”پاک چین سفارتی تعلقات کے 60 سال“ کی کامیاب تکمیل

مشاہد حسین
پاکستان میں تین ایشوز کے حوالے سے مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ یہ تین ایشوز نیوکلیئر‘ مسئلہ کشمیر اور پاک چین دوستی ہیں۔ یہ ہمارے قومی مفاد اور مقاصد کیلئے ضروری ہیں۔ ہم نے پاک چائنہ انسٹیٹیوٹ ایک سال پہلے شروع کیا تھا۔ آج دنیا میں بہت سی تبدیلیاں آ رہی ہیں ایسے میں پاکستان کا استحکام اور خوشحالی چین سے قربت میں وابستہ ہے۔ پاک چین سٹرٹیجک تعلقات کا بھی آغاز ہو چکا ہے۔ ہمارا قائم کردہ پاک چائنہ انسٹیٹیوٹ ایک تھنک ٹینک ہے جس نے تین بنیادی کام کئے ہیں۔ پہلا یہ کہ ایک ای میگزین شروع کیا ہے۔ ”نی ہا¶ سلام“ کے نام سے یہ ای میگزین ہم ہر مہینے شائع کرتے ہیں۔ ابھی یہ انگریزی میں ہے لیکن چھ ماہ بعد اسے اردو اور چینی زبان میں بھی شروع کر دیں گے۔ گذشتہ سال جب میں چین گیا تو ایک بڑے سکول سسٹم کے مالک کو بھی اپنے ساتھ لے گیا اور ان سے کہا کہ تم جرمن‘ فرانسیسی زبان سکھا رہے ہو اس پر تم وقت ضائع نہ کرو‘ ادھر آ¶۔ اس وقت چینی زبان انگریزی کے بعد مقبول ترین زبان ہے لہٰذا تم چینی زبان سکھانا شروع کرو۔ لہٰذا پہلی دفعہ ہماری کاوش سے روٹ سکول سسٹم نے سکول کے بچوں کو چینی زبان سکھانا شروع کی اور اس وقت اسلام آباد میں کلاس اول سے آٹھویں تک ایک ہزار طالب علم چینی زبان سیکھ رہے ہیں۔ ہم چین سے استاد لے کر آئے ہیں اور اب مختلف سکول سسٹم اس حوالے سے کام کرنا چاہ رہے ہیں۔
چینی زبان کو پاکستانی نوجوانوں‘ خواتین اور مرد سب سیکھیں اور اس کو آگے پہنچائیں۔ تیسری بات ہم نے یہ کی کہ دوستی کے سال کی مناسبت سے ہم RISING CHINA کے ٹائٹل سے ایک ڈاکومنٹری تیار کر رہے ہیں اور یہ میں پی ٹی وی کےساتھ مل کر بنا رہا ہوں۔ پی ٹی وی اور پاک چائنہ انسٹیٹیوٹ کے تعاون سے تیار ہونےوالی اس ڈاکومنٹری کا تھیم ”ابھرتا ہوا چین اور جدید پاکستان“ ہو گا۔ ہم پاک چین دوستی کے حوالے سے یہ چند کام کر رہے ہیں اور ان میں کافی پیشرفت ہوئی ہے۔ اس وقت دنیائے سیاست میں کافی تبدیلیاں آ رہی ہیں جو بہت اہم ہیں۔ ایک بنیادی تبدیلی اور نئی حقیقت تو یہ ہے کہ اقتصادی و سیاسی قوت اور طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی جانب منتقل ہو رہا ہے۔ اگر انیسویں صدی برطانیہ کی تھی‘ بیسویں صدی امریکہ کی تھی تو اکیسویں صدی ایشیا کی ہو گی اور اب طاقت کا توازن یورپ اور امریکہ سے نکل کر ہمارے خطے میں آ رہا ہے۔ آج سب سے مضبوط اور ابھرتی ہوئی نئی طاقت عوامی جمہوریہ چین ہے جو ہمارا ہمسایہ اور دیرینہ دوست ہے۔ اس کو مت بھولیں۔ دوسری بات جو اہم ہے کہ چین کی بڑھتی قوت اور پرامن طور پر نہایت تیزی سے آگے بڑھنے سے کچھ لوگ خائف ہو کر اب یہ کوشش کر رہے ہیں کہ چین کو کس طرح روکا جائے‘ اس مقصد کیلئے مغرب کے چند گروپ ہندوستان کو تیار کرنا چاہتے ہیں اور اسکی بنیاد 2005ءمیں بش انتظامیہ نے رکھی تھی جب ہندوستان کےساتھ امریکہ نے نیوکلیئر معاہدہ کیا۔ اس کا اصل مقصد چین کو ہندوستان کے مقابلے میں مضبوط کرنا ہے۔ اس حوالے سے ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ آپ کو علم ہو گا کہ دہلی میں موجود چینی سفارتخانہ میں جب ہندوستان میں رہنے والے مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگ ویزہ کیلئے اپلائی کرتے ہیں تو وہ ہندوستان کے پاسپورٹ پر ویزہ نہیں لگاتے ہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ یہ متنازعہ علاقہ ہے اور وہ علیحدہ ایک سفید صفحہ پر ویزہ دیتے ہیں اور اسے پاسپورٹ کےساتھ لگاتے ہیں کہ ہم مقبوضہ کشمیر پر آپ کا قبضہ نہیں مانتے ہیں۔ گذشتہ سال ہندوستان کے ایک وفد نے چین جانا تھا تو ہندوستان نے جان بوجھ کر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے کمانڈر جنرل جسپال کو بھیجنا چاہا تو چین نے کہا کہ ہم اس شخص کو ویزہ نہیں دیں گے کیونکہ یہ ایک مقبوضہ فوج کے متنازعہ علاقے کا کمانڈر ہے۔ اس بات پر ایک سال تک انکے فوجی تعلقات منقطع رہے جو اب دوبارہ شروع ہوئے ہیں۔
چین نے ہمارا ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا ہے۔ ہندوستان کی کوشش تھی کہ وہ سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بن جائے اور اس کی تائید امریکہ‘ فرانس اور برطانیہ بھی کر چکے ہیں‘ تاہم چین نے پاکستان کا ساتھ دیا اور اس معاملے کو روکا ہوا ہے۔ یہاں دلائی لامہ کا ذکر ہوا ہے‘ وہ اب ہندوستان میں ہی رہتا ہے اور سیاست کو خیرباد کہہ چکا ہے۔ وہاں انہوں نے اب ایک نیا وزیراعظم بنا دیا ہے۔ اس نے ایک غیر ملکی ٹی وی کو اپنے پہلے انٹرویو میں کہا کہ ہندوستان کو خائف ہونا چاہئے کہ چین کس طرح اس خطے میں ہندوستان کا محاصرہ کر رہا ہے۔ یہ تبت کے رہنما نے کہا جو امریکہ اور ہندوستان نواز ہے۔ مطلب یہ کہ چین‘ پاکستان‘ سری لنکا‘ نیپال‘ بنگلہ دیش‘ میانمر اور افغانستان کےساتھ تعلقات بنا رہا ہے۔ تیسری حقیقت یہ ہے کہ عراق اور افغانستان میں ناکامی کے بعد امریکہ کمزور ہوا ہے۔ لہٰذا ہم دیکھ رہے ہیں کہ نئی قوتیں جو پہلے امریکہ پر بہت انحصار کر رہی تھیں‘ اب ایسا نہیں ہے بلکہ مسلمان طاقتیں بھی ابھر رہی ہیں جنہیں میں ”مسلم مڈل پاورز“ کہتا ہوں۔ پاکستان‘ ترکی‘ مصر اور سعودی عرب بھی خارجہ پالیسی کے حوالے سے اب اپنا آراستہ آزادانہ طریقے سے اختیار کر رہے ہیں۔ یہ بہت بڑی نئی تبدیلی ہے کہ وہی ممالک جن کا انحصار امریکہ پر تھا اور امریکہ کی خارجہ پالیسی کو ہی لے کر چلتے تھے‘ اب زیادہ آزادانہ راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ ہم نے امریکہ کی مخالفت کے باوجود ایران سے پائپ لائن کا معاہدہ کیا۔ ترکی نے کہا کہ ہم استنبول میں طالبان کا دفتر کھولیں گے۔ مصر نے فلسطین کے معاملے پر کہا کہ حسنی مبارک کی پالیسی غلط تھی۔ سعودی عرب نے بھی پاکستان‘ چین اور دیگر ممالک کےساتھ مل کر نیا راستہ نکالا۔ لہٰذا یہ ایک نئی بنیادی تبدیلی ہے اور اس کو نوٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ نے ہمارے ساتھ وعدہ کیا کہ اگلے پانچ سال میں ہم آپ کو 7.5 بلین ڈالر کیری لوگر بل کے تحت اقتصادی امداد دینگے۔ اگلے 5 سالوں میں 3 ارب ڈالر فوجی امداد دینے کا بھی کہا گیا جبکہ گذشتہ سال جب جنرل کیانی امریکہ گئے اور صدر اوبامہ سے ملے تو انہوں نے کہا کہ 2 ارب ڈالر فوجی امداد ہم مزید دینگے۔ اس کا مطلب ہے کہ 5 سالوں میں امریکہ 12.5 بلین ڈالر ہماری مجموعی امداد کرےگا۔
امریکہ کا عراق اور افغانستان کی جنگ کا ہر ہفتے کا خرچہ چار ارب ڈالر ہے۔ یعنی ہر ہفتے عراق اور افغانستان کی جنگ میں امریکہ چار ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکہ پاکستان کو جو امداد دے رہا ہے‘ وہ انکی عراق اور افغانستان کی جنگ کے تین ہفتے کا خرچہ ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ سب سے زیادہ قربانیاں‘ کاوشیں اور سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار پاکستان ہے۔ کسی اور ملک نے اتنا کچھ نہیں کیا جتنا پاکستان نے کیا ہے۔ یہ حقائق کی بات ہے۔ میں پاک چین تعلقات کے حوالے سے ایک اور بات کہنا چاہوں گا کہ اب چین نے کہا کہ پاکستان اور اس خطے کے حوالے سے ہم اپنے تعلقات صوبہ سنکیانگ پر فوکس کرینگے۔ جس کا ایک شہر کاشغر ہے۔ وہ علاقہ پاکستان کے بارڈر سے چار گھنٹے کی مسافت پر ہے وہاں وہ ایک خصوصی اکنامک زون بنا رہے ہیں اور اس زون میں چینیوں نے اگلے 5 سال میں پندرہ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنی ہے۔ کاشغر میں جو اکنامک زون بنے گا‘ وہ پاکستان‘ ازبکستان‘ قازقستان‘ کرغزستان اور تاجکستان پر فوکس کرےگا۔ ایک ٹرین سروس کا آغاز ہو گا جو حویلیاں سے کاشغر تک جائےگی‘ اسکی فزیبلٹی رپورٹ تیار ہو گئی ہے۔ اسکے علاوہ بھی متعدد پراجیکٹس ہیں۔ یعنی یہ خطہ اب کھل رہا ہے۔ ان منصوبوں سے پاکستان اور پاکستانیوں کو مختلف شعبوں میں فائدہ ہو گا۔ پاکستانی طالب علم میڈیکل کی تعلیم کیلئے چین کا رخ کر رہے ہیں۔ سائنس ٹیکنالوجی میں دیکھیں تو اس وقت دنیا کا سب سے بڑا سپر کمپیوٹر چین کے پاس ہے۔ چین مختلف شعبوں میں ترقی کر رہا ہے۔ انکی دو باتیں منفرد ہیں جو عالمی تاریخ میں بہت کم ہیں۔
ایک تو یہ کہ جب 1978ءمیں انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم نے ماضی کی غلطیاں نہیں دہرانی اور اقتصادی ترقی کا نیا راستہ اختیار کرنا ہے۔ ایک جنریشن کے اندر 25 سال ہوتے ہیں‘ انہوں نے 650 ملین لوگ یعنی 65 کروڑ لوگ غربت سے نکال کر مڈل کلاس میں لے آئے۔ انہوں نے پرامن طریقے سے اتنی بڑی آبادی کو غربت سے 25 سالوں میں نکال لیا۔ عالمی تاریخ میں ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہندوستان نے بھی ترقی کی ہے لیکن اب بھی ایک ارب لوگ وہاں غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ 2003ءمیں چین نے یہ فیصلہ کیا کہ لیڈرشپ میں جتنے لوگ 70 سال کے ہیں وہ خود ریٹائرڈ ہو جائینگے اور انکی جگہ نئے لوگ آ جائینگے۔ انتقال اقتدار کا مسئلہ انہوں نے حل کر لیا ہے جو مسلمانوں کیلئے ایک بڑا مسئلہ رہا ہے کہ یہ پرامن خوشگوار اور خون خرابے کے بغیر ہو اور نظام میں استحکام بھی رہے۔ چینیوں نے پرامن انتقال اقتدار کا بندوبست کر لیا ہے جو ایک بڑی کامیابی ہے۔ ہمارے جو بیوروکریٹس پڑھنے کیلئے باہر جاتے ہیں انہیں چین جانا چاہئے کہ گڈ گورننس کیسے مہیا کی جاتی ہے‘ یہ ایک اچھا تجربہ ہو گا۔ میں آخر میں جناب مجید نظامی صاحب کا ممنون ہوں۔ مجید نظامی صاحب نے ہمیشہ پاکستان اور پاکستانی نظریات کے حوالے سے ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ ہمارے نظریات اور قومی مفادات کی بات کی ہے۔ خاص طور پر انہوں نے نظریاتی حوالے سے قائداعظمؒ‘ علامہ محمد اقبالؒ اور مادر ملتؒ کے نظریات کو زندہ رکھا ہوا ہے اور ان کو آگے لے کر چل رہے ہیں۔ خاص طور پر خارجہ پالیسی کے حوالے سے انہوں نے جو وژن دیا ہے اس خطے کے حوالے سے میرے خیال میں اس حوالے سے پوری قوم آپکی ممنون ہے۔ آپ کو پیشگی مبارکباد دیتا ہوں اوریہ بڑے ریکارڈ کی بات ہے کہ اگلے سال فروری میں جناب مجید نظامی کی بطور ایڈیٹر ”نوائے وقت“ گولڈن جوبلی ہو گی۔ فروری 1962ءمیں جب حمید نظامی صاحب کا انتقال ہوا تو مجید نظامی صاحب اس وقت لندن میں تھے کہ یکدم اتنا افسوسناک واقعہ ہو گیا۔ آپ واپس آئے اور ”نوائے وقت“ کو سنبھالا۔ انہوں نے ادارے کو مضبوط کیا۔ ایوب خان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بھی دوسرے آمروں کا مقابلہ کیا اور مجھے معلوم ہے کہ ضیاءالحق آپ سے تنگ پڑ گیا تھا۔
میرے خیال میں اس موقع کی مناسبت سے ایک خاص تقریب جناب مجید نظامی کے اعزاز میں منعقد ہونی چاہئے۔ آپ ”انسٹی ٹیوشن بلڈر“ ہیں۔ ہمارے ہاں ادارے بہت کم بنتے ہیں۔ حکومتی وسائل کے ہوتے ہوئے ادارہ بنانا کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن حکومت سے باہر رہ کر ایک وژن کو کامیابی سے لے کر چلنا اس کا سارا کریڈٹ جناب مجید نظامی کو جاتا ہے۔ اگلے سال انکی ایڈیٹری کی گولڈن جوبلی شایان شان طریقے سے منانی چاہئے۔ یہ گولڈن جوبلی پاکستان کی تاریخ کا بھی ایک حصہ ہے جس میں جناب مجید نظامی کا کلیدی کردار رہا ہے۔
(خصوصی نشست نظریہ پاکستان ٹرسٹ)

ای پیپر دی نیشن