اکرم زکی
یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور کے اس دفتر میں پاک چین دوستی کے حوالے سے ایک خاص تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ تقریب اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جب گذشتہ دسمبر میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے یہ اعلان کیا تھا کہ 2011ءکو خاص طور پر پاک چین دوستی کا سال سمجھ کر منایا جائےگا۔ ویسے میرے خیال میں ہمارا ہر سال دوستی کا سال اور ہر دن دوستی کا دن ہے لیکن اس سال کی اہمیت یہ ہے کہ اس سال پاکستان اور چین میں بے شمار تقریبات کا انتظام کیا گیا اور کیا جا رہا ہے۔ دونوں ممالک اس کو بڑی اہمیت دے رہے ہیں تاکہ ہماری دوستی کا رشتہ اگلی نسلوں تک پہنچایا جائے اور اس تعاون کو فروغ دینے کےلئے مزید عملی اقدامات کئے جائیں۔
جب آدمی مستقبل کے منصوبے بناتا ہے تو یہ قدرتی بات ہے کہ ماضی کا ایک جائزہ لینا پڑتا ہے کیونکہ ماضی مستقبل کے تعاون کی بنیاد فراہم کرتا ہے اور فیصلے تو حال میں ہی ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے میں یہ کہوں گا کہ یہاں تقریب کے آغاز میں قومی ترانہ پڑھا گیا جس کے آغاز پر کہا گیا ”قوت اخوت عوام“ تو قوت عوام کا صحیح نمونہ ہمیں چین میں ملتا ہے کہ قوت اخوت عوام سے کیا کیا جا سکتا ہے اور کیا نہیں کیا جا سکتا۔ قوت اخوت عوام جو ہمارے ترانے کا حصہ ہے وہ چین کا عملی نصب العین ہے۔ وہاں کی ترقی کا راز یہ ہے کہ ایک بیدار مغز اور دیانتدار قیادت نے لوگوں کے جذبہ تعمیر کو اجاگر کر کے انکی تعمیری صلاحیتوں کو پنپنے کا موقع دیا اور اس طرح وہ گذشتہ 30برسوں میں ترقی کی منازل طے کرتے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں۔ پاک چین دوستی کو منانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کے کردار، تجربات اور اصولوں سے کچھ فائدہ اٹھا کر اس طرف چلنا شروع کریں۔ جب عوامی جمہوریہ چین معرض وجود میں آیا تو اسکے چند مہینوں بعد پاکستان نے اسے چین کی حکومت کے طور پر تسلیم کر لیا۔ اگرچہ اس وقت بڑی طاقتوں نے اسے تسلیم نہیں کیا تھا اور وہ تائیوان کو ہی چین مانتے رہے۔ 5جنوری 1950ءکو پاکستان نے عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا اور 21مئی 1951ءکو ہمارے آپس میں سفارتی تعلقات بھی قائم ہو گئے۔ شروع میں ہمارا چین کےساتھ ایک رسمی سا رشتہ تھا۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان نے پیش قدمی کر کے چین کےساتھ دوستی کا ہاتھ بھڑایا اور ہندی، چینی بھائی بھائی کا نعرہ لگایا لیکن ہم اپنی مجبوریوں کے تحت کیونکہ ہندوستان سے ہمیں خطرہ لاحق تھا اور وہ ہمارے حقوق سلب کرنے کی کوشش کر رہا تھا، اس نے کشمیر پر حملہ کر دیا، تقسیم کے وقت نہ ہمارے حصے کے پیسے دیے اور نہ مال دیا جبکہ دریاﺅں کا پانی بھی روک لیا تو ہم نے مجبوراً اپنی سلامتی کی خاطر مغربی طاقتوں کےساتھ رشتہ قائم کر لیا اور ان کے عسکری پروگراموں میں ہم بھی شامل ہو گئے۔
ہمارا خیال تھا کہ اس سے ہمیں قوت ملے گی اور جو ہمیں ملی لیکن انہوں نے ہمیں اپنے ساتھ اس لئے شامل کیا کہ وہ ہمیں روس کےخلاف استعمال کرنا چاہتے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم ان سے جو کچھ لے رہے ہیں ہم اسے ہندوستان کےخلاف استعمال کر سکیں گے۔ کیونکہ ہاتھ میں اگر چیز ہو تو استعمال ہو ہی جاتی ہے۔ اگرچہ اس میں پابندیاں تھیں اور ہمیں علم تھا کہ پابندیاں ہیں۔ اس وقت ہم مغرب کی طرف چلے گئے لیکن چین میں بصیرت تھی۔ انہوں نے اسکے باوجود ہمارے ساتھ برا سلوک نہیں کیا۔ روس اس بات سے بہت خفا ہوا لیکن چین نے کہا کہ ٹھیک ہے ان کی اپنی کچھ مجبوریاں ہیں۔ انہوں نے دوستی نہیں بڑھائی لیکن ہمیں کوئی نقصان بھی نہیں پہنچایا۔ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کی پہلی ملاقات محمد علی بوگرہ ہمارے وزیراعظم اپریل 1955ءکو Bandung کانفرنس میں ہوئی جہاں بہت اچھا رابطہ ہوا اور دونوں نے مل کر دیکھا کہ ہندوستان تیسری دنیا پر غلبہ پانے کی خواہش رکھتا ہے لہٰذا وہ اس کےخلاف متحد ہو گئے۔ چینی وزیراعظم چو این لائی نے ہمارے وزیراعظم کو اور ہمارے وزیراعظم نے ان کو دورہ کی دعوت دی لیکن کیونکہ اس وقت ہمارے ہاں حکومتوں کی تبدیلیاں جلدی جلدی ہو رہی تھیں اس لئے جب وقت آیا تو حسین شہید سہروردی وہاں جانےوالے پہلے وزیراعظم تھے لیکن تاریخ ریکارڈ پر ہے کہ حسین شہید سہروردی چین کے ساتھ دوستی کی طرف زیادہ مائل نہیں تھے بلکہ وہ مغرب کی طرف مائل تھے۔ بہرحال ملاقاتوں کا آغاز ہو گیا اور چین کے وزیراعظم پہلی بار دسمبر 1956ءمیں پاکستان تشریف لائے اور مجھے اس دن ان کا پروٹوکول کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس وقت میرے کیریئر کا آغاز تھا اور میں جونیئر افسر تھا۔ دو ممالک کے تعلقات اس وقت فروغ پاتے ہیں جب انکے مفادات مشترک ہوں۔
1960ءکی دہائی میں اپنے مغربی دوستوں سے کچھ مایوسی ہونے لگی۔ کیونکہ وہ اتحادی اور دوست تو ہمارے تھے لیکن سرپرستی ہندوستان کی کرتے تھے۔ جب ہم ان سے مایوس تھے تو چین اور ہندوستان کے درمیان بھی تبت کے معاملے پر نفاق پیدا ہو گیا۔ خاص طور پر جب دلائی لامہ بھاگ کر ہندوستان آ گئے تو معاملہ بہت بگڑ گیا۔ چین نے اس وقت معاملے کو سلجھانے کی بہت کوشش کی لیکن معاملہ نہ سلجھا۔ آخر 1962ءمیں ان دونوں کی لڑائی ہو گئی۔ پاکستان نے 1961ءمیں بلکہ 1960ءکے آخر میں کچھ پیغام چین کو بھیجے تھے کہ ہم آگے بڑھیں۔ چین نے ایک سال بعد اس کا جواب اس وقت دیا جب ان کے ہندوستان کےساتھ تعلقات کافی بگڑ چکے تھے۔ اتفاق سے محمد علی بوگرہ واپس آکر وزیر خارجہ بن گئے۔ 1960ءمیں ہماری بات چیت بڑھی او راس سال کے آخر تک چین کےساتھ یہ معاہدہ ہو گیا کہ ہم تجارت بھی کرینگے، اپنی سرحدوں پرتنازع پیدا نہیں ہونے دینگے بلکہ اسے حل کرینگے جبکہ مستقبل میں بہت سے شعبوں میں تعاون کرینگے۔ یہاں میں ایک تاریخی واقعہ کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں کہ 2فروری 1963ءکو محمد علی بوگرہ نے چین جا کر بارڈر ایگریمنٹ پر دستخط کرنا تھے۔ اسکے کاغذات تیار ہو گئے تھے۔ 30 جنوری کو وہ انتقال کر گئے تو انکی جگہ ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ بن گئے۔ 2مارچ کو انہوں نے چین جا کر اس معاہدے پر دستخط کئے۔ اور اس بات کا پورا کریڈٹ لیا کہ چین کی پالیسی کا میں بانی ہوں۔ اس طرح یہ معاہدہ فروری کے بجائے مارچ کو ہوا اور دستخط کرنےوالے کے نام بدل گئے۔ لہٰذا تاریخ کو یہی منظور تھا۔ جنوری میں ہمارا ٹریڈ ایگریمنٹ (تجارتی معاہدہ) ہو چکا تھا۔ ایک نئی بات یہ ہوئی کہ چین کے روس کےساتھ تعلقات بھی بگڑ چکے تھے۔ اور انکا آپس میں ”شیعہ سنی فساد“ ہو گیا تھا۔ انکے آپس میں آئیڈیالوجی پر اختلافات پیدا ہو چکے تھے اور پھر روس نے انکی مدد کرنا بند کر دی۔ خاص طور پر نیوکلیئر فیلڈ میں انکی مدد نہ کی تو انہوں نے کہا کہ تم کون ہو اور ہم کون۔ اب چین کسی اور طرف جانے کا بھی سوچ رہا تھا۔ روس اور امریکہ اسکے مخالف تھے۔ فوجیں جاپان، کوریا اور تائیوان میں بیٹھی ہوئی تھیں اور چین بالکل گھیرے میں آیا ہوا تھا تو پاکستان نے چین کو دنیا کے ساتھ جانے کا راستہ دیا اور ایک ائر سروس کا معاہدہ کیا۔
پی آئی اے کی پہلی پرواز 29اپریل 1984ءکو 3:54پر شنگھائی میں اتری۔ اس طرح چین کو دنیا کے ساتھ راستہ ملا اور ان کی جو ناکہ بندی ہوئی تھی ہم نے ان کےلئے اس ناکے کو توڑا جس کے باعث انکے دل میں ہمارے لئے بہت قدر پیدا ہوئی۔ 1965ءمیں جب ہندوستان نے ہم پر حملہ کیا تو کس کو یاد نہیں کہ چین نے ہندوستان کو الٹی میٹم دےدیا کہ ہماری بکریاں واپس کر دو ورنہ ہم حملہ کر دیں۔ انہوں نے اس حد تک ہمارا ساتھ دیا۔ ایران، ترکی اور انڈونیشیا نے بھی ہمارا ساتھ دیا۔ 1965ءکی جنگ میں ان ممالک نے ہماری مدد کی۔ اسکے بعد چین کےساتھ 1966ءسے ہمارے دفاعی تعلقات فروغ پانے لگے اور انہوں نے ہماری تینوں افواج (بری، بحری، فضائیہ) کو بے شمار مال دیا اور ایک بات راز کی کہوں کہ 1966ءسے لےکر 1978ءتک چین نے ہماری فوج کو جو کچھ بھی دیا اس کا ایک پیسہ بھی نہیں لیا جس میں 600کے قریب جہاز، نیوی کے فریگٹس، ائر فورس کےلئے جہاز، آرمی ٹینکس وغیرہ شامل تھے۔ اور یہ تمام اشیاءہمیں مفت دیں۔ چین کے رہنما ماﺅزے تنگ نے کہا کہ ہتھیار وہ بیچتے ہیں جو موت کے سوداگر ہوں۔ ہم تو دوست ہیں اس لئے ہم کوئی پیسے نہیں لیں گے۔
اس جذبے کے تحت جب انہوں نے 1965ءکی جنگ میں ہماری مدد کی تو ہمارے دلوں میں اور ہم نے جو چین کی تھوڑی بہت مدد کی اسکے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان ایک ایسا رشتہ استوار ہو گیا جو اب بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اسکے بعد دنیا کے حالات بدلتے رہے۔ حکومتیں یہاں بھی اور وہاں بھی بدلتی رہیں لیکن دوستی کا یہ رشتہ پروان چڑھتا رہا۔ 1970ءکی دہائی میں بہت اہم واقعات رونما ہوئے۔ ایک ہم نے مشرقی پاکستان میں اپنا بیڑہ غرق کیا۔ دوسرا 1969ءمیں چین اور روس کی سرحد پر لڑائی ہو گئی اور چین روس کےساتھ لڑائی کے بعد پریشان ہونے لگا کہ کیا کرے اور کدھر جائے۔ .... (جاری )
ادھر امریکی صدر نکسن پریشان تھے کہ ویت نام کی جنگ کو کیسے بند کریں۔ اس وقت 1971ءمیں دونوں ملکوں کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان نے چین اور امریکہ کا راستہ کھولا۔ ہنری کسنچر کو خفیہ طور پر چین بھیجا اور اسکے بعد 1972ءمیں امریکی صدر نکسن کا وزٹ ہوا۔ ہنری کسنجر کو بھیجنے سے ہم نے جو راستہ کھولا تو روس اس بات پر کہ ہم امریکہ اور چین کو ملا رہے ہیں ہمارے اور چین کے اتنا خلاف ہوا کہ اس نے ہندوستان کےساتھ دفاعی معاہدہ کر کے اس کو بنگال پر حملہ کرنے کےلئے پوری مدد فراہم کی۔ اس طرح مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ روس کےساتھ اس بات کی ہم نے قیمت ادا کی۔ اس ملاقات کی ایک خاص بات یہ بتاﺅں کہ جب فروری 1972ءمیں رچرڈ نکسن چین چلا گیا تو وہاں جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اس میں چین نے یہ لکھوایا کہ پاکستان کی سلامتی اور کشمیر کاز کےلئے بات کی جائے۔ ہم نے بھی چین کی مدد کی کیونکہ جب ہم نے چین کی امریکہ کے ساتھ تھوڑی تھوڑی ملاقات کروا لی تو ہم نے امریکہ کو سمجھایا کہ یہ جو تم ہر سال ان کو اقوام متحدہ نہیں جانے دیتے اسے بند کرو۔ لہٰذا 1971ءمیں تائیوان کو نکال کر چین کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے میں بھی ہم نے چین کی مدد کی۔ اس طرح دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے حق میں کچھ نہ کچھ ہوتا رہا اور یہ رشتہ پروان چڑھتا رہا۔ چین کو جب ضرورت تھی اس نے روس سے بچنے کےلئے امریکہ کے ساتھ راستہ کھولا اور جب یہ دونوں ایک طرح سے اکھٹے ہو گئے تو اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جب روس افغانستان آیا اور ہمارے لئے بہت خطرہ پیدا ہو گیا۔ اس وقت چین اور امریکہ نے ہماری مدد کی۔ اس وقت ہماری خارجہ پالیسی کے مسائل کافی کم ہو گئے کیونکہ دنیا کی تین میں سے دو بڑی طاقتیں ہمارا ساتھ دے رہی تھیں اور ہماری دونوں کے ساتھ دوستی میں کوئی تصادم نہیں آتا تھا۔ لیکن روس کی شکست کے بعد مسائل پیدا ہوئے۔ تاہم اس دوران چند باتوں کا تذکرہ ضروری ہے۔ 1970ءکی دہائی میں چین نے ہماری خودکفالت کی طرف مدد کرنا شروع کر دی تھی۔ ہمیں بڑے بڑے پراجیکٹس بنا کر دیے۔ ہیوی مکینیکل کمپلیکس فوجی فاﺅنڈری، مشین ٹول فیکٹری، پائپ لائن، پاور پلانٹس سمیت مختلف اقسام کے تیس پروجیکٹس لگائے۔ یہ رشتہ چلتا رہا اور اس میں سب سے بڑے جو کام تھے جو 1970ءکی دہائی میں شروع ہوئے اور 1980ءکی دہائی میں مکمل ہوئے وہ قراقرم ہائی وے ہے۔ یہ جو نعرہ ہے کہ پاک چین دوستی پہاڑوں سے بلند ہے وہ اس لئے ہے کہ ہم نے پہاڑوں سے اترنے کا راستہ بھی بنا لیا ہے اور سمندر سے گہری اس لئے ہے کہ انہوں نے ہمیں آبدوز بھی ہے۔ یہ ایسے ہی باتیں نہیں بنی ہوئی ہیں۔ شہد سے میٹھی یہ اس لئے ہے کہ یہ شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہمیں لگنے لگی ہے۔ اس عرصے میں انہوں نے بہت سے پروجیکٹس یہاں مکمل کئے۔ صنعتی میدان میں یہاں ترقی ہوتی رہی۔ 1990ءکی دہائی میں پہلا نیوکلیئر پلانٹ لگایا۔ پھر دوسرا لگایا جو اب مکمل ہونے کو ہے تو اس طرح وہ ہماری تعمیر میں شامل ہو گئے۔ ہمارے دوسرے دوست جو ہم پر احسان کرتے ہیں ان کی اس طرح کی دکھانے کی کوئی چیز نہیں ہے، پتہ نہیں ان کی امداد کہاں گئی۔ پاک چین دوستی وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی رہی اور روس جب ختم ہو گیا تو افسوسناک بات یہ ہے کہ امریکہ نے اپنے لئے ایک نیا تصور بنا لیا کہ اب ہم تنہا سپرپاور ہیں اور ہم دنیا ک نقشہ جس طرح چاہیں بدل دیں۔ چین نے اس بات کو ماننے سے انکار کیا اور کہاں کہ ٹھیک ہے کہ دنیا میں ایک سپرپاور ہے لیکن بہت سی گریٹ پاورز بھی ہیں اور ایک ایسے نظام کی طرف ارتقاءہو رہا ہے جس میں بہت سی گریٹ پاورز ہوں گی۔ 2020ءتک 6مختلف پاورز کا سٹرکچر ہو گا جن کی قوت تقریباً برابر ہو گی۔ انہوں نے طاقت کا ایک نیا تصور دیا کہ طاقت صرف عسکری قوت ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ سیاسی و اقتصادی طاقت بھی ہے جبکہ اس ملک کے عوام میں پذیرائی بھی ایک طاقت ہے۔ ایک ملک کی صحیح طاقت ان سب چیزوں کا مرکب ہوتی ہے۔ اس لحاط سے چین نے دو فلسفے ایجاد کئے۔ ایک یہ کہ ہم پرامن طریقے سے ترقی کریں گے۔ دوسرا یہ کہ ہم ساری دنیا کے ساتھ اقتصادی تعاون کریں گے اور لوگوں کی مشکلات کو اپنے تجربے سے کم کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح یہ دو چیزیں تھیں جو کو لے کر چین پوری دنیا میں گیا اور اندرونی طور پر 1978ءمیں فیصلہ کیا کہ اقتصادی ترقی کو ہم نے اپنا مقصد اولین بنانا، اپنے وسائل کو ترقی دینی اور کسی کے ساتھ لڑائی جھگڑا نہیں کرتا۔ لہٰذا انہوں نے اپنے تمام ہمسایوں کے ساتھ سرحدی تنازعات حل کر لئے۔ ہندوستان کے ساتھ معاملات حل نہ ہوئے لیکن انہوں نے کہا کہ ہم منجمد کر دیں گے اور اس پر جنگ نہیں کریں گے۔ چین کا پاکستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون جاری رہا اور گذشتہ صدی کے آخر تک ہمارے تعلقات اتنے مستحکم اور پائیدار ہو گئے تھے کہ اب کوئی بڑی چیز کرنے کی ضرورت تھی اور مستقبل کا ایک نقشہ بنانا تھا۔ ہمارے تجارت بہت پیچھے رہ گئی تھی اور شاید ایک بلین سے کچھ زیادہ تھی۔ اتنی دوستی اور تجارت کے باوجود ہماری تجارت صرف ایک بلین تھی۔ اس کو بڑھانے کا فیصلہ ہوا تو 2003ءمیں ایک معاہدہ ہوا کہ ہم نے دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ ہر شعبے میں تعاہن کی نئی راہیں کھولنی ہیں اور ہمارے رشتہ Multinational اور Comprehensive ہو گا۔ یہ ہمارا وژن ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے 2005ءمیں ایک اور معاہدے پر دستخط کئے جس کو دوستی، ہمسائیگی اور تعاون کا معاہدہ کیا گیا اور اس میں پہلی بار سٹریٹجک تعلق کا بھی ذکر کیا گیا۔ یہ صدی شروع ہوتے ہی فیصلہ ہوا کہ ہر 5سال کے بعد ہم پاک چین دوستی کا سال منائیں گے۔ 2001ءمیں پچاسویں، 2005ءمیں 55ویں سالگرہ اور اب 60سالہ تعلقات کی خوشی منائی جا رہی ہے۔ 2006ءمیں کئی معاہدے کئے گئے جس میں تین شعبے نمایاں تھے دفاع، انرجی اور معاشی تعاون۔ پھر ایک 5سالہ منصوبہ کا معاہدہ ہوا۔ زراعت، کمیونی کیشن، یوتھ افیئر، زبان غرضیکہ ہر چیز کے متعلق عملی تعاون کے لئے کہا گیا۔ دونوں ممالک درمیان 300سے زائد معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ معاہدے تو ہو جاتے ہیں لیکن ہم یہاں اس پر عمل نہیں کرتے ہیں۔ 300معاہدوں پر اگر عملدرآمد ہو جاتے تو ہمارے ملک کا نقشہ ہی بدل جائے۔ زراعت میں عملی تعاون نہیں ہوا۔ کمیونی کیشن میں کچھ ہوا ہے۔ جب صدر زرداری پہلی مرتبہ چین گئے تو چینی وزیراعظم نے ان کو یقین دہائی کروائی کہ بہت معاہدے ہو چکے ہیں اب عملی کام بھی کرنا چاہئے۔ ایک کمیٹی بنائی گئی۔ یہ کمیٹی ان معاہدوں پر عملدرآمد کرانے کے لئے منصوبے تیار کریں گی جس کی وجہ سے ہم آگے بڑھیں گے۔ کمیٹیوں نے 2سال میں 76پروجیکٹس تیار کئے اور اس وقت چین 120پروجیکٹس پر پاکستان میں کام کر رہا ہے جبکہ تیرہ ہزار چینی انجینئرز اور ورکرز یہاں کام کر رہے ہیں۔ یہاں ایک کیری لوگر بل لایا جس کے مطابق پاکستان کو 5سالوں میں سات بلین ڈالر ملیں گے جس میں ہر سال ڈیڑھ بلین ڈالر ملنا ہے اور اس سے آدھے ان کے اپنے انتظامی اخراجات ہوں گے یعنی ہمیں چھ یا سات تو ملین ڈالر ملیں گے لیکن اس وقت تک ان کی ادائیگی بھی رکی ہوئی ہے اور اس کا بہت چرچا ہے کہ ہمیں امداد ملتی ہے۔ چین نے یہاں 20بلین ڈالر کی سرماہی کاری کر دی ہوئی ہے۔ 2001ءمیں گوادر پورٹ اور کوسٹل ہائی وے کی بات ہوئی تھی۔ یہ دونوں منصوبے بن چکے ہیں۔ قراقرم ہائی وے کو وسیع کرنے کے لئے 500ملین ڈالر دے رہے ہیں۔ یہاں پر ریلوے لائن بنانے کا منصوبہ ہے۔ چینی کہتے ہیں کہ تم پروجیکٹ بتاﺅ ہم تعاون کر کے آپ کو یہ بنا کر دیں گے۔ لیکن اگر نقد مانگتے ہو تو پھر خدا حافظ کیونکہ ہمیں یہ پتہ نہیں کہ نقد کے ساتھ کیا ہو گا۔ ابھی بھی کئی لوگ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ وزیراعظم چین لئے تو انہوں نے مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے نقد دینے سے انکار کیا ہے لیکن انہوں نے یہ اظہار کیا ہے کہ ہم جتنی چاہیں وہ سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہیں۔ 2009ءمیں امریکی صدر باراک اوبامہ چین گئے تو چینیوں نے انہیں کہا کہ پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کی کوششیں نہ تمہارے مفاد میں ہے نہ کسی اور کے مفاد میں۔ اس موقع پر اعلامیہ میں لکھوایا گیا کہ امریکہ او چین افغانستان اور جنوبی ایشیاءکو مستحکم کرنے کے لئے تعاون کریں گے۔ اب مستقبل کے لئے ہمارے بے شمار راستے کھلے ہیں، زرعی شعبہ میں ہم چین سے بہت سیکھ سکتے ہیں۔ چین کی آبادی دنیا کا 22فیصد ہے جبکہ ان کی زرعی زمین دنیا کا 7فیصد ہے۔ تو چینی سات فیصد زمین سے 22فیصد کی خوراک کی ضروریات بھی پوری کر رہے ہیں اور اسے ایکسپورٹ بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس میدان میں بہت ترقی کی ہے۔ انرجی کے شعبہ میں وہ ہماری مدد کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ چین کی ایک بہت بڑی انرجی کمپنی نے یہاں پندرہ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے۔ ہمارے راستے کھل گئے ہیں۔ کمیونی کیشن کے شعبہ میں چین کی دو کمپنیاں آ چکی ہیں۔ اب انہوں نے اسلام آباد میں ایک خوبصورت پاک چین دوستی کلچرل سنٹر بنا لیا ہے اور اس کو آباد کرنے کے لئے ہمیں چاہئے کہ وہاں ثقافتی پروگرام باقاعدگی سے کریں۔ آپس میں وفود کا تبادلہ ہوا اور سب سے بڑی بات یہ کہ چینی بھائی ہم سے بات کرنے کے لئے اردو سیکھتے ہیں۔ ہمارے رشتہ کی مزید مضبوطی میں زبان ایک رکاوٹہے۔ ہمیں اپنے سکولوں میں چینی زبان شروع کرنی چاہئے تاکہ ہمارے بچے چینی زبان سیکھیں کیونکہ ہمارا مقصد ہے کہ یہ لازوال دوستی آئندہ نسلوں تک چلے۔ وہ یہاں آئیں تو اردو بولیں ہم وہاں جائیں تو چینی بولیں۔
یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور کے اس دفتر میں پاک چین دوستی کے حوالے سے ایک خاص تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ تقریب اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جب گذشتہ دسمبر میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے یہ اعلان کیا تھا کہ 2011ءکو خاص طور پر پاک چین دوستی کا سال سمجھ کر منایا جائےگا۔ ویسے میرے خیال میں ہمارا ہر سال دوستی کا سال اور ہر دن دوستی کا دن ہے لیکن اس سال کی اہمیت یہ ہے کہ اس سال پاکستان اور چین میں بے شمار تقریبات کا انتظام کیا گیا اور کیا جا رہا ہے۔ دونوں ممالک اس کو بڑی اہمیت دے رہے ہیں تاکہ ہماری دوستی کا رشتہ اگلی نسلوں تک پہنچایا جائے اور اس تعاون کو فروغ دینے کےلئے مزید عملی اقدامات کئے جائیں۔
جب آدمی مستقبل کے منصوبے بناتا ہے تو یہ قدرتی بات ہے کہ ماضی کا ایک جائزہ لینا پڑتا ہے کیونکہ ماضی مستقبل کے تعاون کی بنیاد فراہم کرتا ہے اور فیصلے تو حال میں ہی ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے میں یہ کہوں گا کہ یہاں تقریب کے آغاز میں قومی ترانہ پڑھا گیا جس کے آغاز پر کہا گیا ”قوت اخوت عوام“ تو قوت عوام کا صحیح نمونہ ہمیں چین میں ملتا ہے کہ قوت اخوت عوام سے کیا کیا جا سکتا ہے اور کیا نہیں کیا جا سکتا۔ قوت اخوت عوام جو ہمارے ترانے کا حصہ ہے وہ چین کا عملی نصب العین ہے۔ وہاں کی ترقی کا راز یہ ہے کہ ایک بیدار مغز اور دیانتدار قیادت نے لوگوں کے جذبہ تعمیر کو اجاگر کر کے انکی تعمیری صلاحیتوں کو پنپنے کا موقع دیا اور اس طرح وہ گذشتہ 30برسوں میں ترقی کی منازل طے کرتے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں۔ پاک چین دوستی کو منانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کے کردار، تجربات اور اصولوں سے کچھ فائدہ اٹھا کر اس طرف چلنا شروع کریں۔ جب عوامی جمہوریہ چین معرض وجود میں آیا تو اسکے چند مہینوں بعد پاکستان نے اسے چین کی حکومت کے طور پر تسلیم کر لیا۔ اگرچہ اس وقت بڑی طاقتوں نے اسے تسلیم نہیں کیا تھا اور وہ تائیوان کو ہی چین مانتے رہے۔ 5جنوری 1950ءکو پاکستان نے عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا اور 21مئی 1951ءکو ہمارے آپس میں سفارتی تعلقات بھی قائم ہو گئے۔ شروع میں ہمارا چین کےساتھ ایک رسمی سا رشتہ تھا۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان نے پیش قدمی کر کے چین کےساتھ دوستی کا ہاتھ بھڑایا اور ہندی، چینی بھائی بھائی کا نعرہ لگایا لیکن ہم اپنی مجبوریوں کے تحت کیونکہ ہندوستان سے ہمیں خطرہ لاحق تھا اور وہ ہمارے حقوق سلب کرنے کی کوشش کر رہا تھا، اس نے کشمیر پر حملہ کر دیا، تقسیم کے وقت نہ ہمارے حصے کے پیسے دیے اور نہ مال دیا جبکہ دریاﺅں کا پانی بھی روک لیا تو ہم نے مجبوراً اپنی سلامتی کی خاطر مغربی طاقتوں کےساتھ رشتہ قائم کر لیا اور ان کے عسکری پروگراموں میں ہم بھی شامل ہو گئے۔
ہمارا خیال تھا کہ اس سے ہمیں قوت ملے گی اور جو ہمیں ملی لیکن انہوں نے ہمیں اپنے ساتھ اس لئے شامل کیا کہ وہ ہمیں روس کےخلاف استعمال کرنا چاہتے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم ان سے جو کچھ لے رہے ہیں ہم اسے ہندوستان کےخلاف استعمال کر سکیں گے۔ کیونکہ ہاتھ میں اگر چیز ہو تو استعمال ہو ہی جاتی ہے۔ اگرچہ اس میں پابندیاں تھیں اور ہمیں علم تھا کہ پابندیاں ہیں۔ اس وقت ہم مغرب کی طرف چلے گئے لیکن چین میں بصیرت تھی۔ انہوں نے اسکے باوجود ہمارے ساتھ برا سلوک نہیں کیا۔ روس اس بات سے بہت خفا ہوا لیکن چین نے کہا کہ ٹھیک ہے ان کی اپنی کچھ مجبوریاں ہیں۔ انہوں نے دوستی نہیں بڑھائی لیکن ہمیں کوئی نقصان بھی نہیں پہنچایا۔ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کی پہلی ملاقات محمد علی بوگرہ ہمارے وزیراعظم اپریل 1955ءکو Bandung کانفرنس میں ہوئی جہاں بہت اچھا رابطہ ہوا اور دونوں نے مل کر دیکھا کہ ہندوستان تیسری دنیا پر غلبہ پانے کی خواہش رکھتا ہے لہٰذا وہ اس کےخلاف متحد ہو گئے۔ چینی وزیراعظم چو این لائی نے ہمارے وزیراعظم کو اور ہمارے وزیراعظم نے ان کو دورہ کی دعوت دی لیکن کیونکہ اس وقت ہمارے ہاں حکومتوں کی تبدیلیاں جلدی جلدی ہو رہی تھیں اس لئے جب وقت آیا تو حسین شہید سہروردی وہاں جانےوالے پہلے وزیراعظم تھے لیکن تاریخ ریکارڈ پر ہے کہ حسین شہید سہروردی چین کے ساتھ دوستی کی طرف زیادہ مائل نہیں تھے بلکہ وہ مغرب کی طرف مائل تھے۔ بہرحال ملاقاتوں کا آغاز ہو گیا اور چین کے وزیراعظم پہلی بار دسمبر 1956ءمیں پاکستان تشریف لائے اور مجھے اس دن ان کا پروٹوکول کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس وقت میرے کیریئر کا آغاز تھا اور میں جونیئر افسر تھا۔ دو ممالک کے تعلقات اس وقت فروغ پاتے ہیں جب انکے مفادات مشترک ہوں۔
1960ءکی دہائی میں اپنے مغربی دوستوں سے کچھ مایوسی ہونے لگی۔ کیونکہ وہ اتحادی اور دوست تو ہمارے تھے لیکن سرپرستی ہندوستان کی کرتے تھے۔ جب ہم ان سے مایوس تھے تو چین اور ہندوستان کے درمیان بھی تبت کے معاملے پر نفاق پیدا ہو گیا۔ خاص طور پر جب دلائی لامہ بھاگ کر ہندوستان آ گئے تو معاملہ بہت بگڑ گیا۔ چین نے اس وقت معاملے کو سلجھانے کی بہت کوشش کی لیکن معاملہ نہ سلجھا۔ آخر 1962ءمیں ان دونوں کی لڑائی ہو گئی۔ پاکستان نے 1961ءمیں بلکہ 1960ءکے آخر میں کچھ پیغام چین کو بھیجے تھے کہ ہم آگے بڑھیں۔ چین نے ایک سال بعد اس کا جواب اس وقت دیا جب ان کے ہندوستان کےساتھ تعلقات کافی بگڑ چکے تھے۔ اتفاق سے محمد علی بوگرہ واپس آکر وزیر خارجہ بن گئے۔ 1960ءمیں ہماری بات چیت بڑھی او راس سال کے آخر تک چین کےساتھ یہ معاہدہ ہو گیا کہ ہم تجارت بھی کرینگے، اپنی سرحدوں پرتنازع پیدا نہیں ہونے دینگے بلکہ اسے حل کرینگے جبکہ مستقبل میں بہت سے شعبوں میں تعاون کرینگے۔ یہاں میں ایک تاریخی واقعہ کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں کہ 2فروری 1963ءکو محمد علی بوگرہ نے چین جا کر بارڈر ایگریمنٹ پر دستخط کرنا تھے۔ اسکے کاغذات تیار ہو گئے تھے۔ 30 جنوری کو وہ انتقال کر گئے تو انکی جگہ ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ بن گئے۔ 2مارچ کو انہوں نے چین جا کر اس معاہدے پر دستخط کئے۔ اور اس بات کا پورا کریڈٹ لیا کہ چین کی پالیسی کا میں بانی ہوں۔ اس طرح یہ معاہدہ فروری کے بجائے مارچ کو ہوا اور دستخط کرنےوالے کے نام بدل گئے۔ لہٰذا تاریخ کو یہی منظور تھا۔ جنوری میں ہمارا ٹریڈ ایگریمنٹ (تجارتی معاہدہ) ہو چکا تھا۔ ایک نئی بات یہ ہوئی کہ چین کے روس کےساتھ تعلقات بھی بگڑ چکے تھے۔ اور انکا آپس میں ”شیعہ سنی فساد“ ہو گیا تھا۔ انکے آپس میں آئیڈیالوجی پر اختلافات پیدا ہو چکے تھے اور پھر روس نے انکی مدد کرنا بند کر دی۔ خاص طور پر نیوکلیئر فیلڈ میں انکی مدد نہ کی تو انہوں نے کہا کہ تم کون ہو اور ہم کون۔ اب چین کسی اور طرف جانے کا بھی سوچ رہا تھا۔ روس اور امریکہ اسکے مخالف تھے۔ فوجیں جاپان، کوریا اور تائیوان میں بیٹھی ہوئی تھیں اور چین بالکل گھیرے میں آیا ہوا تھا تو پاکستان نے چین کو دنیا کے ساتھ جانے کا راستہ دیا اور ایک ائر سروس کا معاہدہ کیا۔
پی آئی اے کی پہلی پرواز 29اپریل 1984ءکو 3:54پر شنگھائی میں اتری۔ اس طرح چین کو دنیا کے ساتھ راستہ ملا اور ان کی جو ناکہ بندی ہوئی تھی ہم نے ان کےلئے اس ناکے کو توڑا جس کے باعث انکے دل میں ہمارے لئے بہت قدر پیدا ہوئی۔ 1965ءمیں جب ہندوستان نے ہم پر حملہ کیا تو کس کو یاد نہیں کہ چین نے ہندوستان کو الٹی میٹم دےدیا کہ ہماری بکریاں واپس کر دو ورنہ ہم حملہ کر دیں۔ انہوں نے اس حد تک ہمارا ساتھ دیا۔ ایران، ترکی اور انڈونیشیا نے بھی ہمارا ساتھ دیا۔ 1965ءکی جنگ میں ان ممالک نے ہماری مدد کی۔ اسکے بعد چین کےساتھ 1966ءسے ہمارے دفاعی تعلقات فروغ پانے لگے اور انہوں نے ہماری تینوں افواج (بری، بحری، فضائیہ) کو بے شمار مال دیا اور ایک بات راز کی کہوں کہ 1966ءسے لےکر 1978ءتک چین نے ہماری فوج کو جو کچھ بھی دیا اس کا ایک پیسہ بھی نہیں لیا جس میں 600کے قریب جہاز، نیوی کے فریگٹس، ائر فورس کےلئے جہاز، آرمی ٹینکس وغیرہ شامل تھے۔ اور یہ تمام اشیاءہمیں مفت دیں۔ چین کے رہنما ماﺅزے تنگ نے کہا کہ ہتھیار وہ بیچتے ہیں جو موت کے سوداگر ہوں۔ ہم تو دوست ہیں اس لئے ہم کوئی پیسے نہیں لیں گے۔
اس جذبے کے تحت جب انہوں نے 1965ءکی جنگ میں ہماری مدد کی تو ہمارے دلوں میں اور ہم نے جو چین کی تھوڑی بہت مدد کی اسکے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان ایک ایسا رشتہ استوار ہو گیا جو اب بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اسکے بعد دنیا کے حالات بدلتے رہے۔ حکومتیں یہاں بھی اور وہاں بھی بدلتی رہیں لیکن دوستی کا یہ رشتہ پروان چڑھتا رہا۔ 1970ءکی دہائی میں بہت اہم واقعات رونما ہوئے۔ ایک ہم نے مشرقی پاکستان میں اپنا بیڑہ غرق کیا۔ دوسرا 1969ءمیں چین اور روس کی سرحد پر لڑائی ہو گئی اور چین روس کےساتھ لڑائی کے بعد پریشان ہونے لگا کہ کیا کرے اور کدھر جائے۔ .... (جاری )
ادھر امریکی صدر نکسن پریشان تھے کہ ویت نام کی جنگ کو کیسے بند کریں۔ اس وقت 1971ءمیں دونوں ملکوں کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان نے چین اور امریکہ کا راستہ کھولا۔ ہنری کسنچر کو خفیہ طور پر چین بھیجا اور اسکے بعد 1972ءمیں امریکی صدر نکسن کا وزٹ ہوا۔ ہنری کسنجر کو بھیجنے سے ہم نے جو راستہ کھولا تو روس اس بات پر کہ ہم امریکہ اور چین کو ملا رہے ہیں ہمارے اور چین کے اتنا خلاف ہوا کہ اس نے ہندوستان کےساتھ دفاعی معاہدہ کر کے اس کو بنگال پر حملہ کرنے کےلئے پوری مدد فراہم کی۔ اس طرح مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ روس کےساتھ اس بات کی ہم نے قیمت ادا کی۔ اس ملاقات کی ایک خاص بات یہ بتاﺅں کہ جب فروری 1972ءمیں رچرڈ نکسن چین چلا گیا تو وہاں جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اس میں چین نے یہ لکھوایا کہ پاکستان کی سلامتی اور کشمیر کاز کےلئے بات کی جائے۔ ہم نے بھی چین کی مدد کی کیونکہ جب ہم نے چین کی امریکہ کے ساتھ تھوڑی تھوڑی ملاقات کروا لی تو ہم نے امریکہ کو سمجھایا کہ یہ جو تم ہر سال ان کو اقوام متحدہ نہیں جانے دیتے اسے بند کرو۔ لہٰذا 1971ءمیں تائیوان کو نکال کر چین کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے میں بھی ہم نے چین کی مدد کی۔ اس طرح دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے حق میں کچھ نہ کچھ ہوتا رہا اور یہ رشتہ پروان چڑھتا رہا۔ چین کو جب ضرورت تھی اس نے روس سے بچنے کےلئے امریکہ کے ساتھ راستہ کھولا اور جب یہ دونوں ایک طرح سے اکھٹے ہو گئے تو اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جب روس افغانستان آیا اور ہمارے لئے بہت خطرہ پیدا ہو گیا۔ اس وقت چین اور امریکہ نے ہماری مدد کی۔ اس وقت ہماری خارجہ پالیسی کے مسائل کافی کم ہو گئے کیونکہ دنیا کی تین میں سے دو بڑی طاقتیں ہمارا ساتھ دے رہی تھیں اور ہماری دونوں کے ساتھ دوستی میں کوئی تصادم نہیں آتا تھا۔ لیکن روس کی شکست کے بعد مسائل پیدا ہوئے۔ تاہم اس دوران چند باتوں کا تذکرہ ضروری ہے۔ 1970ءکی دہائی میں چین نے ہماری خودکفالت کی طرف مدد کرنا شروع کر دی تھی۔ ہمیں بڑے بڑے پراجیکٹس بنا کر دیے۔ ہیوی مکینیکل کمپلیکس فوجی فاﺅنڈری، مشین ٹول فیکٹری، پائپ لائن، پاور پلانٹس سمیت مختلف اقسام کے تیس پروجیکٹس لگائے۔ یہ رشتہ چلتا رہا اور اس میں سب سے بڑے جو کام تھے جو 1970ءکی دہائی میں شروع ہوئے اور 1980ءکی دہائی میں مکمل ہوئے وہ قراقرم ہائی وے ہے۔ یہ جو نعرہ ہے کہ پاک چین دوستی پہاڑوں سے بلند ہے وہ اس لئے ہے کہ ہم نے پہاڑوں سے اترنے کا راستہ بھی بنا لیا ہے اور سمندر سے گہری اس لئے ہے کہ انہوں نے ہمیں آبدوز بھی ہے۔ یہ ایسے ہی باتیں نہیں بنی ہوئی ہیں۔ شہد سے میٹھی یہ اس لئے ہے کہ یہ شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہمیں لگنے لگی ہے۔ اس عرصے میں انہوں نے بہت سے پروجیکٹس یہاں مکمل کئے۔ صنعتی میدان میں یہاں ترقی ہوتی رہی۔ 1990ءکی دہائی میں پہلا نیوکلیئر پلانٹ لگایا۔ پھر دوسرا لگایا جو اب مکمل ہونے کو ہے تو اس طرح وہ ہماری تعمیر میں شامل ہو گئے۔ ہمارے دوسرے دوست جو ہم پر احسان کرتے ہیں ان کی اس طرح کی دکھانے کی کوئی چیز نہیں ہے، پتہ نہیں ان کی امداد کہاں گئی۔ پاک چین دوستی وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی رہی اور روس جب ختم ہو گیا تو افسوسناک بات یہ ہے کہ امریکہ نے اپنے لئے ایک نیا تصور بنا لیا کہ اب ہم تنہا سپرپاور ہیں اور ہم دنیا ک نقشہ جس طرح چاہیں بدل دیں۔ چین نے اس بات کو ماننے سے انکار کیا اور کہاں کہ ٹھیک ہے کہ دنیا میں ایک سپرپاور ہے لیکن بہت سی گریٹ پاورز بھی ہیں اور ایک ایسے نظام کی طرف ارتقاءہو رہا ہے جس میں بہت سی گریٹ پاورز ہوں گی۔ 2020ءتک 6مختلف پاورز کا سٹرکچر ہو گا جن کی قوت تقریباً برابر ہو گی۔ انہوں نے طاقت کا ایک نیا تصور دیا کہ طاقت صرف عسکری قوت ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ سیاسی و اقتصادی طاقت بھی ہے جبکہ اس ملک کے عوام میں پذیرائی بھی ایک طاقت ہے۔ ایک ملک کی صحیح طاقت ان سب چیزوں کا مرکب ہوتی ہے۔ اس لحاط سے چین نے دو فلسفے ایجاد کئے۔ ایک یہ کہ ہم پرامن طریقے سے ترقی کریں گے۔ دوسرا یہ کہ ہم ساری دنیا کے ساتھ اقتصادی تعاون کریں گے اور لوگوں کی مشکلات کو اپنے تجربے سے کم کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح یہ دو چیزیں تھیں جو کو لے کر چین پوری دنیا میں گیا اور اندرونی طور پر 1978ءمیں فیصلہ کیا کہ اقتصادی ترقی کو ہم نے اپنا مقصد اولین بنانا، اپنے وسائل کو ترقی دینی اور کسی کے ساتھ لڑائی جھگڑا نہیں کرتا۔ لہٰذا انہوں نے اپنے تمام ہمسایوں کے ساتھ سرحدی تنازعات حل کر لئے۔ ہندوستان کے ساتھ معاملات حل نہ ہوئے لیکن انہوں نے کہا کہ ہم منجمد کر دیں گے اور اس پر جنگ نہیں کریں گے۔ چین کا پاکستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون جاری رہا اور گذشتہ صدی کے آخر تک ہمارے تعلقات اتنے مستحکم اور پائیدار ہو گئے تھے کہ اب کوئی بڑی چیز کرنے کی ضرورت تھی اور مستقبل کا ایک نقشہ بنانا تھا۔ ہمارے تجارت بہت پیچھے رہ گئی تھی اور شاید ایک بلین سے کچھ زیادہ تھی۔ اتنی دوستی اور تجارت کے باوجود ہماری تجارت صرف ایک بلین تھی۔ اس کو بڑھانے کا فیصلہ ہوا تو 2003ءمیں ایک معاہدہ ہوا کہ ہم نے دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ ہر شعبے میں تعاہن کی نئی راہیں کھولنی ہیں اور ہمارے رشتہ Multinational اور Comprehensive ہو گا۔ یہ ہمارا وژن ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے 2005ءمیں ایک اور معاہدے پر دستخط کئے جس کو دوستی، ہمسائیگی اور تعاون کا معاہدہ کیا گیا اور اس میں پہلی بار سٹریٹجک تعلق کا بھی ذکر کیا گیا۔ یہ صدی شروع ہوتے ہی فیصلہ ہوا کہ ہر 5سال کے بعد ہم پاک چین دوستی کا سال منائیں گے۔ 2001ءمیں پچاسویں، 2005ءمیں 55ویں سالگرہ اور اب 60سالہ تعلقات کی خوشی منائی جا رہی ہے۔ 2006ءمیں کئی معاہدے کئے گئے جس میں تین شعبے نمایاں تھے دفاع، انرجی اور معاشی تعاون۔ پھر ایک 5سالہ منصوبہ کا معاہدہ ہوا۔ زراعت، کمیونی کیشن، یوتھ افیئر، زبان غرضیکہ ہر چیز کے متعلق عملی تعاون کے لئے کہا گیا۔ دونوں ممالک درمیان 300سے زائد معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ معاہدے تو ہو جاتے ہیں لیکن ہم یہاں اس پر عمل نہیں کرتے ہیں۔ 300معاہدوں پر اگر عملدرآمد ہو جاتے تو ہمارے ملک کا نقشہ ہی بدل جائے۔ زراعت میں عملی تعاون نہیں ہوا۔ کمیونی کیشن میں کچھ ہوا ہے۔ جب صدر زرداری پہلی مرتبہ چین گئے تو چینی وزیراعظم نے ان کو یقین دہائی کروائی کہ بہت معاہدے ہو چکے ہیں اب عملی کام بھی کرنا چاہئے۔ ایک کمیٹی بنائی گئی۔ یہ کمیٹی ان معاہدوں پر عملدرآمد کرانے کے لئے منصوبے تیار کریں گی جس کی وجہ سے ہم آگے بڑھیں گے۔ کمیٹیوں نے 2سال میں 76پروجیکٹس تیار کئے اور اس وقت چین 120پروجیکٹس پر پاکستان میں کام کر رہا ہے جبکہ تیرہ ہزار چینی انجینئرز اور ورکرز یہاں کام کر رہے ہیں۔ یہاں ایک کیری لوگر بل لایا جس کے مطابق پاکستان کو 5سالوں میں سات بلین ڈالر ملیں گے جس میں ہر سال ڈیڑھ بلین ڈالر ملنا ہے اور اس سے آدھے ان کے اپنے انتظامی اخراجات ہوں گے یعنی ہمیں چھ یا سات تو ملین ڈالر ملیں گے لیکن اس وقت تک ان کی ادائیگی بھی رکی ہوئی ہے اور اس کا بہت چرچا ہے کہ ہمیں امداد ملتی ہے۔ چین نے یہاں 20بلین ڈالر کی سرماہی کاری کر دی ہوئی ہے۔ 2001ءمیں گوادر پورٹ اور کوسٹل ہائی وے کی بات ہوئی تھی۔ یہ دونوں منصوبے بن چکے ہیں۔ قراقرم ہائی وے کو وسیع کرنے کے لئے 500ملین ڈالر دے رہے ہیں۔ یہاں پر ریلوے لائن بنانے کا منصوبہ ہے۔ چینی کہتے ہیں کہ تم پروجیکٹ بتاﺅ ہم تعاون کر کے آپ کو یہ بنا کر دیں گے۔ لیکن اگر نقد مانگتے ہو تو پھر خدا حافظ کیونکہ ہمیں یہ پتہ نہیں کہ نقد کے ساتھ کیا ہو گا۔ ابھی بھی کئی لوگ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ وزیراعظم چین لئے تو انہوں نے مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے نقد دینے سے انکار کیا ہے لیکن انہوں نے یہ اظہار کیا ہے کہ ہم جتنی چاہیں وہ سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہیں۔ 2009ءمیں امریکی صدر باراک اوبامہ چین گئے تو چینیوں نے انہیں کہا کہ پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کی کوششیں نہ تمہارے مفاد میں ہے نہ کسی اور کے مفاد میں۔ اس موقع پر اعلامیہ میں لکھوایا گیا کہ امریکہ او چین افغانستان اور جنوبی ایشیاءکو مستحکم کرنے کے لئے تعاون کریں گے۔ اب مستقبل کے لئے ہمارے بے شمار راستے کھلے ہیں، زرعی شعبہ میں ہم چین سے بہت سیکھ سکتے ہیں۔ چین کی آبادی دنیا کا 22فیصد ہے جبکہ ان کی زرعی زمین دنیا کا 7فیصد ہے۔ تو چینی سات فیصد زمین سے 22فیصد کی خوراک کی ضروریات بھی پوری کر رہے ہیں اور اسے ایکسپورٹ بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس میدان میں بہت ترقی کی ہے۔ انرجی کے شعبہ میں وہ ہماری مدد کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ چین کی ایک بہت بڑی انرجی کمپنی نے یہاں پندرہ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے۔ ہمارے راستے کھل گئے ہیں۔ کمیونی کیشن کے شعبہ میں چین کی دو کمپنیاں آ چکی ہیں۔ اب انہوں نے اسلام آباد میں ایک خوبصورت پاک چین دوستی کلچرل سنٹر بنا لیا ہے اور اس کو آباد کرنے کے لئے ہمیں چاہئے کہ وہاں ثقافتی پروگرام باقاعدگی سے کریں۔ آپس میں وفود کا تبادلہ ہوا اور سب سے بڑی بات یہ کہ چینی بھائی ہم سے بات کرنے کے لئے اردو سیکھتے ہیں۔ ہمارے رشتہ کی مزید مضبوطی میں زبان ایک رکاوٹہے۔ ہمیں اپنے سکولوں میں چینی زبان شروع کرنی چاہئے تاکہ ہمارے بچے چینی زبان سیکھیں کیونکہ ہمارا مقصد ہے کہ یہ لازوال دوستی آئندہ نسلوں تک چلے۔ وہ یہاں آئیں تو اردو بولیں ہم وہاں جائیں تو چینی بولیں۔