ملک بھر میں عوام ایک دوسرے سے اس نوعیت کے سوالات کر رہے ہیں کہ پرویز مشرف کے ساتھ انصاف ہو گا یا نہیں انصاف کے نام پر انتقام لیا جائیگا۔ پہلی بات یہ ہے کہ پرویز مشرف پراگر صرف 3 نومبر 2007 کے اقدام کا مقدمہ چلانا مقصود ہے تو اس کا کا وزیر قانون 2008ءسے مسلم لیگ (ن) میں ہے۔ 11 مئی کے انتخابی نتائج کے بعد نوازشریف نے جو وفاقی کابینہ تشکیل دی تھی۔ زاہد حامد اس میں وفاقی وزیر قانون تھے۔ پھر ایک پیغام (یاد رکھیئے پیغام لکھ رہا ہوں) کہ ان سے وزارت قانون واپس لے کر سائنس و ٹیکنالوجی کی بے نام وزارت تھما دی گئی۔ یہاں ایک سوال اور ہے کہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے حامیوں نے منصوبہ بندی کے تحت 12 اکتوبر 1999ءکو نوازشریف حکومت کا تختہ اُلٹا تھا۔ جہاز والا واقعہ محض فسانہ طرازی ہے۔ منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے والے جرنیل اطاعت کرنے والے بیورو کریٹ اور بیعت کرنے والے سیاستدانوں اور صحافیوں کے علاوہ ان ججوں کا کیا ہوگا۔ جنہوں نے 12 اکتوبر 1999ءکی بغاوت کو جائز‘ مشرف کو تین سال تک حکومت کرنے کی اجازت اور بن مانگے آئین میں ترامیم کا حق عطاءکر دیا تھا؟ اندھی جذباتیت و زمینی حقیقت میں فرق ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہئے۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ وضاحت ضروری ہے کہ ایک زمین زادے اور جمہوریت پسند کی حیثیت سے اس عاجز کی یہ خواہش ہے کہ آئین شکنی کے مرتکب یا مرتکبین کے خلاف دستور پاکستان کے آرٹیکل چھ کے تحت لازمی کارروائی ہونی چاہئے۔ سیاسی و دفاعی مبصرین کا خیال ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے میں حکومت پہلے سے فریق نہیں ہے۔ بلکہ وہ عدالت عظمیٰ کی قانونی معاونت کے لئے بعد میں شامل ہوئی ہے علاوہ ازیں وزیراعظم نوازشریف کی حکومت نے اس معاملے میں فوجی قیادت سے مشورہ کر کے اسے اعتماد میں لیا ہے۔ ملک میں سب سے بڑی عدالت نے اگر پرویز مشرف کے خلاف کوئی سزا سنائی تو یہ فوج کی تذلیل نہیں بلکہ فوج سمیت پوری قوم کا سربلند کرنے کے مترادف ہو گا۔ خدا کرے کہ ایسا ہو سکے لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سابق وزیرقانون ایس ایم ظفر اور قانونی ماہرین صابر علی چیمہ ایڈووکیٹ، رانا ندیم صابر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ 1999ءمیں میاں نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کی پاداش میں پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ نہیں چل سکتا۔ کیونکہ ان کے اقدامات کی سپریم کورٹ جس کے بنچ میں موجود چیف جسٹس آف پاکستان بھی شامل تھے، نے پی سی او کے تحت توثیق کر دی تھی۔ کے بعد ”مشرف پارلیمنٹ“ نے سترہویں ترمیم کے ذریعے اس کی منظوری دے دی تھی۔ سابقہ پارلیمنٹ کی منظور کردہ اٹھارویں آئینی ترمیم پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے جج صاحبان کا تحفظ کرتی ہے لیکن مشرف کی شب خون پر خاموش ہے۔ اگر ہم 12 اکتوبر کے فوجی اقدام اور 3 نومبر 2007ءکے واقعے کو سابق صدر کی انتہائی سنگین غلطی پرمحمول بھی کریں تو کیا یہ ایک جوہری اور بدیہی حقیقت نہیں ہے کہ ماضی میں بڑے بڑے بلنڈر سبھی نے کئے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ملکی تاریخ میں کسی کو احتساب کی بھٹی میں سے گزارہ انہیں جا سکا نتیجتاً کسی کو بھی غلطیوں کے اعادے سے بچنے کا خوگرنہ بنایا جا سکا۔ سب سے فاش غلطی جسٹس منیر نے آمریت کو نظریہ ضرورت کا ہتھیار فراہم کرکے کی۔ پاکستان کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ پاکستان کی عدلیہ نے ہمیشہ تمام فوجی ڈکٹیٹروں کے مارشل لاﺅں کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قراردیا ضیاءالحق نے جب بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹا تھا تو ان کے وکیل اے کے بروہی نے سپریم کورٹ سے ضیاءالحق کے حکومت کرنے کےلئے صرف نو ماہ مانگے تھے۔ جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس شیخ انوار الحق نے ضیاءالحق کو محدود مدت کے لئے حکومت کرنے کے اختیارات دئیے تھے اور جنرل ضیاءالحق نے محدود مدت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے 9 سال تک حکومت کی تھی۔ سینئر وکیل اور پی پی پی کے سنیٹر اعتزاز احسن بارہا مرتبہ ٹی وی چیلنجز پر یہ کہتے آ رہے ہیں کہ جب پرویز مشرف کا مقدمہ چل رہاتھا تو چیف جسٹس اپنے عہدے سے ریٹائر ہو چکے ہوںگے اور ان کی جگہ نئے چیف جسٹس براجمان ہوں گے ایک اور وکیل کی نظر میں اگر اس کیس کے حوالہ سے کوئی ذاتی عداوت یا دشمنی کا شائبہ ہو بھی تو چیف جسٹس کی رخصتی کے بعد اس کے امکانات ختم ہو جائیں گے اور اگر اس مقدمہ کی پیروی خالص آئینی انداز اور روٹین کے مطابق کی گئی جس سے یہ تاثر پیدا نہ ہو سکے کہ ذاتی عناد یا سیاسی وجوہات کی بناءپر آرمی کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے تو اس سے فوج کے اندر بھی حالات معمول پر آجائیں گے یا بہ الفاظ دیگر اعلیٰ فوجی قیادت سکھ کا سانس لے سکے گی۔ کئی سینئر وکلاءاور ریٹائر جرنیلوں کے نزدیک جنرل (ر) پرویز مشرف کا اپنا رویہ بھی اس کیس کی نوعیت اور فوجی ردعمل کا تعین کرے گا۔ مشرف کی کوشش ہو گی کہ 3 نومبر 2007ءکے روز ان کے زیر کمان رہنے والے ان تمام افراد کو بیچ میں گھسیٹا جائے کہ اس عمل یا گناہ میں وہ بھی ان کے برابر کے شریک ہیں ان کا خیال ہے کہ اس طرح کرتے ہوئے سیاستدان خوفزدہ ہو جائیں گے اور انہیں اکیلا چھوڑ دیںگے۔ یعنی ان کی خلاصی ہو جائے گی۔ ہم قارئین کو بتاتے چلیں کہ پاکستان میں کسی جرنیل کو کبھی کوئی سزا نہیں ہوئی جہاں تک کہ ملک توڑنے والے یحیٰ خان کو بھی کوئی سزا نہیں ہوئی تھی اور اس کے مرنے پر 21 توپوں کی سلامی دے کر اسے دفن کیا گیا تھا۔ پرویزمشرف کو اگر کوئی سزا ہوئی تو ایک بہت بڑا معجزہ ہو گا۔ ویسے پاکستان میں اب معجزے بہت کم ہوتے ہیں۔