ایک زمانہ تھا کہ دُور دراز مقامات پر خطوط کی ترسیل کبوتروں کے ذریعے ہوتی تھی۔ ہماری لوک داستانوں اور شاعری میں یہ خط بردار کبوتر اب بھی اُڑتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ پھر کسی کبوتر دشمن نے محکمہ ڈاک ایجاد کر دیا اور مقامی ڈاک کی ترسیل کبوتر کے بجائے ڈاکئے کے ہاتھوں ہونے لگی۔ دور دیس بھیجے جانیوالے خطوط اصلی کبوتروں کے بجائے آہنی کبوتروں یعنی ہوائی جہازوں کے ذریعے بھیجے جانے لگے۔ قدیم شاعری سے پتہ چلتا ہے کہ عشقیہ خطوط کی یقینی ترسیل کیلئے خاص تربیت یافتہ کبوتر استعمال کئے جاتے تھے۔ ان کبوتروں میں فرض شناسی کا جذبہ اس قدر ہوتا تھا کہ وہ اپنے پَر تک کٹا دیتے تھے لیکن کوچہ¿ جاناں میں خط پہنچائے بغیر نہیں رہتے تھے ....
خط کبوتر کس طرح لے جائے بامِ یار پر۔۔۔ پَر کترنے کو لگی ہَیں قینچیاں دیوار پر
خط کبوتر اس طرح لے جائے بامِ یار پر۔۔۔ خط کا مضموں پَر پہ ہو اور پَر کٹے دیوار پر
یہ ساری داستان اور اشعار سُنانے کے بعد ہمارے ایک کبوتر باز دوست نے ہنستے ہوئے کہا کہ آج بھی ایسے کبوتر اور کبوتریاں موجود ہیں جو اپنے پَر کٹوانے کا خطرہ مول لے کر، اپنے محسن کی لاج رکھنے اور دُور دیس کے ”بامِ یار“ پر خفیہ خط پہنچانے کا ہُنر جانتے ہیں۔ ہم نے کبوتر باز دوست کی طرف حیرت سے دیکھا تو وہ بولا کہ محسن کا نام آصف زرداری ہے، کبوتر کا نام فاروق نائیک، اور کبوتری کا نام یاسمین عباسی ہے۔ ہم نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا، توبہ کرو، یہ دونوں تو نامور قانون دان ہیں، ہم ان کی توہین برداشت نہیں کر سکتے۔ کبوتر باز دوست نے طنزاً جواب دیا ”اچھا تم قانون دانوں کی توہین برداشت نہیں کر سکتے مگر قانون کے سب سے بڑے ادارے کی توہین پر تمہیں کوئی اعتراض نہیں۔“ کبوتر باز کی یہ بات سُن کر ہم نے کہا کہ کبوتر اور قانون سے متعلق تمہاری ”کبوترانہ بحث“ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ اس پر کبوتر باز بولا، تم نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں تو کان کھول کر سُنو۔ الزام ہے کہ آصف زرداری نے سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں کروڑوں غیر قانونی ڈالر رکھے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے 16 دسمبر 2009ءکو انکے خلاف مقدمات کھولنے کا حکم دیا۔ طویل حکومتی ٹال مٹول کے بعد سپریم کورٹ کی منظوری سے وزارتِ قانون نے سوئس حکام کو ایک خط لکھا کہ سوئس مقدمات دوبارہ کھولے جائیں۔ اس خطیر رقم کی واپسی کیلئے احتساب بیورو اور سابق اٹارنی جنرل چودھری فاروق نے ایس جی ایس اور کوٹیکنا کیسوں میں فریق بننے کیلئے بھی خط لکھ رکھا تھا۔ ایک طرف تو سپریم کورٹ کو مقدمات کھولنے والا خط لکھ کر مطمئن کر دیا گیا لیکن اس خط کے صرف سترہ دن بعد سرکاری کبوتروں نے چپکے سے ایک اور خفیہ خط سوئٹزر لینڈ میں ”بامِ یار“ پر جا گرایا۔ اِس خط میں لکھا تھا ”حکومت پاکستان مقدمات کو دوبارہ کھولنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی اس لئے مقدمات نہ کھولے جائیں کیونکہ صدرِ پاکستان کو آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت مکمل تحفظ اور استثنیٰ حاصل ہے۔ 1997ءمیں سیف الرحمان اور اٹارنی جنرل چودھری فاروق کے لکھے گئے خطوط غیر قانونی تھے۔ عدالت نے کیس میں آصف زرداری کا استثنیٰ قبول کر لیا۔ ان مقدمات میں کہیں نہیں کہا گیا کہ زرداری نے کوئی کرپشن کی۔ پری شپمنٹ ٹھیکے دینے میں حکومت کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔ منی لانڈرنگ کا پاکستان میں کوئی جرم سرزد نہیں ہُوا۔ حکومت پاکستان یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ سوئس حکام مقدمات نہیں کھول سکتے۔“ پہلے خط کا جواب سوئس حکام نے 4 فروری 2013ءکو وزارتِ قانون میں وصول کروا دیا تھا اب اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے عدالت کو آ گاہ کیا ہے کہ سابق سیکرٹری قانون یاسمین عباسی نے عدالت کو بتائے بغیر دوسرا خط سوئس حکام کو لکھا تھا اور اس خط کا ریکارڈ غائب ہے۔ ہمارے پاس یہ دستاویزات سوئٹزر لینڈ سے آئی ہیں۔ سوئس حکام نے دوسرے خط کا جواب اٹارنی جنرل کے بقول ان کے گھر پر 24 جون کو موصول ہوا۔ خفیہ خط بازی کے حقائق سُن کر چیف جسٹس نے فرمایا کہ ہم نے 6 کروڑ ڈالر کی واپسی کا معاملہ اٹھایا تھا بظاہر اس طرح کا خفیہ خط توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ دوسرے خط کی فائل گم ہونے اور مقدمات دوبارہ کھلوانے کے معاملات پر تحقیقی کمیٹیاں بنا دی گئی ہیں‘ سو اب عدالت کے سخت نوٹس کے بعد ”بامِ یار“ پر خفیہ خط پہنچانے والے کبوتروں اور کبوتریوں کے پَر کٹنے کے دن قریب ہیں۔ ہمیں ڈرے ہوئے کبوتر کی طرح اپنی طرف نگراں دیکھ کر کبوتر باز دوست زور سے ہنسا اور بولا ....
عدل کی منڈیروں پر، دیکھئے جب آئیں گے۔۔۔ پَر کٹے کبوتر کیا داستاں سنائیں گے
پَر کٹے کبوتر کیا، داستاں سُنائیں گے
Jul 03, 2013