سنیے جناب، دیکھیے جناب، یاد رکھیے جناب اور کبھی بھولیں تو سائرن کا مطالعہ کر لیں تو یقینا آپ کو اندازہ ہو گا کہ میں کتنے عرصے سے کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کے مخالف اندرونی و بیرونی طور پر نقصان پہنچانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ہمارے اپنے بھی کچھ بہکے ہوئے لوگ بیرونی دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں کچھ نمایاں افراد بھی ان بہکے ہوئے لوگوں کو بنیاد بنا کر انسانی حقوق کی آوازیں بلند کرتے ہیں۔ چونکہ بیرونی دشمنوں کو ایسی آوازوں کی ضرورت رہتی ہے پھر ایسے واقعات کو دیکھ کر ہمارے خلاف سازشوں میں تیزی لاتے ہیں۔ ان دنوں بھی ایسے ہی ہو رہا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پاکستان کے تمام شہریوں سے یکساں سلوک نہ ہو لیکن مجھے یہ بھی تو بتائیں وہ بہکے ہوئے لوگ جن معصوم پاکستانیوں کو براہ راست نشانہ بناتے ہیں، یا ان بھٹکے ہوئے لوگوں کی ان ڈائریکٹ کارروائیوں سے پاکستان کے شہریوں کو جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے اور ملک کو بھاری مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑتا ہے، بین الاقوامی سطح پر ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے، بدامنی پھیلتی ہے، لوگوں کی قیمتی جانوں کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے، پاکستان میں سرمایہ کاری کو نقصان پہنچتا ہے، کھیلوں کی بین الاقوامی سرگرمیاں معطل ہوتی ہیں، ثقافتی سرگرمیوں کو نقصان پہنچتا ہے، خاندان تباہ ہوتے ہیں اور وہ لوگ جو ان تخریبی و دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں ان کے خلاف کارروائیوں کو بنیاد بنا کر انسانی حقوق کے نام نہاد چیمپئن میدان میں آتے ہیں اور پھر یہ سمجھے بغیر کہ کون ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے، کون اس ملک کے لیے کتنا نقصان دہ ہے، یہ جانے بغیر ملک دشمنوں کی ایک منظم مہم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ آج بھی پاکستان کو کمزور کرنے اور ہماری شناخت پر حملے ہو رہے ہیں۔ بھارت ہر وقت پاکستان کے خلاف کام کرتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں ہونے والی بدامنی میں بھارتی مداخلت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان بھارتی مداخلت کے کئی ثبوت عالمی اداروں کو پیش کر چکا، دنیا کو یہ بتا چکا ہے کہ کیسے پاکستان میں امن و امان کو نقصان پہنچانے کے لیے بھارتی خفیہ ایجنسی "را" سرمایہ خرچ کرتی ہے اور کیسے پاکستان مخالف عناصر کو استعمال کرتی ہے۔
نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ احتجاج کا سب کو حق ہے مگر آئین کے اندر رہ کر کرنا چاہیے، مجھے خوشی ہوئی پنجاب کے لوگوں کو بلوچستان کے لوگوں سے ہمدردی ہے، 9 مئی کو احتجاج کرنے والوں کا بھی یہی ایشو تھا وہ قانون کے دائرے سے باہر آگئے تھے۔
نگران وزیر اعظم کہتے ہیں کہ "احتجاج والوں کے ساتھ پولیس کی جھڑپ کو غزہ سے جوڑا جا رہا ہے، جو یہاں کی صورتحال غزہ سے جوڑ رہے تھے ان کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے، کسی نے پوچھا کہ بلوچستان میں مسلح تنظیمیں لوگوں کو قتل کیوں کرتی ہیں ؟ کوسٹل ہائی وے پر چودہ افراد جل کر مر گئے کسی نے نہیں پوچھا کہ قاتل کیوں نہیں پکڑے، بلوچستان میں ٹیچرز ، وکلا ، مزدور قتل ہو رہے ہیں کسی کے منہ سے لفظ تک نہیں نکلتا۔ احتجاج کی آڑ میں دہشت گردوں کو سپورٹ کرنے والوں کو قبول نہیں کریں گے، جن لوگوں نے حمایت کرنی ہے وہ ان مسلح تنظیموں کا کیمپ جوائن کریں، اپنے پیاروں کے لیے احتجاج کرنے والوں کو حق ہے، باقی صرف تنقید کر رہے ہیں، یہ ریاست اور مسلح تنظیموں کے درمیان جھگڑا ہے، یہ مسلح لوگ تین سے پانچ ہزار لوگوں کو مار چکے ہیں، یہ لوگ دہشت گردی کو جدوجہد کہتے ہیں۔"
یہ بھی سمجھنے والی بات ہے کہ امریکہ بھی پاکستان مخالفوں کی مدد کر رہا ہے۔ ٹی ٹی پی کے وہ دہشت گرد جو دنیا کے امن کو تباہ کرنے پر تلے ہیں وہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں اور یہ دہشتگرد امریکی ساخت کا اسلحہ استعمال کر رہے ہیں۔ یہ بھی حیران کن ہے اور وہ سیاست دان جو پاکستان کے سادہ لوح لوگوں کی معصومیت سے فائدہ اٹھاتے ہیں انہوں نے ٹی ٹی پی کے لوگوں کو دوبارہ پاکستان میں گھسایا اور جن کے کہنے پر گھسایا ان کا بنا ہوا اسلحہ بھی استعمال کر رہے ہیں تو پھر جان جاو میرے دوستو کون کون کہاں کہاں کیسے کیسے ملا ہوا ہے اور کیسے کیسے ملک کو نقصان پہنچانے والوں کا ساتھ دے رہا ہے اور لوگوں سے غلط بیانی بھی کر رہا ہے۔ ذرا نظر دوڑائیں کون تھا حکمران جب ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کو آزادی ملی اور اس کا کیا نتیجہ نکلا آج سب کے سامنے ہے۔ آٹھ ہفتوں سے بھی کم وقت میں متعدد بار دہشت گردوں سے امریکی ساخت کا اسلحہ برآمد ہوا ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ تسلسل ہے اور نہایت تشویشناک ہے۔
اکتیس دسمبر کو باجوڑ میں پاک افغان سرحد پار کرنے والے تین دہشتگردوں سے ملنے والا اسلحہ بھی امریکی ساخت کا نکلا۔ دہشتگردوں سے ایم فور کاربائین امریکی ساخت کا اسلحہ برآمد ہوا جب کہ انتیس دسمبر کو بھی میر علی میں دہشتگردوں سے ایم فور کاربائین ، اے کے47 اور گولہ بارود برآمد ہوا تھا، میرعلی آپریشن کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں دہشت گرد کمانڈر راہزیب کھورے سمیت 5 دہشت گرد ہلاک ہوئے تھے۔ پہلے بھی متعدد بار پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں میں غیر ملکی ہتھیار استعمال کیے گئے، بلوچ لبریشن آرمی نے فروری 2022 میں نوشکی اورپنجگور میں ایف سی کیمپ حملے میں غیرملکی ہتھیار استعمال کیے۔ 4 نومبر کو میانوالی ائیربیس حملے میں دہشتگردوں سے برآمد ہونیوالا اسلحہ غیر ملکی ساخت کا تھا جب کہ بارہ دسمبرکو ڈی آئی خان درابن حملے میں دہشتگردوں نے نائٹ ویڑن گوگلز اور امریکی رائفلز استعمال کی، پندرہ دسمبر کو ٹانک میں دہشت گردی کے واقعے میں دہشتگردوں کے پاس جدید امریکی اسلحہ پایا گیا، دہشت گردوں نے ایم 16/A2، گرنیڈ، اے کے-47 استعمال کیے۔ اس کے علاوہ 13 دسمبر کو افغانستان سے پاکستان آنے والی گاڑی سے پیازکی بوریوں سے بھی امریکی ہتھیار برآمد کیے اس اسلحے میں جدید امریکی ساختہ ایم فور، امریکی رائفل، گرنیڈ شامل تھے۔
ان حالات میں کیا ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے ہمارا فرض اور ذمہ داری نہیں ہے کہ ہم اپنے ملک کے دفاعی اداروں کی قربانیوں کی قدر کریں اور پاکستان کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہو جائیں۔ ہمیں اپنے اختلافات کو اپنے تک رکھنا چاہیے لیکن جب بات ملک کے مستقبل اور قومی مفاد کی ہو تو ہمیں تمام تر اختلافات کو بھلا کر ملک کے مستقبل کو اہمیت دینی چاہیے۔ بلوچ قیادت میں کتنے لوگ قومی دھارے میں شامل ہو چکے ہیں اور وہ برملا یہ اظہار بھی کر چکے ہیں کہ بھارت کیسے پاکستان مخالف کام کرنے والوں کی مدد کرتا ہے۔ یہ حقائق اور شواہد ہمارے سامنے ہوں اور ہم پھر بھی اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں۔ قوم کو گمراہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے بدقسمتی سے قوم کو بھی جھوٹ سننے کی اتنی عادت ہو چکی ہے کہ سچ ان کے کانوں پر اثر ہی نہیں کرتا۔ بہرحال پاکستان دشمنوں کو خبر ہو کہ وہ سازشیں کرتے رہیں ان کی ہر سازش ناکام ہو گی، ان کے دانت بھی کھٹے ہوں گے، ان کے سازشیں کرداروں کو ناصرف بے نقاب کیا جائے گا بلکہ منطقی انجام تک بھی پہنچایا جائے گا۔ پاکستان قائم رہے گا پاکستان کا ہر شہری مادر وطن کے دفاع کے لیے پرعزم ہے اور افواج پاکستان کا ہر افسر اور جوان ملکی دفاع کے لیے قیمتی جان قربان کرنے کے لیے بھی ہروقت تیار ہے۔
نئے سال کے موقع پر محسن نقوی کا کلام
نئے سال کی صبحِ اول کے سورج!
میرے آنسوؤں کے شکستہ نگینے
میرے زخم در زخم بٹتے ہوئے دل کے
یاقوت ریزے
تری نذر کرنے کے قابل نہیں ہیں
مگر میں
ادھورے سفر کا مسافر
اجڑتی ہوئی آنکھ کی سب شعائیں
فِگار انگلیاں
اپنی بے مائیگی
اپنے ہونٹوں کے نیلے اْفق پہ سجائے
دْعا کر رہا ہوں
کہ تْو مسکرائے!
جہاں تک بھی تیری جواں روشنی کا
اْبلتا ہوا شوخ سیماب جائے
وہاں تک کوئی دل چٹخنے نہ پائے
کوئی آنکھ میلی نہ ہو، نہ کسی ہاتھ میں
حرفِ خیرات کا کوئی کشکول ہو!
کوئی چہرہ کٹے ضربِ افلاس سے
نہ مسافر کوئی
بے جہت جگنوؤں کا طلبگار ہو
کوئی اہلِ قلم
مدحِ طَبل و عَلم میں نہ اہلِ حَکم کا گنہگار ہو
کوئی دریْوزہ گر
کیوں پِھرے در بدر؟
صبحِ اول کے سورج!
دْعا ہے کہ تری حرارت کا خَالق
مرے گْنگ لفظوں
مرے سرد جذبوں کی یخ بستگی کو
کڑکتی ہوئی بجلیوں کا کوئی
ذائقہ بخش دے!
راہ گزاروں میں دم توڑتے ہوئے رہروؤں کو
سفر کا نیا حوصلہ بخش دے!
میری تاریک گلیوں کو جلتے چراغوں کا
پھر سے کوئی سِلسلہ بخش دے،
شہر والوں کو میری اَنا بخش دے
دْخترِ دشت کو دْودھیا کْہر کی اک رِدا بخش دے!