نواز رضا
تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے بہاولپور کے جلسے میں 14اگست2014ء کو اسلام آباد کی جانب ’’سونامی مارچ‘‘ اعلان کر دیا ہے عمران خان پاکستان کے پہلے سیاست دان نہیں جنہوں نے نے اپنے مطالبات منوانے کے لئے’’لانگ مارچ ‘‘ کا پروگرام بنایا ہے آج تک تو کسی لانگ مارچ کے نتیجے میں کوئی حکومت نہیں گری ایسا دکھائی دیتا ہے انہوں نے عجلت میں ’’سونامی مارچ ‘‘کا فیصلہ کیا ہے۔ جس میں ایسے مطالبات کو منوانے کے لئے 10لاکھ لوگوں اسلام آباد میں اکھٹا کرنے کا اعلان کیا ہے جن کا تعلق مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے نہیں ہے۔ در اصل انہوں نے چار سوالات کے جواب کے لئے حکومت کو ایک ماہ کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ کہ قومی اسمبلی کے 90 حلقوں میں فہرستیں تبدیل کر دی گئیں جب کہ 35 حلقوں میں جیتے ہوئے امیدواروں کو ہروادیا گیا۔ عمران خان نے سوال کیا ہے کہ 11 مئی 2013ء کی رات ساڑھے گیارہ بجے کس نے نواز شریف سے فتح کی تقریر کروائی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ الیکشن میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا کیا کردار تھا؟، تیسرا سوال یہ ہے کہ ہمیں بتایا جائے کہ 2013 کے عام انتخابات میں نگران حکومت کا کیا کردار تھا اور 35پنکچر لگانے والے کو چیئرمین پی سی بی کیوں لگایا گیا ؟ انتخابی فہرستوں کو عین وقت پر کیوں تبدیل کیا گیا ؟ عمران خاں نے’’ان سوالات کے لبادے میں مطالبات ‘‘منوانے کے لئے لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے ۔لیکن ابھی تک یہ بات واضح نہیں کہ اسلام آباد میں دھرنے کے مقاصد اور اہداف کیا ہیں ؟ جب عمران خان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کا دھرنا حکومت گرانے تک جاری رہے گا تو وہ کوئی جواب نہیں دے سکے۔ عمران خان کا ’’سونامی مارچ‘‘ دراصل ان کی ’’سولو فلائٹ‘‘ ہے سابق صوبائی وزیرقانون رانا ثنا اللہ نے عمران خان سے بھی سات سوال کر دئیے ہیںاور کہا ہے کہ وہ ان 35حلقوں کی نشاندہی کریں اور یہ بھی بتائیں کہ ان حلقوں میں پی ٹی آئی کے امیدواروں نے الیکشن کمیشن میں اپنی شکایات کا اندراج کرایا ہے کہ نہیں ۔ عمران خان وفاقی حکومت کا گھیرائو کرنا چاہتے ہیں جب کہ وہ کے پی کے میں حکومت کر رہے ہیں سندھ اور بلوچستان میں پی ٹی آئی کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے ایک صوبہ کی شکایات کا دیگر تین صوبوں کو سزا دینے کا کیا جواز ہے؟وہ 10 لاکھ لوگوں کو اسلام آباد اکھٹا کر کے 19کروڑعوام پر کس قانون کے تحت رائے مسلط کرنا چاہتے ہیں؟مطالبات منوانے کے لئے کیا عمران خان اور طالبان کے درمیان مماثلت نہیں پائی جاتی ہے ؟ عمران خان کس قانون کے تحت پھانسی کی دے سکتے ہیں ؟ اگر زمانہ جاہلیت میں کوئی شودر برہمن کو ہاتھ لگادے تو اسے سزائے موت دے دی جاتی تھی کیا عمران خان اپنے لوگوں کو برہمن اورپوری قوم کو شودر سمجھتے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات نے عمران خان کو قومی لیڈر بنایا ہے لیکن وہ قومی لیڈر کا کردار ادا کرنے کی بجائے اپنے ہاتھوں سے پھانسیاں دے کر تارا مسیح کا کردار کیوں ادا کرنا چاہتے ہیں ؟ اب تک عمران خان کے ’’سونامی مارچ ‘‘ کو صرف عوامی مسلم لیگ کی حمایت حاصل ہے جو پہلے ہی ان کے ساتھ’’ شامل باجہ ‘‘ ہیں پیپلز پارٹی ،عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علما ء اسلام (ف) عمران خان کی کسی تحریک کا حصہ بننے کے لئے کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی ڈکٹر طاہر القادری شو کی رونق بننے پر آمادہ ہیں ایم کیو ایم عمران خان کے ساتھ کھڑی ہوگی اور نہ ہی ڈاکٹر طاہر القادری کے’’ انقلاب‘‘کی حامی ہے۔ اس کی قیادت نے محض حکومت پر دبائو برقرار رکھنے کے لئے ڈاکٹر طاہر القادری کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی ۔ عمران خان’’نیا پاکستان ‘‘تعمیر کرنا چاہتے ہیں جب کہ ڈاکٹر طاہر القادری پورے نظام کی بساط ہی لپیٹ کر انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں ۔عمران خان کے ’’نئے پاکستان‘‘ اور ڈاکٹر طاہر القادری کے ’’انقلاب‘‘ کے خد وخال واضح نہیں ۔لیکن تحریک انصاف کے شامل باجہ شیخ رشید احمد جو عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے درمیان’’ پیغام رسانی‘‘ کے فرائض انجام دے ہیں نے دعویٰ کیا ہے عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے الگ الگ پروگرام ہو سکتے ہیں تاہم دونوں کی منزل ’’ڈی چوک ‘‘ ہی ہے ۔اب تک عمران خان اسلام آباد ،فیصل آباد ،گوجرانوالہ ،سیالکوٹ اور بہاول پور میں حکومت کی اجازت سے بڑے جلسے منعقد کر چکے ہیں ۔لیکن ان کو یہ بات پیش نظر رکھنا چاہیے کہ انہیں اسلام آباد تک پہنچنے کے لئے کئی دریا عبور کرنا ہوں گے تحریک انصاف کے پاس ایک بڑا ہجوم ضرور ہے لیکن یہ حکومت گرانے کے صلاحیت سے محروم ہے۔ عمران خان کے پاس جماعت اسلامی کی طرح وہ سٹریٹ پاور بھی نہیں جو اعلی مقاصد کے حصول کے لئے ہر چیلنج قبول کر سکتی ہے۔ اگرچہ جماعت اسلامی خیبر پختونخوا حکومت کا حصہ ہے لیکن تحریک انصاف کے ’’ ملین مارچ ‘‘ میں شامل ہونے سے اس نے انکار کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ عمران خان کے سونامی مارچ کے مقاصد واضح ہے نہ ہم سے اس کلیئے مشاورت کی گئی ہے۔ ہم کسی جماعت پر ملین مارچ کرنے پر پابندی تو نہیں لگا سکتے۔ عمران خان تو اب چار انتخابی حلقوں میں انگھوٹوں کے نشانات کی تصدیق کے مطالبے سے ہی دستبردار ہو گئے ہیں انہوں نے 11 مئی 2013 کے انتخابی نتائج کو ہی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔عمران خان نے اپنی 20 سالہ سیاسی زندگی میں کئی قلابازیاں کھائی ہیں ہر دور میں ان کے مؤقف میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں لہذاانہوں نے عام انتخابات کے بارے میں بھی ’’یوٹرن‘‘ لے لیا ہے ۔عمران خان کے بیشتر سوالات کا تعلق نواز شریف سے نہیں بلکہ الیکشن کمیش اور نگران حکومت سے ہے معلوم نہیں انہوں نے کس ’’ہدایت کار‘‘ کے اشارے پر 14ماہ بعد اچانک 11مئی2013ء کے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ عمران خان نے لانگ مارچ کا فیصلہ کسی جماعت سے مشاورت کئے بغیر کیا ہے یہی وجہ ہے انہیں ابھی تک لانگ مارچ میں شیخ رشید کے سوا کسی جماعت کی تائید حاصل نہیں ہوئی ۔سیاسی جماعتیں فی الحال یہ جائزہ لے رہی ہیں کہ عمران خان لانگ مارچ کے ذریعے حکومت گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ نہیں ۔البتہ ایک بات واضح ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری جن کے پاس سٹریٹ پاور ہے 14اگست2014ء کے لانگ مارچ سے قبل عمران خان کے ساتھ اپنا لانگ مارچ شروع کرکے ان کی قوت کا باعث بن سکتے ہیں ۔ موجودہ حکومت کو قائم ہوئے ابھی 14ماہ ہی ہوئے ہیں عمران خان خان سمیت وہ تمام سیاسی جماعتیں جو کہیں سے کسی اشارے پر سرگرم ہوئی ہیں ، اس ختم کرنے کے لئے مضطرب ہیں اور عمران خان نے عجلت میں اپنی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کر لیا ۔ان کے ملین مارچ کی ناکامی ان کی سیاست کو خاتمہ کا باعث بھی بن سکتی ہے پاکستان عوامی تحریک کے چیئرمین ڈاکٹر طاہر القادری بھی تذبذب کا شکار ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ(ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین ،سابق نائب وزیر اعظم چوہدری پرویز الہی،سنی اتحاد کونسل کے قائد حامد رضا اور مجلس وحدت مسلمین کے رہنما امین شہیدی سے ملاقات کے بعد انہوں نے ’’گرینڈ الائنس ‘‘ کی تشکیل سے د ستبردار ہونے کا اعلان کر دیا ہے دوسری طرف عمران خان جو ’’سولو فلائٹ ‘‘ پر یقین رکھتے ہیں نے بھی کسی ’’گرینڈ الائنس ‘‘ کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔
خیبر پختونخوا میں جمعیت علما ء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمنٰ ،عمران خان کا راستہ روکنے کی صلاحیت رکھتے تھے لیکن میاں نواز شریف نے پاکستان تحریک انصاف کو واحد اکثریتی جماعت نہ ہونے کے باوجود حکومت سازی کا موقع دیا انہوں نے تحریک انصاف میں ’’بغاوت‘‘ کا بھی فائدہ نہیں اٹھایا لیکن اب جب کہ عمران خان نے نواز شریف حکومت گرانے کے لئے اسلام آبا د کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کر دیا ہے خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لئے جمعیت علما ء اسلام (ف) ،مسلم لیگ(ن)، قومی وطن پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے فارورڈ بلا ک کو ’’گرین سگنل ‘‘ دیا جا سکتا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے میاں نواز شریف سے’’ وکٹری سپیچ ‘‘ کرانے کے ’’جرم ‘‘ کا اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ہر سزابھگتنے کو تیار ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے نواز شریف مخالف عناصر 14اگست 2014ء کو اسلام آباد کے ’’ڈی چوک‘‘ تک پہنچنے میں کیونکر کامیاب ہوتے ہیں؟
مختلف الخیال کے لئے ڈی چوک کا انتخاب
Jul 03, 2014