صدر سکندر مرزا کی شاہنواز بھٹو سے دوستی تھی۔ دونوں شکار کھیل رہے تھے۔ سکندر مرزا نے پوچھا کہ زلفی کیا کرتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو بیرسٹری کر کے پاکستان آئے تھے۔ وڈیرے اور نوابوں کے بچے جو کرتے ہیں وہی نوجوان بھٹو بھی کر رہا تھا۔ سکندر مرزا نے کہا کہ اسے وزیر بنا دیتے ہیں۔ دارالحکومت کراچی آئے تومتعلقہ حکام سے پوچھا، کوئی قلمدان خالی ہے؟ وزارت تجارت انہی دنوں وجود پا رہی تھی۔ سکندر مرزا نے بھٹو کو وزیر تجارت بنانے کا فیصلہ کیا۔ بھٹو کو حلف کیلئے بلانا تھا۔ سینما میں فلم چل رہی تھی۔ اچانک فلم رک گئی۔ ناظرین اس افتاد پر پریشان اور سکرین پر یہ عبارت دیکھ کر حیران ہوئے ’’ذوالفقار علی بھٹو فوراً ایوان صدر پہنچیں‘‘۔ جنرل ضیاء حادثے میں مارے گئے تو ماڈل ٹاؤن لاہور میں بھی کہرام مچا ہوا تھا۔ اس دور کے ڈپٹی کمشنراختر علی مونگاایڈووکیٹ اپنی یادداشتوں میں کہتے ہیں کہ نوجوان وزیراعلیٰ کے بارے میں یہ سوچ لیا گیا تھا کہ وہ بھی ضیاء الحق کے ساتھ تھے‘ تاہم وہ مری سے دستیاب ہوئے تو ماڈل ٹائون شانت ہوگیا۔ سکندر مرزا بھٹو کے انکل تھے۔ ایوب خان نے سکندر مرزا کو بے آبرو کر کے نکال باہر کیا تو بھٹو صاحب نے ایوب خان کوڈیڈی بنا کر اپنی آبرو میں اضافہ کر لیا۔ بھٹو بڑے لیڈر تھے مگر جس طرح وہ سیاست میں وارد یا نازل ہوئے وہ انکے جینوئن لیڈر بننے کی راہ میں رکاوٹ رہا۔ اسی کے باعث وہ قوم کے متفقہ لیڈر نہ بن سکے۔ یہی المیہ میاں نوازشریف کے ساتھ ہے۔ میاں صاحب سیاست میں جیسے بھی آئے‘ ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر تیسری بار متمکن ہیں۔ وہ دو مرتبہ تو بھٹو کی نفرت کے ووٹ پر وزیراعظم بنے‘ تیسری مرتبہ ’’باری معاہدے‘‘ کے تحت اقتدار میں آئے۔ پی پی اور ن لیگ کی اعلیٰ ترین لیڈرشپ نے 90 کی دہائی میں قومی وسائل کے ساتھ کوئی خیر نہیں کی۔ دو دو اڑھائی اڑھائی سال میں جو کچھ ہواوہ ٹریلر تھا اب چار پانچ سال کی فل فلم چلی ہے تو قوم کے رہبر‘ رہنما اور اکابرین کا کردار مکمل طور پر قوم کے سامنے آ چکا ہے۔ جو بیجا اب اسکے کاٹنے کا وقت آ چکا ہے۔ یہ ان کو پتہ ہے کیا بیجا تھا۔ پاناما کیس اپنے منطقی انجام کی طرف تیزی سے جا رہا ہے۔ اگر میاں نوازشریف اور ان کی اولاد نے کچھ نہیں کیا تو ان کا بال بھی بیکا نہیں ہو گا اگر کچھ کیا ہے تو بچنا ناممکن ہے۔
جے آئی ٹی میں جو سوال و جواب،طلبیاں اور پیشیاں ہو رہی ہیں ان پر مسلم لیگ ن کے وزراء اور لیڈران کرام جس شدید ردعمل کا اظہار‘ جے آئی ٹی کیخلاف میں کھلے‘ سپریم کورٹ اور فوج کے بارے میں دبے الفاظ استعمال کر رہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ شریف خاندان نے بہت کچھ کیا ہے‘ جس کا حساب دینے پر تیار نہیں۔ خود وزیراعظم کی پریشانی کا انداز ان کے لندن میں بیان سے لگایا جا سکتا ہے۔ کہتے ہیں انکی سمجھ میں آ رہا کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم کی سمجھ میں نہیں آرہا تو کیا قومے قصائی کی سمجھ میں آیا ہوگا؟ اگر وزیراعظم اپنی ذات تک سے وابستہ معاملات کو سمجھنے سے قاصر ہیں تو انکے مستقبل کے روشن چراغوں میں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان میں کتنی روشنی بچی ہے۔ کیپٹن صفدر کو جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد نظریہ پاکستان خطرے میں نظر آیا۔ شنید ہے کہ انہوں نے اکثر سوالات پر کہا مجھے نہیں معلوم‘ محترمہ مریم کو پتہ ہو گا۔ اس پر مریم کو طلب کیا جانا ہی تھا۔ ن لیگ کے ہاکس اس پر سیخ پا ہیں۔ کہتے ہیں کہ محترمہ مریم کا فیصلے میں ذکر ہی نہیں۔ تو کیا رحمن ملک کا فیصلے میں ذکر ہے؟ محترمہ مریم ملزم نہیں، ان کی گواہی مقصود ہے ۔بینظیر بھی بیٹیوں کی طرح بیٹی تھی جسے ن لیگ کی حکومت میں ’’مدھولا‘‘ جاتا تھا۔ شیخ رشید کی منافقت ملاحظہ فرمائیں دو روز قبل کہتے تھے محترمہ مریم کو بلایا ہی جانا تھا کل کہا محترمہ مریم قوم کی بیٹی ہے، جے آئی ٹی میں نہ بلایا جائے۔آج مشورہ دے رہے ہیںکہ محترمہ مریم کو جے آئی ٹی میں پیش نہیں ہونا چاہیے۔یہ شیخ عمران خان کے مشیر اعظم اور ایسے ہی مشوروں سے انہیں نوازتے ہیں۔میاں نوازشریف اپنی صفائی دے رہے ہیں۔ جسے خود مسلم لیگ ن احتساب کی اعلیٰ مثال قرار دیتی ہے مگر جے آئی ٹی کو متنازعہ بنانے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ عمران خان جے آئی ٹی کے باہر اپنا زور لگا رہے ہیں۔ ان کو بھی لیگی لیڈر ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہیں۔ محترمہ مریم اورنگزیب نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ عمران خان کو پگڑیاں اچھالنے کی عادت ہے۔ اس پر فقط اتنا کہا جا سکتا ہے پگڑی سنبھال جٹا‘‘۔ جاگ پنجابی جاگ، ہم نہیں کہتے۔
اگر کسی نے پانامہ کیس کا فیصلہ پڑھا ہو تو سارے کا سارا فیصلہ خلاف ہے۔ آخری پیراگراف میں‘ وزارت عظمیٰ بچ گئی۔ اب ان تین میں سے ایک جج بھی جسٹس آصف کھوسہ اور جسٹس گلزار کے فیصلے سے اتفاق کر لیتا ہے تو فیصلہ وہی رہے گا مگر آخری پیراگراف کے چند الفاظ تبدیل ہونگے۔ ہماری جوڈیشنری کی عمومی شہرت‘ روایت اور رویہ طاقتور کاساتھ دینے کا رہا ہے۔ آج اندازہ کر لیں طاقت کا مرکز کہاں ہے اس طاقت کے مرکز نے حکمران ایلیٹ کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ فوج کو جمہوریت سیاست اور سیاستدانوں کوئی پرخاش نہیں۔ جنرل راحیل شریف کے کرپشن کے خاتمے کے ایجنڈے کی تکمیل ہو رہی جو جنرل امجد شعیب جیسے انکے استادوں کے مشورہ پر ادھورا رہ گیا تھا۔ بالفرض فیصلہ میاں صاحب کیخلاف آتا ہے تو بھی نیب وغیرہ میں ریفرنس دائر ہو گا۔ سپریم کورٹ کی صوابدید ہے کہ وہ ریفرنس کا حکم دیتے ہوئے انکی بطور وزیراعظم کی نااہلی کی سفارش کرے یا نہ کرے۔لگتا ہے اب واقعی انصاف ہو رہا ہے احتساب ہو رہا ہے مگرطاہرالقادری جے آئی ٹی کو ڈرامہ قرار دینے پر مُصر ہیں،یہ ان کا اٹکل پچو ہے یا یہ حقیقت ہے؟ اس پر دورائے ہو سکتی ہے مگر مکا فات عمل حقیقت ہے اور اس میں دوسری رائے کی گنجائش نہیں۔
مکافات عمل کیا ہے اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیے:
یہ ۶ جولائی 2012ہے،شہر احمد پور شرقیہ ہے۔ ایک دماغی ابنارمل آدمی، غلام عباس، کو قرآن پاک کے اوراق جلانے کے جھوٹے الزام کے تحت گرفتار کر کے پولیس سٹیشن لایا گیا۔ بعد ازاں،گائوں کی مسجد سے لاؤڈ سپیکر اعلان کیا گیاکہ اس آدمی نے توہینِ قرآن کی ہے اور وہ حوالات میں بند ہے۔ اس پہ گاؤں والے مشتعل ہو کے گھروں سے نکل آئے اور مرکزی لاہور کراچی ہائی وے بلاک کر دی۔ حوالات کے دروازے توڑ کر اس دماغی ابنارمل شخص کو نکال کے شاہراہ پر لایا گیا،اس پر پٹرول چھڑکااور اسے آگ لگا دی۔لگ بھگ دو ہزار کا ہجوم زندہ جلتے او ر چیختے چلاتے انسان کو وہاں کھڑا دیکھتا رہا اس دوران پتھر بھی مارے جاتے رہے۔سنگ باری کرنے اورتماشہ دیکھنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن کواس نوجوان کی بے گناہی کا علم تھا۔اب اس واقعہ کو پورے پانچ سال گزر چکے ہیں مگر وہی گائوں ہے وہی مسجد ہے اور وہی شاہراہ ہے۔ چالیس ہزار لٹر پٹرول لیجاتا ٹرالر الٹ گیا۔ لوگوں کو مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے لیک ہوتے پٹرول کی نوید سنائی گئی۔لوگ بھاگم بھاگ وہاں جاپہنچے۔ ٹینکر دھماکے سے پھٹ گیا ۔ آگ نے وہاں موجودہجوم کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پورے دو سو افراد عین اس جگہ جل کے راکھ ہو گئے جہاں غلام عباس کو پانچ سال پہلے زندہ جلایا گیا تھا۔اگر یہ اتفاق ہے تو بھی مکافات عمل کی اٹل حقیقت کا بیانیہ ہے۔
محترمہ مریم نواز کہتی ہیں کہ فیصلہ عرش والے کا چلے گا۔اس کے فیصلے تو متقی و پرہیزگار بھی متحمل نہیں ہوسکتے،اللہ کے انصاف سے ڈریں،اللہ سے رحم کرم کی بھیک مانگیں۔اس کے فیصلے مکافات عمل کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ (ختم شد)