شب قدر اور عطیہ خداوندی پاکستان

Jul 03, 2016

ظفر اللہ خان

1938میں امرتسر میں اپنے مریدوں کے جلسہ میں حضرت قائداعظم کی تعریف و توصیف کرکے اپنے جملہ مریدوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ فرمایا کہ آپ مخلص اور سچے مسلمان ہیں۔ ہندوستان بھرمیں تمام مسلمانوں لیڈروں میں سے قابل ترین ہیں۔ ان کی صداقت اور خلوص ضمانت ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں مملکت خداداد کے حصول میں کامیابی عطا فرمائیں گے۔ میں اپنے سب ماننے والوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ آپ ہر حالت میں اور ہرطرح ان کی تابعداری کریں۔ اس کی وجہ آپ نے اپنے دونوں بھتیجوں مولانا ظفرعلی عثمانی اور مولانا شبیراحمد عثمانی کو یہ بتائی کہ آپ نے خواب میں دیکھا کہ بہت بڑا میدان ہے اس میں بے شمار لوگ اکٹھے ہیں جیسے کہ قیامت کا میدان ہو علماء صوفی اور اولیاء کرسیوں پر براجمان ہیں۔ محمد علی جناح عرب لباس زیب تن کئے ہوئے ان سب کے ہمراہ ایک کرسی پر تشریف فرما ہیں۔ میں خود سے سوال کرتا ہوں کہ یہ شخص اس محفل میں کیسے موجود ہے۔ مجھے جواب ملتا ہے کہ اس وقت یہ شخص اسلام کی بہت بڑی خدمت کر رہا ہے اس لئے اسے یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔ 4 جولائی 1943 کو آپ نے دونوں موصوف بھتیجوں کو بلاکر فرمایا مجھے کشف ہوا ہے کہ اللہ بزرگ و برتر محمد علی جناح کو کامیابی عطا فرمائیگا۔ 1940ء مسلم لیگ کا لاہور ریزولیشن بارآور ہوگا۔ میری زندگی بہت کم رہ گئی ہے اگر میں زندہ رہتا تولازمی طور پر محمد علی جناح کی مدد کرتا۔ یہ اللہ نے مقدرکردیاہے قائداعظم کی قیادت میں مسلمان اپنا ملک حاصل کرینگے لہذا تم پاکستان کی تخلیق کیلئے جوبن پڑے کرو۔ اپنے مریدوں کو بھی ایسا کرنے کی ہدایت کرو اور فرمایا تم میں سے ایک میری نماز جنازہ پڑھے گا اور دوسرا محمدعلی جناح کی پڑھائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ چشمہ رشدوہدایت آستانہ عالیہ چورہ شریف کے سجادہ نشین حضرت خواجہ احمد نبیؒ کی ذات بابرکات نے قائد اعظم کی خواہش کیمطابق اپنے مرید خاص حضرت پیر جماعت علی شاہ صاحب آستانہ عالیہ شریف ہدایت فرمائی کہ قائداعظم کی جدوجہد برائے حصول مملکت خداداد پاکستان میں بھرپور اعانت کی جائے سرکار نے اپنے پیرخانہ کی ہدایت کو دل وجان سے قبول فرمایا۔ مسلم لیگ کی رکن سازی میں مریدین کو نعرہ دیا مسلم ہے تو لیگ میں آ۔ 1946ء کے الیکشن میں بھرپور تعاون فرمایا۔ مریدین کو حکم دیا جو میرا مرید ہے وہ مسلم لیگ کو ووٹ دے۔ اگرکوئی مسلم لیگ کو ووٹ نہ دے تواس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ پیرجماعت علی شاہ نے 1943میں قائداعظم کو خط لکھ۔ مژدہ سنایا کہ اللہ کریم نے پاکستان بن جانے کی منظوری عطا فرمائی۔ مزید خوشخبری فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے اس اہم ترین خدمت کیلئے آپ کو چن لیا ہے لہذا آپ پورے اعتماد سے کام کریں۔قیام پاکستان کی بابرکت ساعت کے بارے میں چند غور طلب نقاط ملاحظہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی جتنی کتابیں نازل فرمائیں سب رمضان المبارک میں اتاری ہیں۔ قرآن بھی پورے کا پورا پہلے آسمان پر رمضان المبارک میں نازل ہوا وہاں سے بوقت ضرورت رفتہ رفتہ نازل ہوتا رہا۔ تمام بیسیوں صدی میں 15اگست 27رمضان صرف ایک باراکٹھے ہوئے جب پاکستان کا اعلان ہوا۔اب 15اگست کی اہمیت ملاحظہ فرمائیے ۔ 15اگست کو قائداعظم نے بطور گورنرجنرل کام شروع کیا۔ چونکہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بھارت کے گورنر جنرل کا چارج سنبھالنا تھا اور پاکستان کے گورنرجنرل کا چارج دینا تھا اس لئے وہ پہلے یعنی 14اگست کو کراچی چارج دینے کیلئے آگئے اور 15اگست سے پاکستان اور بھارت سلطنت برطانیہ کی دونوں ڈومینزکا درجہ دیا گیا۔یہ 15اگست کہاں سے آئی؟اول تویہ رمضان المبارک کی 27تاریخ جمعتہ المبارک کی رات مسلمانوں کا مقدس ترین وقت شب قدر 15اگست کوہی ہوئی تھی۔ یہ تھی اصل وجہ دوسری وجہ ملاحظہ ہو۔ کانگریس مسلم لیگ اور برطانوی حکومت نے بالاتفاق جون 1948کے پہلے ہفتے میں آزادی دینے اور لینے پر اتفاق کیا تھا یعنی آزادی کے متعلقہ تینوں فریق متفق تھے 4جون 1947کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ایک بین الاقوامی پریس کانفرنس دہلی میں بلوائی اس دوران بہت سی باتیں زیر غور آئیں۔ ایک نامعلوم اخبار نویس نے گورنر جنرل سے استفسار کیا کہ آزادی کی کوئی حتمی تاریخ مقرر ہوئی ہے مائونٹ بیٹن برطانوی بیڑے کے انچارج تھے۔ جاپان نے اتحادی افواج کے سامنے15 اگست کو ہتھیار ڈالے یعنی مائونٹ بیٹن دوسری جنگ عظیم کے بحری بیڑے کے فاتح قرار پائے۔ لہٰذا 15 اگست مائونٹ بیٹن کے ذہن پر چھایا ہوا تھا۔ اخباری نمائندے کے اچانک سوال پر انہوں نے 15 اگست کہہ دیا یا مشیت ایزدی نے کہلوا دیا بہرطور تخلیق پاکستان اسلامی کیلنڈر کے اعتبار سے 27 رمضان جمعہ کی رات (غالباً) شب قدر رہی ہے۔ ان میں بیشتر معلومات کیلئے جناب طارق مجید صاحب کموڈور ریٹائرڈ کے ممنون ہیں۔ انکی کتاب کی روشنی میں جناب نوابزادہ عزیزالحق قریشی نے بہت دھواں دار تقریر فرمائی۔ راقم الحروف ان ہستیوں کا بے حد ممنون ہے کہ انہوں نے ہمیں اپنی تاریخ درست کرنے کا راستہ دکھایا۔ ایک روز نظریہ پاکستان کے روح رواں جناب نظامی صاحب کی خدمت میں یوم آزادی رمضان المبارک کو منانے کی گزارش کی گئی کچھ مہربانوں نے مخالفت کی یہ حکومت وقت سے خواہ مخواہ ترشی کا باعث ہو گی۔ ہر سطح پر یوم آزادی 14اگست کو مناتے ہیں۔ آخر کار نظامی صاحب نے اس خاکسار کی عرض قبول فرمائی حکومت کے ساتھ 14اگست کو منا لیں لیکن اپنے ادارہ میں ہم 27 رمضان کو بھی منائیں۔چنانچہ آپ کی اجازت سے 2007ء رمضان 27 کو پاکستان میں پہلی مرتبہ نظریہ پاکستان میں یوم پاکستان منایا گیا۔ منظوری کے شواہد تو 1943ء میں بلکہ اس سے قبل بھی 1938ء بلکہ اس بھی قبل علامہ اقبال کو حضرت داتا گنج بخش نے تہجد کے وقت بشارت دے دی تھی۔لہٰذا ظاہر اسباب کیساتھ ساتھ عطیہ خداوندی بھی یقیناً ہے جس کا ہم سب پر شکر و سپاس واجب ہے۔آخر میں قائداعظم کی تقریر ملاحظہ فرمائیں جو آپ نے پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کی افتتاحی تقریب میں قوم کے نام 15 اگست 1947ء کو کراچی میں کی تھی۔ یہ 15 اگست جمعتہ الوداع اور 27رمضان کا واضح اور انمٹ ثبوت ہے لہٰذا اسلامی کیلنڈر کیمطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کی آزادی کا دن 27 رمضان 1366ھ ہی ہے۔
پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کی افتتاحی تقریب پر قوم کے نام پیغام: کراچی 15اگست 1947ء
آج شب قدرہے، مسرت و انبساط کی شب،وہ شب جب پاکستان وجود میں آیا۔ہم سب کیلئے اور اس وسیع و عریض برعظیم اور دنیا کے ہر گوشہ میں جہاں کہیں بھی مسلمان ہوں۔ تمام مساجد میں ہزاروں کے اجتماعات رب جلیل کے حضور بڑی عجز و انکساری سے سجدہ زیر ہو جائیں اور اسکی نوازش پیہم اور فیاضی کا شکر ادا کریں اور پاکستان کو ایک عظیم ملک اور خود کو اس کے شایان شان شہری بنانے کے کام میں اس قادر مطلق کی ہدایت اور اعانت طلب کریں۔ (ختم شد)

مزیدخبریں