شہزاد چغتائی
چار بڑی سیاسی جماعتوں نے سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا اعلان کر کے جمہوریت کے مخالفین کو سخت پیغام دےدیا ہے ملک میں بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال پر کراچی میں کئی دنوں تک مشاورت ہوتی رہی جس کے بعد پیپلز پارٹی نے حکومت کا ساتھ دینے کا حتمی فیصلہ کیا۔ کراچی کے سیاسی حلقوں میں یہ باتیں بھی ہو رہی ہیں کہ دونوں جماعتیں ایک بار پھر 1999ءکی پوزیشن پر آ کر کھڑی ہو گئی ہیں جب سابق صدر پرویز مشرف نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا باب بند ہو گیا ہے۔ لیکن تلخ حقائق اور تاریخ کے بے رحم فیصلے نے ملک میں مستحکم ہوتی جمہوری سیاست نے2014ءمیں پیپلز پارٹی مسلم لیگ کو اس طرح ایک ساتھ کھڑے کر دیا کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کیلئے مخالف ہونے کے باوجود قومی مسائل کے حوالے سے ایک ساتھ کھڑی ہےں اور ہر طرح کے نامساعد حالات کے لئے تیار ہے۔ وزیراعظم محمد نوازشریف کے لئے طمانیت بخش بات یہ ہے کہ اس بار پیپلز پارٹی کے ساتھ اے این پی‘ جمعیت علماءاسلام سمیت کئی سیاسی جماعتیں بھی کھڑی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے حلقوں نے نوائے وقت کے استفسار پر بتایا کہ ہم نے کٹھن راہوں کا انتخاب کیا ہے جمہوریت کی بقاءکے لئے آصف علی زرداری کے فیصلے کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان رابطے تو پہلے سے قائم تھے لیکن گرینڈ الائنس کی تشکیل کے اعلانات اور ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے ملک میں انقلاب لانے کے اعلان کے بعد ان رابطوں میں تیزی آ گئی تھی۔ اب نوازشریف سے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی ملاقات کو بہت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے وزیراعظم محمد نوازشریف کو سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے اہم پیغام پہنچایا ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ جمہوریت کے استحکام کے لئے پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ کھڑی رہے گی اور جمہوریت دشمنوں کے عزائم ناکام بنا دئیے جائیں گے۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے نوازشریف کی ملاقات آئندہ چند روز میں کراچی میں ہو گی۔ اس سے قبل پیپلز پارٹی سے عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کے رابطے سودمند ثابت نہیں ہو سکے۔ پیپلز پارٹی نے ڈاکٹر طاہر القادری کو جمہوریت کے خلاف کسی سازش کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔ بہاولپور کے گرم درجہ حرارت میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان تقریر کے بعد جہاں حکومت کے ٹھنڈے ایوانوں میں حکمرانوں کو ٹھنڈے پسینے آ گئے وہاں بلاول ہاﺅس میں جیالوں نے تحریک انصاف کے سربراہ کی تقریر کو مسترد کر دیا اور پیپلز پارٹی نے اپنا وزن مسلم لیگ (ن) کے پلڑے میں ڈال دیاہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک جانب پیپلز پارٹی نے حکومت کے خلاف کسی سازش میں شریک نہ ہونے کا اعلان کیا ہے دوسری جانب پیپلز پارٹی کے رہنماﺅں منظور وٹو اور مخدوم شہاب الدین نے ڈاکٹر طاہر القادری سے ملاقاتیں کیں اور منظور وٹو نے طاہر القادری کے ساتھ پریس کانفرنس بھی کی جس کا پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے سخت نوٹس لیا اور وضاحت طلب کر لی۔ لیکن اس کے برعکس پیپلز پارٹی کے بعض رہنماءڈاکٹر طاہر القادری کے گن گاتے رہے اور ان کی کھلم کھلا حمایت بھی کرتے رہے۔ جب پیپلز پارٹی کی اس کھلی منافقت اور بعض رہنماﺅں کے باغیانہ رویہ پر پیپلز پارٹی کے رہنماﺅں سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہاکہ پیپلز پارٹی اپوزیشن کی جماعت ہے‘ طاہر القادری بھی اپوزیشن میں ہیں اور اپوزیشن کا نکتہ نظر مخالفانہ ہوتا ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ حکومت 5 سال مکمل کرے۔ پیپلز پارٹی کے رویے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ طاہر القادری اور عمران خان کو تھپتھپا رہی ہے۔ سیاسی حلقے کہتے ہیں کہ جیسے ہی فصل پکے گی‘ پیپلز پارٹی بڑھ کر ساغر و مینا سنبھال لے گی۔ لیکن باخبر حلقے کہتے ہیں کہ اس بار حکومت مستحکم رہے گی۔ کیونکہ عمران خان غیر سنجیدہ سیاستدان ہیں جو کسی وقت بھی چھٹیاں منانے لندن چلے جائیں گے۔ ادھر حکومت کے مخالفین ، بعض سیاسی و صحافتی حلقوں اور الیکٹرانک میڈیا کے صنم خانوں میں دلچسپ باتیں بھی ہو رہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ حکومت کا جانا ٹھہر گیا تھا لیکن طاہر القادری اور حکومت کے درمیان بعض معاملات طے پا گئے اور واپس پلٹ گئے۔ عین وقت پر انہوں نے حکومت پر دباﺅ ختم کر دیا اور حکمرانوں کے خلاف مقدمہ درج کرانے کے لئے تھانے کے گھیراﺅ کا پلان موخر کر دیا۔ یہ افواہیں بھی اڑ رہی ہیں کہ طاہر القادری کو حکمت عملی کے تحت پسپا ہونے کی ہدایت کی گئی اور عمران خان کو میدان میں لا کر سخت پیغام دیا گیا۔ عمران خان کی جانب سے الیکشن کو بوگس قرار دینے کے اعلان کو سیاسی حلقے حکومت پر کاری ضرب قرار دے رہے ہیں کیونکہ اس نے پوری پارلیمنٹ کی پوزیشن چیلنج ہو جائے گی۔ 14 اگست کو انہوں نے لانگ مارچ کیا تو 1977ءمیں قومی اتحاد کی تحریک جیسی صورت بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ اس تناظر میں 14 اگست کے لانگ مارچ کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ حکمرانوں نے طاہر القادری کا دھرنا تو نہیں ہونے دیا لیکن عمران خان کا لانگ مارچ روکنا آسان نہیں ہو گا۔ عمران خان لانگ مارچوں کا طویل تجربہ رکھتے ہیں۔ وزیراعظم محمد نوازشریف کے کریڈٹ پر ایک کامیاب لانگ مارچ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ان پر ایک بار پھر لانگ مارچ کی تلوار لٹک رہی ہے۔ 1993ءمیں پیپلز پارٹی کی مرحوم چیئرمین بے نظیر بھٹو نے ان کے خلاف کامیاب لانگ مارچ کیا تھا۔ اس لحاظ سے لانگ مارچ کی تاریخ حکمرانوں کے لئے نئی نہیں ہے۔ پاکستان آنے کے چند گھنٹے بعد تک طاہر القادری سلطان راہی بنے ہوئے تھے اور انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ میں وزیراعظم نوازشریف اور وزیراعلیٰ شہباز شریف کو بھاگنے نہیں دوں گا اور 14 افراد کے قتل کے الزام میں گرفتار کروں گا۔ لیکن بعد میں انہوں نے گورنر پنجاب محمد سرور سے پینگیں بڑھا لیں۔ گورنر صاحب ڈاکٹر صاحب سے نوازشریف سے ملاقات کے بعد ملے۔ لیکن اب وہ مریدوں کی تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ مرید شہیدوں کے لہو کا سودا کرنے‘ مقدمہ درج نہ کرانے اور گورنر محمد سرور سے ملاقات کرنے پر برس رہے ہیں۔
ان دنوں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور طاہر القادری کے درمیان اختلافات کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ سیاسی حلقے اس کی ایک وجہ اسلام آباد کو فتح کرنے کی خواہش قرار دے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے حلقے سمجھتے ہیں کہ حکومت کے خاتمے کا کریڈٹ عمران خان کو ملنا چاہئے۔ طاہر القادری غیر منتخب ہیں۔ جبکہ سیاسی حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں طاہر القادری اور عمران خان ایک ہو جائیں گے۔ اس بدلتی ہوئی سورت حال میںخیال کیا جاتا ہے کہ 17 جون کو ادارہ منہاج القرآن پر حملہ اور 23 جون کو طاہر القادری کے طیارے کا رخ موڑ کر جو غلطیاں کی گئی تھیں حکومت کی جانب سے وہ 14 اگست کو دہرائی نہیں جائیں گی۔ خود حکومت نے اعتراف کر لیا ہے کہ مشیروں نے معاملات بگاڑے اور حکومت کو سرکس کی رسی پر کھڑا کر دیا۔ 17 جون کا بیوروکریسی اور پولیس نے حکومت کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا تھا لیکن 23 جون کی حماقت سرزد ہونے کے بعد دو گورنرز حکومت کی مدد کو آ گئے اور انہوں نے مسئلہ حل کر دیا۔ اب ایک جانب حکومت طاہر القادری کے خلاف گھیرا تنگ کر رہی ہے تو دوسری جانب ان کی رہائش گاہ کے باہر دوبارہ بیریئر لگا کر اس نے خیر سگالی کا ایک پیغام بھی دیاہے۔