احمد کمال نظامی
رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہوتے ہی ہمارے ہاں ہر سال مہنگائی اور اشیائے صرف کی بلا تعطل فراہمی کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے ۔ا گرچہ اس مہینے کو لوگوں میں رزق کی فراوانی کا وسیلہ ہونا چاہیئے لیکن کیا بڑے شہر اور کیا چھوٹے قصبات، چندشیطان صفت منافع خوروں کی وجہ سے پورا مہینہ عام لوگوں کیلئے مہنگائی کی پریشانی لے کر آتا ہے۔حکومت پنجاب نے گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی انتظامیہ کے ذریعے اس مسئلے پر قابو پانے کی کوشش کی ہے لیکن بعض خود غرض تاجر ہیں کہ اس کے باوجود لوٹ مار میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ معاملے کی سنگینی کا اسی بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خود وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف اس لعنت کے خلاف کمر بستہ دکھائی دیتے ہیں۔ تین روز قبل انہوں نے اوکاڑہ میں رمضان بازار کا معائنہ کیا ۔ اس موقع پر انہوں نے انتباہ کیا ہے کہ صوبہ بھر میں قیمتوں پر کنٹرول نہ کرنے کا ذمہ دار متعلقہ ضلع کا ڈی سی او ہو گا۔ حکومت کی جانب سے عام آدمی کو دیا جانے والا ریلیف کسی حد تک ان کی مشکلات میں کمی کا باعث ہو سکتا ہے مگر اس کیلئے انتظامیہ کی مسلسل نگرانی ضروری ہے جس کے بغیر عوام کو ناجائز منافع خوروں کی لوٹ مار سے نہیں بچایا جا سکتا ۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف جس وقت مختلف اسٹالز پر فروخت ہونے والی اشیائے ضرورت کا معائنہ کر رہے تھے، انہوں نے گوشت، پھل اور سبزیوں کی ناقص کوالٹی پا کر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ وزیر اعلیٰ نے اپنی پہلی فرصت میں اوکاڑہ پہنچ کر رمضان میں اشیئے ضرورت کا بچشم خود جائزہ لیا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک ضلع اوکاڑہ ہی نہیں ہر ضلع اور تحصیل کے رمضان بازاروں کا یہی حال ہے۔ فیصل آباد میں ڈویژنل کمشنر سردار اکرم جاوید کو بھی یہی شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ رمضان بازاروں میں کوالٹی سے گری ہوئی اشیاءگراں قیمت پر فروخت کی جا رہی ہیں ۔کچھ علاج اس کا اے چارہ گراں ہے کہ نہیں ہے ......اصل بات تو یہی ہے کہ جو ایوان وقت میں مختلف افراد نے کہی کہ نام نہاد کمیٹیوں کے عہدیدار بھتہ وصول کرتے ہیں۔ سستے بازاروں کے نام پر عوام کے حصے میں ناقص اور گلی سڑی چیزیں آتی ہیں جبکہ وزیراعلیٰ کی بجائے ہم خود اس کے ذمہ دار ہیں۔ حکومت نے تو ریلیف دینے میں دریا دلی سے کام لیا۔ اب ہماری نیت میں ہی فتور ہے اور ہم رمضان کو برکتوں اور رحمتوں کا ماہ مقدس قرار دینے کی بجائے زیادہ سے زیادہ منافع کا سیزن قرار دیتے ہیں تو فیصلہ آپ خود کریں کہ ذمہ دار مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے وہ لوگ ہیں جنہیں کسی مذہب وملت یا اخلاقیات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
پنجاب کے سابق وزیرقانون رانا ثناءاللہ خاں نے مستعفی ہونے کے بعد سانحہ ماڈل ٹا¶ن کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل ٹربیونل کے روبرو بیان دے دیا ہے ۔جس میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ انہوں نے گولی چلانے کا کوئی حکم نہیں دیا تھا۔ الزامات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔ اب جبکہ رانا ثنا اللہ اپنی پارٹی قیادت کی ہدایت پر وزارت سے مستعفی ہو چکے ہیں۔ بلا شبہ پارٹی میں ان کے قد میں اضافہ ہوا ہے۔ وفاقی وزیر مملکت پانی و بجلی عابد شیرعلی کا کہنا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹا¶ن کو جواز بنا کر چند تانگہ سوار پارٹیاں ملک میں انتشار پھیلانے کے لئے غیرملکی ایجنڈا پر کام کر رہی ہیں اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرف سے بلائی گئی اے پی سی کانفرنس چند خودساختہ لیڈروں کی انتشار کانفرنس تھی جو پانی کا بلبلہ ثابت ہوئی۔ پاکستان کی تاریخ مختلف سانحات سے بھری پڑی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹا¶ن اور سانحہ کراچی ایئرپورٹ یقینی طور پر ایک ناقابل تلافی نقصانات ہیں۔ اگر عدالت عظمیٰ ان سانحات کا ازخود نوٹس لے لیتی تو چند حکومت مخالف جماعتوں کو اے پی سی بلانے کی جرات ہی نہ ہوتی۔ اب سانحہ ماڈل ٹا¶ن کو جواز بنا کر عوامی تحریک اور ادارہ منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری جس سمت کی طرف پرواز کر رہے ہیں وہ سمت نہ انقلاب کی طرف جاتی ہے اور نہ نظام کی تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی بلائی ہوئی اے پی سی جو سیاسی جماعتیں شریک ہوئیں ان میں پاکستان کی سیاست میں مذہبی نقطہ سے اپنا کردار ادا کرنے والی ایک جماعت بھی شامل نہیں تھی۔ جمعیت علماءاسلام کے دونوں دھڑوں یعنی مولانا فصل الرحمن اور مولانا سمیع الحق نے طاہرالقادری کی اے پی سی میں نہ صرف شامل ہونے سے انکار کر دیا بلکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی کے ایجنڈے کو تقویت فراہم کرنے کے لئے اپنا کاندھا پیش نہیں کریں گے۔ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے نمائندوں کی شرکت حب علی نہیں بغض معاویہ ہے۔ علامہ طاہرالقادری اور عمران خان خودپرستی کی رو میں اکیلے اکیلے پرواز کے لئے پر تول رہے ہیں اور یہ ہی طرز عمل ان کی ناکامی کی دلیل ہے۔ ورنہ صاحبزادہ احمد رضا قصوری جو مقدمات میں جنرل(ر) پرویزمشرف کے وکیل ہونے ناطے ان کی آل پاکستان مسلم لیگ سے تعلق رکھتے ہیں، مولانا حامد سعید کاظمی جوحج سکینڈل میں سبکدوش ہونے والے سابق وزیر ہیں اور غلام مصطفی کھر جو محض پنجاب کے شیر کہلوانا پسند کرتے ہیں ان کا جماعتی سطح پر کوئی قد کاٹھ نہیں۔
اب طاہرالقادری اے پی سی نے سپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل کمیشن کا مطالبہ کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ مسلم لیگ(ن) اور غیرجانبدار سیاسی مبصرین اس مطالبہ پر سوال کر رہے ہیں کہ وزیراعلیٰ اور وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے والے اس وقت کہاں تھے جب لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا سانحہ ہوا اور جنرل جمشید کیانی کے بقول فاسفورس بم تک استعمال کئے گئے اور کراچی میں چیف جسٹس کی آمد پر47 افراد شہید کر دیئے گئے اور اسلام آباد میں جنرل پرویزمشرف بازو اور مکے دکھا کر یہ فرما رہے تھے اسے کہتے ہیں عوامی طاقت کا مظاہرہ۔ اس وقت چوہدری شجاعت حسین، پرویزالٰہی اور ایم کیو ایم والے ڈکٹیٹر کے قدموں میں بیٹھے تالیاں بجا رہے تھے اور یہ ریکارڈ کی بات ہے کہ سانحہ کراچی کی پرویزمشرف نے تحقیقات کرانے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے مسلم لیگ(ن) کی قیادت کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے والے شیخ الاسلام خود اس سانحہ کے براہ راست ذمہ دار ہیں اور خواجہ سعد رفیق 16جون سے تیس جون تک کے بیانات کا حوالہ بھی دیتے ہیں جو ہر دوسرے یوم تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس وقت اگر طاہرالقادری عوامی حمایت سے محروم سیاست دانوں کو ایک چھتری تلے جمع کر کے انقلاب انقلاب کی صدائیں بلند کر رہے ہیںتو انقلاب برپا کرنے والے فوج کو نہیں پکارا کرتے ۔ طاہرالقادری ہو، عمران خان ہو جنہیں وزیراعظم بننے کی بڑی جلدی ہے۔ شاید دونوں موصوف حقیقی انقلاب کی بنیادی شرط سے ہی آگاہ نہیں ہیں ۔ اس وقت جب ہم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہمیں قوم اتحاد و یگانگت کی ضرورت ہے ،حصول اقتدار کا ذریعہ انقلاب ہو یا سونامی کوئی بھی ذی شعور اس کی حمایت نہیں کر سکتا۔
مہنگائی اور غیر معیاری اشیاءکا مسئلہ برقرار
Jul 03, 2014