بہاولپور میں سونامی کے نام سے کثیر الجماعتی کا جلسہ

Jul 03, 2014

راو شمیم اصغر
بہاولپور میں 27 جون کی شب سونامی کا جو” حملہ“ ہوا تھا اس سونامی کے اثرات کے بارے میں بہاولپور میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ تحریک انصاف اور ان کے حامیوں کا خیال ہے کہ بہاولپور کی تاریخ میں یہ ایک کامیاب جلسہ عام تھا کیونکہ بہاولپور کی آبادی کے اعتبار سے شرکاءجلسہ کی تعداد کافی بہتر تھی جبکہ مخالفین کا کہنا ہے کہ بہاولپور تحریک انصاف کیلئے آئیڈیل جگہ ہونے کے باوجود شرکاءکی تعداد کوغیر معمولی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ جلسہ عام تحریک انصاف کا نہیں بلکہ متحدہ اپوزیشن کا جلسہ تھا۔ تحریک انصاف کو نوابین بہاولپور کی پارٹی بہاولپور نیشنل عوامی پارٹی کے علاوہ مسلم لیگ ق عوامی مسلم لیگ اور علامہ طاہر القادری کے حامیوں کی مدد بھی حاصل تھی۔مسلم لیگ ق کے ایم این اے طاہر بشیر چیمہ اگرچہ خود جلسہ عام میں شریک نہیں ہوئے لیکن یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ وہ جلسہ عام میں اپنے حامیوں کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو یقینی بنانے کیلئے خود مانیٹرنگ کرتے رہے۔ مسلم لیگ ق بہاولپور نیشنل عوامی پارٹی اور علامہ طاہر القادری کے حامیوں کی جو تعداد اس جلسہ میں شریک تھی دعو¶ں کے مطابق اس تعداد کو منہا کر لیا جائے تو سونامی کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔ صورتحال جو بھی ہو اس میں شک نہیں کہ یہ جلسہ بہاولپور کی تاریخ کا بڑا جلسہ تھا جس میں عمران خان کے علاوہ جاوید ہاشمی اور مخدوم شاہ محمود حسین قریشی بھی خوب برسے۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے موجودہ وفاقی وفاقی حکومت کو تین ماہ کی مہمان قرار دیا۔ مخدوم شاہ محمود حسین قریشی کا بھی دعویٰ تھا کہ زرداری کا دور ختم ہو چکا۔ نوازشریف کا دور بھی ختم ہونے والا ہے۔ مخدوم شاہ محمود حسین قریشی جو نوازشریف کے ساتھ ماضی میں صوبائی وزیر منصوبہ بندی رہ چکے ہیں اور زرداری حکومت کی کابینہ میں وزیر خارجہ کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں کا یہ بھی کہنا تھا کہ زرداری اور نوازشریف نے ہمیشہ مک مکا کی سیاست کی ہے اور آج بھی ایسی ہی سیاست کررہے ہیں۔ اہل بہاولپور کو توقع تھی کہ اس جلسہ عام میں عمران خان بہاولپور صوبہ کی بحالی کا مطالبہ بھی کریں گے بلکہ بہاولپور نیشنل عوامی پارٹی کے بعض رہنما تو یہاں تک دعویٰ کرتے ہیں کہ تحریک انصاف اور بہاولپور نیشنل عوامی پارٹی کے الحاق کا بنیادی نکتہ ہی یہ ہے کہ تحریک انصاف بہاولپور صوبہ کی بحالی کے مطالبہ کی حمایت کرے گی۔ لیکن ان لوگوں کو اس وقت شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب عمران خان نے اس موضوع پر ایک لفظ بھی نہ کہا۔ مخدوم جاوید ہاشمی اور مخدوم شاہ محمود حسین قریشی اگرچہ صوبوں کے قیام کے بارے میں بولتے رہے لیکن ان کی ساری باتیں گول مول تھیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ بھی کھل کر بہاولپور صوبے کی بحالی کی بات نہیں کی۔ مخدوم جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ ملتان والے سرائیکی صوبہ مانگتے ہیں۔ بہاولپور والے صوبہ کی بحالی چاہتے ہیں۔ پوٹھوہار والے بھی صوبہ مانگتے ہیں۔ ان لوگوں کو ان کا حق ملنا چاہئے۔ مخدوم شاہ محمود حسین قریشی نے اپنے خطاب میں بھی گول مول بات کی ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی نے سرائیکی صوبے کی بات کی‘ میاں نوازشریف نے بہاولپور صوبہ کے تشخص کو بحال کرنے کا وعدہ کیا لیکن تحریک انصاف سہانے خواب دکھانے یا فریب دینے نہیں آئی۔ اگر تحریک انصاف کو موقع ملا تو اس وسیب کا حق چھین لیں گے۔ تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے گول مول باتوں نے بہاولپور صوبہ کی بحالی چاہنے والوں کو شدید مایوسی ہوئی بلکہ جذباتی انداز میں یہ بھی کہتے نظر آئے کہ تحریک انصاف اگر بہاولپور صوبہ کی بحالی کے حق میں نہیں تو دوبارہ اتنا بڑا جلسہ کر کے دکھائیں ۔ تحریک انصاف کے بہاولپور کے جلسہ عام میں بعض غیر ملکی مہمان بھی شریک تھے۔ یہ مہمان جلسہ گاہ میںحساس اداروں کی شخصیات کے پورٹریٹ دیکھ کر ان کی جانب اشارے کرکے سرگوشیاں کرتے نظر آئے۔ بہاولپور کے جلسہ عام سے قبل اور بعد میں تحریک انصاف میں گروپ بندی بھی کھل کر سامنے آتی رہی۔ کچھ ضلعی رہنما پارٹی کی ضلعی قیادت کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ نئے پارٹی انتخابات کا مطالبہ بھی کرتے رہے۔ مخالفین کو ان کی باتیں سن کر یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ جس پارٹی کے اپنے کارکن انصاف کے طلب گار ہوں جہاں پارٹی الیکشن پر عدم اعتماد کا اظہار ہو اسے دوسروں سے انصاف طلب کرنےکی بجائے اپنے معاملات سب سے پہلے درست کرنے چاہئیں۔ ان ہی انصاف کے طلب گار لوگوں کی جانب سے یہ الزام نے میڈیا میں خاصی پذیرائی حاصل کی کہ سٹیج پر بیٹھنے کیلئے دو لاکھ روپے کے پارٹی فنڈز کا مطالبہ کیا گیا۔ اس الزام میں کتنی حقیقت ہے اس بارے میں پارٹی کی صوبائی قیادت ہی بہتر بتا سکتی ہے لیکن سٹیج پر 90 کرسیاں رکھی گئی تھیں جن میں سے پچاس فیصد خواتین کیلئے مخصوص تھیں۔ سٹیج پر بیشتر پارٹی کے مرکزی و صوبائی قائدین تھے چند ایسے تھے جن کی سٹیج پر موجودگی پر شک کا اظہار کیا جا سکتا تھا۔
 ملتان بلکہ پورا جنوبی پنجاب گزشتہ دنوں شدید ترین گرمی کی لپیٹ میں رہا اور لوڈشیڈنگ بھی اپنے عروج پر رہی۔ سید یوسف رضا گیلانی جب وزیراعظم بنے تو ملتان میں لوڈشیڈنگ کے خلاف سخت احتجاج ہوا تھا اور مظاہرین نے توڑ پھوڑ کے ذریعے بڑی تباہی پھیلائی تھی اس کے بعد میپکو کا ملتان کے ساتھ کم از کم رویہ بہتر ہی رہا۔ بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ سید یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ کے دوران شہری مزے لوٹتے رہے۔ وہ علاقے جہاں سابق وزیراعظم کا کچھ تعلق بنتا تھا وہاں نام کی لوڈشیڈنگ تھی پھر راجہ پرویزاشرف کا دور آیا تو ساری کسر نکل گئی۔ پچھلا پورا سال بھی شدید لوڈشیڈنگ ہوتی رہی ملتان وطن عزیز کے بعض دیگر علاقوں کی طرح گرم ترین علاقہ کہا جاتا ہے۔ لوڈشیڈنگ کا پروگرام بناتے وقت کم از کم اس پہلو کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہئے۔ صورتحال یہ ہے کہ مری ملتان اور جیکب آباد میں لوڈشیڈنگ کے اوقات یکساں ہیں ایک بہت بڑے طبقے کا خیال ہے کہ ملک کے گرم ترین علاقوں کو کچھ نہ کچھ رعایت دی جانی چاہئے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران میپکو کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا تو اعلان کر دیا گیا لیکن چیئرمین کا اعلان کرتے کرتے تقریباً ایک سال گزر گیا۔ چیئرمین کا تقرر نہ ہونے کے باعث سارے اختیارات دیگر شہروں کی رہائشی بیوروکریسی کے ہاتھ میں تھے۔ اب جبکہ میپکو کے انتظامات چلانے مشکل ہو گئے اور حکومت کو کوئی یس مین نہ ملا تو آخر کار مقامی صنعتکار شیخ احسن رشید کو بورڈ آف ڈائریکٹرز کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ اب اس خطے کے لوگ بجا طور پر توقع کر سکتے ہیں کہ ان کا ساتھ بہتر سلوک ہو گا۔ شیخ احسن رشید ایک پرجوش باصلاحیت اور محنتی شخصیت ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ میپکو کو ماڈل کمپنی بنانے میں اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے۔ اور بہتر مینجمنٹ کے ذریعے لوڈشیڈنگ میں کمی لائیں گے۔ نجی شعبے کو بجلی کی پیداوار کیلئے ہر ممکن ترغیب اور سہولت دی جائے گی۔ اپنے ان دعو¶ں میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں اس کا انحصار بیوروکریسی پر ہے کہ وہ ان کے ساتھ کس حد تک تعاون کرتی ہے۔

مزیدخبریں