فنڈ کی طرح قرض اتارو فنڈ قائم کر کے ہر گھر کے سربراہ کو پابند کر دیا جائے کہ وہ اپنے گھرانے کے تمام افراد کی جانب سے دوسوروپے فی کس اس فنڈ میں جمع کرائے۔ اسی طرح تمام بڑے صنعت کاروں، تاجروں، جاگیر داروں اور پانچ لاکھ اور اس سے زیادہ تنخواہ لینے والے افراد کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی استعداد کے مطابق پانچ لاکھ سے ایک کروڑ روپے تک اس فنڈ میں جمع کرائیں۔ دوسرے تمام سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین اپنے اپنے پے سکیل کے حساب سے دو ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے تک اس فنڈ میں جمع کرانے کے پابند ہوں۔ سینیٹ، قومی اسمبلی اورصوبائی اسمبلیوں کے ارکان بشمول وزیراعظم‘ وزرا، معاونین خصوصی اور تنخواہ لینے والے دوسرے سیاسی عہدے داران اپنی ایک ایک ماہ کی تنخواہ یا حسب استطاعت ایک سال تک کی تنخواہ اس فنڈ میں جمع کرادیں۔ اس فنڈز کی وصولی کا وقت دو ماہ کا مقرر کیا جائے اور فنڈ وصول کرنے کیلئے اچھی ساکھ والے چارٹرڈ اکائونٹس کی خدمات حاصل کی جائیں جو وصول شدہ فنڈز کو مکمل ریکارڈ کے ساتھ شفاف انداز میں وزیراعظم کے حوالے کریں اور وزیراعظم اس وصول شدہ فنڈ میں سے آئی ایم ایف کی واجب الادا تمام رقم فی الفور اسے منتقل کرکے قوم کو آئی ایم ایف سے خلاصی پانے کی نوید سنائیں۔ اس فنڈ سے نہ صرف آئی ایم ایف کا سارا قرض اتر جائیگا بلکہ ایک دو نئے ڈیم بھی تعمیر ہو جائیں گے۔ مگر اس میں مسئلہ یہ ہے کہ قوم کو فنڈز جمع کرنے والوں کی نیت اور دیانتداری پر اعتبار نہیں رہا۔ اگر جسٹس ثاقب نثار کے ڈیم فنڈ، نوازحکومت کی قرض اتارو‘ ملک سنوارو سکیم‘ عمران خان کے سیلاب فنڈ اور اسی طرح سابقہ اتحادی حکومت کے سیلاب فنڈ میں اندرون ملک اور بیرون ملک سے جمع ہونیوالی تمام رقوم اور ان کا اب تک کا مصرف پوری دیانتداری کے ساتھ قوم کے سامنے پیش کر دیا جائے تو قوم آج بھی 1965ء والے جذبے کی طرح تعمیر وطن کا نیا جذبہ بروئے کار لا کر پاکستان کو آئی ایم ایف سے مستقل چھٹکارا دلانے کیلئے دیدہ و دل فرشِ راہ کئے نظر آئیگی۔ کاش اب 2024ء کو ہی اس جذبے کی بنیاد پر آئی ایم ایف سے چھٹکارے کا سال بنا دیا جائے۔ 
میری ان معروضات پر پاکستان کے سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان صاحب نے تحسینی کلمات کے ساتھ یہ نوٹ بھی تحریر فرمایا تھا کہ اگر فنڈ وصول کرنیوالا حکومتی ڈیپارٹمنٹ قابلِ اعتماد اور اچھی ساکھ والا ہو اور فنڈ میں موصول ہونیوالی تمام رقوم پبلک کر دی جائیں اور آڈیٹر جنرل پاکستان سے اس کا آڈٹ کرایا جائے تو آئی ایم ایف کا قرض اتارنے کی یہ اچھی تجویز ہے۔ 
 اسی طرح معروف اینکر افتخار احمد صاحب نے بھی مجھے اس حوالے سے تجاویز بھجوائیں جو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے مجموعی 965 ، منتخب ارکان اور اسکے ساتھ ساتھ گریڈ 17 سے 22 تک کے افسران، فیکٹریوں اور ملوں کے مالکان، چالیس ایکڑ سے زیادہ اراضی والے زمینداروں اور تاجروں، آڑہتیوں اور مختلف پروفیشنل طبقات سے معقول فنڈز اور قرض کے حصول سے متعلق تھیں۔ اس معاملہ میں اصل پیش رفت تو حکومت اور متعلقہ حکومتی اداروں نے ہی کرنی ہے جس کیلئے دیانتداری شرط اول ہے۔ تو جناب ! ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ آئی ایم ایف سے خلاصی پانے کی قابلِ عمل تجاویز موجود ہیں، آزما کر دیکھ لیجئے۔ آئی ایم ایف نے اپنے عبوری قرض کی دوسری قسط کے اجراء کیلئے چند روز بعد جائزہ لینے کا عمل شروع کرنا ہے کہ پاکستان کی معیشت پر کاٹھی ڈالنے کا مزید کیا بندوبست کیا جائے۔ تو جناب! کیوں نہ ہم اس آکاس بیل کو اپنی معیشت سے ہٹانے کا ہی کوئی بندوبست کر لیں۔

مزیدخبریں