نعیم بخاری، ڈاکٹر بابر اعوان اورسیاسی منتھلیاں

نوٹس ملیا تے ککھ نہ ہلیا۔ یہ ڈاکٹر بابر اعوان کا توہین عدالت کا نوٹس ملنے پر جواب تھا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری اس گیارہ رکنی بنچ میں شامل تھے جس کی طرف سے یہ نوٹس جاری ہوا۔ اگرآپ اردو زبان کے لفظ ’دبنگ‘ کی مجسم تصویر دیکھنا چاہتے ہیں تو اسلام آباد جائیں اوروہاں ملک کے نامور وکیل ڈاکٹر بابر اعوان کو دیکھ آویں۔ لیکن ٹھہریں! اب آپ کو انہیں دیکھنے کیلئے اسلام آباد جانے کی بھی ضرورت نہیںرہی۔ ڈاکٹر بابر اعوان 27 رمضان المبارک کے دن عمران خان کے تبدیلی والے قافلے میں شامل ہو گئے ہیں۔ اب آپ انہیں تحریک انصاف کے جلسوں میں شہر شہر گرجتے برستے دیکھ سکیں گے ۔ اک عرب شاعر نے کہا تھا ’ہمیں بڑوں کی موت نے بڑا بنا دیا ہے ‘۔اب پیپلز پارٹی میں بڑے لوگ رہے ہی نہیں۔ اب قصور کے چوہدری منظور احمد جیسے بھی ”بڑے“ بنے پھرتے ہیں۔ وہ انکشاف کر رہے ہیں کہ ڈاکٹر بابر اعوان نے بھٹو کی پھانسی پر مٹھائی بانٹی تھی۔ کھڑی شریف کے درویش نے کہا تھا ’دشمن مرن تے خوشی نہ کرےے، سجناں وی مر جانا ں‘۔ لیکن یہ تو اللہ کے درویشوں کی خاص بات ہے۔ سیاست بڑی سفاک ہوتی ہے ۔ اس کے کچھ اپنے رنگ ڈھنگ ہیں۔ اب بھٹو کی پھانسی پر مٹھائی تقسیم کرنے کا الزام غلط ہے یا صحیح؟ ہم نہیں جانتے۔ لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیںکہ ڈاکٹر بابر اعوان کی پیپلز پارٹی میں شمولیت پر کسی جیالے نے احتجاج نہیں کیا تھا۔ 2002ءکے جنرل الیکشن کے بعد جب انہیں اپنی وکالت کی فیس کے عوض پیپلز پارٹی کاسینٹ کا ٹکٹ دیا گیا تو وہ ممبران اسمبلی سے رسمی طور پر ووٹ مانگنے نکلے ۔ گوجرانوالہ میں چوہدری زاہد پرویز مرحوم و مغفور کے گھر جیالوں کو ان پر صدقے واری ہوتے ہم نے بھی دیکھا تھا۔ پاکستان میں سیاست برائے تجارت کی تاریخ جنرل ضیاءالحق کے 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات سے شروع ہوتی ہے۔ میاں نواز شریف فیملی کی سیاسی روئدادکا آغاز بھی یہیں سے ہوا۔ جنرل ضیاءالحق قضاو قدر سے خدا جانے کتنی عمر لیکر آئے تھے ۔ یہ عمر ختم ہونے میں ہی نہیں آرہی ۔ آپ سمجھتے ہونگے کہ جنرل ضیاءالحق بہاولپور کے قریب بستی لال کمال میں جل مرے تھے۔ نہیں جناب نہیں ۔ وہ ابھی زندہ ہیں۔ وہ اپنی عمر میاں نواز شریف کو بخش گئے تھے۔ تاریخ میں اک مغل بادشاہ کا بھی ذکر آتا ہے ۔ا س نے اپنے بیمار بیٹے ہمایوں کی چارپائی کے گرد چکر لگا کر دعا مانگی تھی: ’یا اللہ! میری زندگی میرے بیٹے کو بخش دے‘۔ دعا قبول ہو گئی۔ اسی طرح ایک دن جنرل ضیاءبڑی ترنگ میں آکر اللہ تعالیٰ سے کہہ بیٹھا تھا: ’یا اللہ! میری عمر میاں نواز شریف کو لگ جائے‘۔ اللہ جانے وہ کیا قبولیت کی گھڑی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کر کے اسے جھٹ سے اپنے پاس بلا لیا۔ ضیاءنام کے آدمی میاں نواز شریف کی زندگی میں اور بھی آئے ہیں۔ لیکن وہ انہیں اتنے راس نہیں آئے۔ جنرل ضیاءالدین تو بیچارے ان کی زندگی میں کیا آئے کہ اپنی زندگی کے مزوں سے بھی گئے۔ آجکل میاں نواز شریف کا تیسرے ضیائ، واجد ضیاءسے پالا پڑا ہوا ہے۔ یہ میاں فیملی کے سب ممبران کو باری باری بلائے جا رہے ہیں۔ مریم نواز کو بھی بلاوا پہنچ چکا ہے۔ اب دیکھئے جناب واجد ضیاءکسے راس آتے ہیں؟ ملک و ملت کو یا میاں نواز شریف فیملی کو۔ مختلف ادوار پر مشتمل میاںنواز شریف کا اکیس بائیس سالہ عہد کرپشن اور منی لانڈرنگ کا عہد ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق ہمارے ملک سے ایک ہزارارب روپے سالانہ کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔ جب میں اپنے چاروں طرف غربت کے پہاڑ دیکھتا ہوں تو اس کی وجہ صاف سمجھ میں آتی ہے۔ اگر یہ ایک ہزار ارب روپیہ سالانہ ملک میں رہے تو بیروزگاری پر کتنا قابو پایا جا سکتا ہے؟ لیکن ہمارے ہاں ہر طرف لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ ہر انتخابی حلقے میں جتھے بنے ہوئے ہیں۔ یہ مستقل امیدواران اسمبلی ہیں۔ یہ جتھے دار خود بھی لوٹتے ہےں اور اپنے ساتھیوں کو بھی لوٹ مار کے مواقع فراہم کرتے ہےں ۔ مجھے ایک پولیس افسر نے اپنا دکھڑا سنایا۔ کہنے لگا۔ٹرانسفراینڈ پوسٹنگ خالصتاً ہمارا محکماتی معاملہ ہے لیکن ممبران اسمبلی کی اس میں مداخلت بہت بڑھ گئی ہے۔ اس بے جا مداخلت نے معاملات اس نہج پر پہنچا دیئے ہیں کہ پہلے تھانیدار ایس پی کو منتھلی بھجواتے تھے لیکن اب انہیں متعلقہ ایم این اے اور ایم پی اے کوبھی منتھلی بھجوانی پڑتی ہے۔ پھر یہی مفادیافتہ لوگ نعرے لگاتے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا تو عوام اسے تسلیم نہیں کریں گے ۔ یہ عوام کون ہیں؟ یہ وہی ایم این ایز اور ایم پی ایز ہیں۔جہاں میاں نواز شریف کا کٹہرے سے کوٹھڑی کا سفر جاری ہے ، وہیں عمران خان کی کرپشن کے خلاف جنگ بھی پورے زور و شور میں ہے۔ عمران خان کی کرپشن کے خلاف جنگ نے اتنی تقویت اختیار کر لی ہے کہ اب کرپشن کے خلاف ن لیگ سے بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ سے ممبر قومی اسمبلی جسٹس افتخار چیمہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ ٹھیکوں میں کمیشن لینے والے کرپٹ مافیا کے ساتھ مل کر الیکشن نہیں لڑیں گے۔ اس سے پہلے کسی سیاسی جماعت میں اپنی قیادت کے خلاف اتنی بہادری کا تصور نہیں تھا۔ جسٹس افتخار چیمہ خود پہلے بھی ٹھیکوں سے کمیشن نہیں لیتے تھے ۔لیکن کرپشن کے خلاف آواز بلند کرنے کا یہ ماحول خالصتاً عمران خان کی دین ہے ۔جس دن ووٹروں نے اپنی پسندیدہ جماعتوں کے کرپٹ ٹکٹ ہولڈروں کو ووٹ دینے سے انکار کیا ، وہ دن عمران خان کے نئے پاکستان کا پہلا دن ہوگا۔ سکھوں کے مطابق ایک خالصہ سوا لاکھ فوج کے برابر ہوتا ہے۔ اسی لئے سکھ آپس میں اک دوسرے سے یوںحال چال پوچھتے ہےں: ’فوجاں کدھروں آرہیاں نیں۔ فوجاں کدھر نوں جا رہیاں نیں‘۔ آپ اسے مبالغہ کہہ سکتے ہیں لیکن کبھی کبھی ایک اکیلا بندہ بھی لشکروں پر بھاری ثابت ہوتا ہے۔ کالم کا آغاز کچھ اسی قبیل کے ایک بندے ڈاکٹر بابر اعوان کے ذکر سے شروع ہوا۔ ڈاکٹر بابر اعوان تحریک انصاف کی پانامہ کیس کے سلسلہ میں وکلاءکی ٹیم میں شامل ہیں۔ ایک اہم سوال ہے کہ نعیم بخاری کو ڈاکٹر بابر اعوان پر ترجیح کیوں دی گئی ؟ واقفان حال کچھ عجیب سی کہانی بیان کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں غلام مصطفی کھر کا ایک تفصیلی انٹر ویو شائع ہوا ہے۔ انہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو کے حوالے سے ایک اہم انکشاف کیا ہے۔ اس انکشاف نے بہت سے سمجھ میں نہ آنے والے معاملات بھی سمجھا دیئے ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے کھر کو بتایا تھا کہ نواز شریف بہت پاورفل ہو گیا ہے، اب میری پارٹی کے بندے بھی میاں نواز شریف سے منتھلی لیتے ہیں۔ بہت سے سوالات ذہن میں کلبلاتے ہیں۔ وکالت کے میدان میں نعیم بخاری کاڈاکٹر بابر اعوان سے کوئی تقابل ہی نہیں۔ توکیا نعیم بخاری کا انتخاب تحریک انصاف میں موجود ”ن لیگ نواز“ حلقوں کی کامیابی تھی؟ کیا عمران خان کے ارد گرد ن لیگ کی منتھلیوں کی رسائی ہوچکی ہے؟ بہر حال یہ وقت گزر چکا ہے، ابھی بہت سفر باقی ہے۔ بڑی احتیاط اوربہت کڑی نظر چاہئے جناب۔ 28جون کو عمران خان بنی گالہ میں میاں نواز شریف کی لندن میں پریس کانفرنس کا جواب دے رہے تھے۔ ڈاکٹر بابر اعوان ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ اسطرح ہمیں عمران خان کچھ اور بھی تگڑے محسوس ہوئے۔

ای پیپر دی نیشن