وہ میرے خیالوں میں ڈھل گئی

اس محمدﷺ کا ذکر قلوب کی پاکیزگی، آنکھوںکی ٹھنڈک، فکرکی بلندی اور روح کی راحت کا باعث ہے۔ ہر سال ماہ رمضان میں میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محفل منعقد کرنے کی سعادت حاصل ہے۔ میلادالنبیؐ کا آغاز آیت کریمہ سے ہوتا ہے۔ نعت خوانی، درودوسلام کی روح پرور محفل کے بعد دعا میں رقت طاری رہتی ہے۔ بعد ازاں افطاری کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس سال محفل میلاد النبیؐ کا خصوصی اہتمام والدہ صاحبہ کی بخشش و مغفرت کیلئے کیا گیا۔ حقیقت حال نے سب کی آنکھوں میں آنسوئوں کی جھڑی لگائے رکھی تھی کہ یہ ایک مٹی کا پتلا، مٹی میں ہی چلا جاتا ہے‘ ایسے میں اپنے ہونے کا تکبر کیا۔ تدبر تو یہ ہے کہ خاکی کی فطرت میں نوری و ناری کا عنصر ذرا ذرا موجود ہے مگر سوال یہ ہے کہ ہم نے اپنی فطرت کو عادی کس کا بنانا ہے؟ کذب، غیبت، منافقت، ظلم وجور، طمع، بدزبانی و بے ایمانی، حسد و بغض سارا سال حاصل عمل تھا تو کہاں سے لاتا یہ خاکی اپنے لئے سامانِ نجات؟ مگر قدرت مہربان ہے۔ قدرت سخت ترین تپش اور تیز آندھیوں کو ابرکرم کے موتیوں کی ہلکی پھلکی پر بہار بارشوں میں بھی بدل دیتی ہے۔ اسی لئے ذات باری تعالیٰ نے رمضان بنایا۔ رمضان سے دل نہ بھرا تو پیکر بخشش و نجات، باعث جنت چہرۂ ماں بنایا۔ سارا رمضان ماں تیری یاد آتی رہی۔ وہ ایسے روزہ رکھاتی تھی۔ وہ ایسے اعتکاف کرتی تھی۔ اسکی بندگی کا قرینہ بدل جاتا تھا۔ رمضان میں اسکی عبادتوں میں سرور بڑھ جاتا تھا۔ وہ اپنے بچوں کی نمازوں کو چیک کرتی تھی۔ جو سورۃ یٰسین کی تلاوت کرتے اپنا بچہ گود میں سہلا بھی رہی ہوتی ہیں وہی مائیں تو اللہ اور بندے کے درمیاں ربط پیدا کرنیوالی ہوتی ہیں۔ مائیں اللہ کے بندوں کیلئے اللہ تعالیٰ کا پہلا سرچشمۂ ہدایت ہوتی ہیں۔ ہٹو‘ میری ماں کو نہ اٹھائو‘ اسے سونے دو‘ کہ وہ ساری زندگی اپنی اولاد ہی کی آئو بھگت میں تھکی ماندی تھی۔ اب اسے آرام کرنا ہے۔ اسے میٹھی میٹھی نیند لینے دو۔آج ستائیسویں ہے اور میری ماںکا چالیسواں بھی۔ میری نیک بخت ماں کو ہر بخشی گئی پڑھائی کا ثواب ستر درجے بڑھ کر بھی تو ملا ہے کہ اسے رمضان ملا ہے۔ یہ مہینہ رحمت والا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ بخشش والا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ عبادت والا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ لیلتہ القدر والا مہینہ ہے۔یہ مہینہ نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ شعبان المعظم رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا پسندیدہ مہینہ ہے تو رمضان المبارک میرے اللہ پاک کی پسند کا مہینہ ہے۔ میری ماں تو کتنی نیک بخت ہے تجھے شعبان المعظم کا اور پھر رمضان المبارک کا مہینہ ملا۔ یہی تو پسندیدہ لوگوں کی نشانیاں ہیں۔ تیرا جمعتہ المبارک کو لحد میں اترنا۔ یہی تو تیری نیک بختی ہے۔ اب تو میرے باپ کے پاس رہے گی۔ ہم سے دور جاکر پھر سے میرے باپ کا ساتھ نبھائے گی۔ پھر آپ کا ایک گھر ہوگا۔ جنت میں گھر ہوگا۔ ہاں یہ بھید بھی تو نے عملی طور پر آشکار کیا کہ دنیا کی کوئی بھی ماں‘ باپ کی طرح ہوسکتی ہے۔باپ نہ ہو تو ماں‘ باپ کی صورت ہوجاتی ہے۔ وہ باپ کی طرح شفیق ہوجاتی ہے۔ وہ ہم سب سے غصہ بھی ہوتی تھی مگر اس کے دل کے پیار کاجواب نہیں۔ باجی زاہدہ، جگنو اور نینی کیلئے تو وہ ساری زندگی ڈھال بنی رہی۔ طاہر کیلئے تو وہ سب سے لڑ پڑتی تھی۔ غصے اور پیار کی اسکی اپنی فکر تھی۔ بچوں سے درجہ بدرجہ برتائو کا اسکا اپنا فلسفہ تھا مگر اولاد سے والہانہ محبت کا جذبہ اسکے ہر کسی اور ہر طرح کے برتائو پر غالب رہا۔ جو دل دکھی لگتا وہ اسکے قریب ہوجاتی۔ وہ بس دکھی دلوں کی ساتھی تھی۔ وہ غموں کی سانجھی تھی۔ ا سکے ہاتھ مدد کے تھے۔ اسکے ہاتھ دعائوں کے تھے۔ مجھے اسکے ہاتھ اب بھی نظر آرہے ہیں۔ وہ ہاتھ مجھے سہلاتے تھے۔ وہ ہاتھ میرے سر پر تھے۔ اپنی ہزار عقیدتوں سے ماں میں نے تیرے ہاتھ چھونے ہیں۔ میری ماں تو آج کہاں ہے؟ یہ زندگی کیوں میری خالی ہے۔ اس زندگی میں کیوں اب کوئی کمی سی ہے۔ یہ رمضان یونہی گزر گیا۔ میرے گھر میں ہوا جو میلاد (النبیؐ) وہ میلاد (النبیؐ) بھی یونہی گزر گیا‘ نہ رمضان میں تجھے دیکھا ہے۔ نہ میلاد (النبیؐ) میں تو بیٹھی ہے۔ میں تیرے پاس جو گھر آتی تھی، ہر رمضان میں تجھے ملتی تھی۔ تیرے وجود سے رمضان کی برکتیں تھیں۔ میرے رمضان کی برکتیں دوبالا تھیں۔ سوچتی ہوں تو پھر اداسی چھانے لگتی ہے۔ کیا رب میرا روٹھ گیا؟ کیوں ماں مجھ سے چھین گیا؟ یہ رمضان بن تیرے گزر گیا؟ وہ لوگ نہ جانے کیسے تھے۔ جو بن ماں کے رہتے تھے۔ مجھ کو یہ معلوم ہوا کہ وہ تو میرے جیسے تھے۔ جو لوگ بن ماں باپ کے رہتے تھے اور وہ میرے جیسے تھے۔ وہ رمضان کیسے کرتے تھے؟؟ عقیدت سے کس کو تکتے تھے۔ وہ میری طرح ہی روتے تھے۔ ہاں وہ ڈھونڈتے تھے۔ ماں باپ کو ڈھونڈتے پھرتے تھے۔ بچے عیدیں مناتے تھے کہ ماں باپ عیدیں بناتے تھے۔مجھ کو یہ معلوم نہ تھا وہ بچے کیسے ہوتے تھے جو بن ماں باپ عید مناتے تھے؟ وہ میری طرح کے ہوتے تھے، میری طرح روتے تھے۔ مجھے تو آتا نہ تھا یوں عید منانا… کس کیلئے میکے جائوں گی۔ کسے عید کا پہنا دکھائوں گی؟ ماں میں کیسے عید منائوں گی۔ بن ماں کے میکا کیسا ہے؟؟؟ کیا بتائوں اب میکا کیسا ہے۔ وہ انتظار جو میرا کرتی تھی۔ نہ آنے پر وجہ پوچھتی تھی۔ ہر غم خوشی پر نظر رکھتی تھی۔ میرے آنے پہ ماتھا چومتی تھی۔ میری ماں میکے میں بستی تھی۔ جب ماں میکے میں بستی تھی تو یہ بستی میری بستی تھی۔ میرے بھائی ہمیشہ آباد رہیں، آباد رہیں اور شاد رہیں۔ میرا میکا مجھے پیارا ہے یہ میکا میرا ماںکا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...