اے پی سی میزبان کو مشترکہ اعلامیہ میں پسپائی

 فرخ سعید خواجہ
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے 14 اگست کو وفاقی دارالحکومت کی طرف سونامی مارچ کا اعلان، ڈاکٹر طاہر القادری، چوہدری شجاعت، پرویز الٰہی کی اے پی سی اور شیخ رشید احمد کی بڑھکوں نے سیاسی ماحول کو گرما دیا ہے۔ بالخصوص قربانی کی عید سے پہلے قربانی ہو جانے کا بہت چرچا ہے۔ آپ کسی تقریب میں جائیں، گلی محلہ ہو یا دفاتر، دکان ہر جگہ ایک ہی سوال پوچھا جاتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا حکومت ختم ہو جائے گی؟ حکومت مخالف سیاسی جماعتوں کے حامی ووٹر اور سپورٹر بہت پُرامید ہیں کہ قربانی کی عید سے پہلے قربانی ہو جائے گی تاہم ہماری رائے یہ ہے کہ کٹھ پُتلی تماشہ دکھانے والوں کے پاس اکتوبر تک کا وقت ہے اگر وہ کچھ کر گئے تو ماورائے آئین اقدام سے نواز شریف حکومت گر سکتی ہے لیکن ایسا کرنے والے خود زیادہ دیر حکومت نہیں کر سکیں گے سو جن کو آگے لائیں گے اُن کے خلاف جلد میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے والی جماعتیں صف بندی کر لیں گی اور بحالی جمہوریت کی تحریک کا آغاز ہو جائے گا تاہم منصوبہ ساز اکتوبر تک کچھ نہ کر سکے تو پھر نواز شریف حکومت اپنی میعاد پوری کرے گی۔
موجودہ حکومت کے خلاف ایک طرف عمران خان دوسری طرف ڈاکٹر طاہر القادری اور تیسری طرف چوہدری حامد ناصر چٹھہ ماضی کے سپیکر، وفاقی و صوبائی وزراءسمیت پارلیمنٹرین کو اپنے یہاں اکٹھا کرنا سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ حکمرانوں بالخصوص نواز شریف، شہباز شریف نے اپنے ایک سالہ دور حکومت میں پاکستان کو درپیش بحرانوں سمیت گیس بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نمٹنے اور مستقبل کے لئے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کرنے کی بھرپور کوششیں کی ہیں۔ دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی گئی ہیں اور ان دنوں حکومت فوج مل کر شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کر رہی ہیں۔ صنعتی انقلاب کیلئے حکومت کی منصوبہ بندی اور اس میں پیش رفت دیکھ کر عام لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ اگر حکومت کو میعاد پوری کرنے کا موقع مل گیا تو پاکستان مشکلات سے نکل جائے گا تاہم سیاسی محاذ پر حکومت کی کارکردگی ہرگز اچھی نہیں ہے۔ حکمرانوں نے اپنی جماعت کے لوگوں کو حکومت میں حصہ دار بنانے میں کنجوسی کا مظاہرہ کیا، اپنوں ہی کو نظر انداز نہیں کیا گیا حلیفوں سے بے اعتنائی کی انتہا کر دی گئی۔ چند ایک اتحادی جماعتوں کو اقتدار میں مونگ پھلی جتنا حصہ دیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن کی جماعت کو دو وزارتیں الاٹ کی گئیں لیکن انہیں محکمے دینے میں اتنی تاخیر کی گئی کہ اُدھر سے دھمکیاں سامنے آ گئیں۔ مرکزی جمعیت اہلحدیث جیسی اتحادی جماعت کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دی گئی۔ حالانکہ اس جماعت کا مسلم لیگ (ن) کے ساتھ طویل عرصے سے ساتھ تھا۔ جماعت اسلامی ساتھ چل سکتی تھی لیکن اسے گھاس نہیں ڈالی گئی۔ عوامی نیشنل پارٹی کو لاوارث چھوڑ دیا گیا۔ دہشت گردوں نے اس جماعت کی کمر توڑ دی تھی۔ متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ معاملات کے حوالے سے نیم دروں نیم بروں والا معاملہ رہا۔ جہاں تک پنجاب حکومت کا تعلق ہے اس کے ٹارزن میاں شہباز شریف سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے بعد جذبات سے مغلوب ہو گئے جس کے باعث انہیں سیاسی محاذ پر سبکی برداشت کرنا پڑی۔ اس تمام کے باوجود حکمران خوش قسمت ہیں کہ ان کے جن مخالفین کو میدان میں اتارا گیا ہے ان کی اہلیت اور قابلیت مشکوک ہے۔ اب تک عمران خان جلسے جلوسوں کی حد تک کامیاب ہیں۔ افرادی قوت اکٹھا کرنے میں اُن کو کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن عوامی سطح پر وہ دیگر سیاسی جماعتوں اور عام آدمی کو اپنے کیس کا حامی نہیں بنا سکے لہٰذا اُن کی جتنی حمایت نظر آتی ہے اس سے زیادہ ان کے مخالفین موجود ہیں۔ سو اگر اکتوبر ٹل جاتا ہے اور نواز شریف حکومت بچ جاتی ہے تو اس میں حکمرانوں کی اپنی بصیرت سے زیادہ ان کی خوش قسمتی کا عمل دخل ہو گا۔
ڈاکٹر طاہر القادری، چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الٰہی اور شیخ رشید احمد سیاسی قوتوں کو اپنے ساتھ چلانے میں کس قدر کامیاب ہیں اس کا اندازہ 29 جون کی آل پارٹیز کانفرنس سے لگایا جا سکتا ہے۔ اے پی سی میں شامل سیاسی جماعتوں میں پاکستان تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، جماعت اسلامی تین ایسی جماعتیں ہیں جو محض سانحہ ماڈل ٹاﺅن پر اظہار افسوس کے لئے ان کے ساتھ شامل ہوئیں جس کا انہوں نے برملا اظہار بھی کیا۔ باقی مسلم لیگ (ق)، عوامی مسلم لیگ، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) قابل ذکر ہیں۔ دیگر جماعتوں میں تحریک صوبہ ہزارہ، سُنی اتحاد کونسل جو کہ چند سُنی جماعتوں پر مشتمل اتحاد ہے، مجلس وحدت المسلمین، نظام مصطفی پارٹی، جمعیت اہلحدیث پاکستان، پاکستان شیعہ پولیٹیکل پارٹی، پاکستان کرسچین پارٹی، آل پاکستان مسلم لیگ، آل پاکستان شیعہ ایکشن کیمٹی، سوشل جسٹس پارٹی، پاکستان غرباءپارٹی، پاکستان فلاح پارٹی، تحریک استحکام، مسلم لیگ حقیقی، سندھ یونائیٹڈ پارٹی، مجلس چشتیہ پاکستان، جمعیت علمائے پاکستان نیازی، سرائیکی ڈیمو کرٹیک پارٹی، سرائیکی قومی اتحادی پارٹی، سرائیکستان اتحاد، پاکستان یونائیٹڈ پارٹی، پاکستان متحدہ کسان محاذ، پاکستان مزدور محاذ، انٹر فیتھ ڈائیلاگ سمیت جے اے سالک، جمشید دستی ایم این اے، سردار رمیش سنگھ نے شرکت کی۔
آل پارٹیز کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں وزیراعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو سانحہ ماڈل ٹاﺅن کا ذمہ دار ٹھہرانا بھی شامل نہیں کروایا جا سکا۔ جہاں تک چٹھہ صاحب کی رہائش گاہ پر جمع ہونے والے سردار نصراللہ دریشک، ریاض فتیانہ، سردار طالب نکئی، مہر سعید ظفر، پڈھیار، اقبال ڈار، چوہدری امیر حسین و دیگر کا تعلق ہے وہ اپنے حلقے کے مضبوط انتخابی امیدوار ضرور ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی کسی تحریک کو آگے بڑھانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ البتہ کہا جا سکتا ہے کہ جنگ ہوئی اور کامیابی ملی تو مال غنیمت میں کچھ حصہ ان لوگوں کو بھی مل جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...