جنگ نظریہ نہیں خون آشام عمل ہے

قارئین کوئی دن ایسا نہیں آتا جب دنیا کے کسی کونے سے، کسی ملک میں جنگ لگنے کی اطلاع نہ آئی ہو لگتا ہے جنگ محض ایک نظریہ ہے جو کسی بیماری کی طرح پھیلتا جا رہا ہے حالانکہ یہ ایک انتہائی خون آشام عمل ہے جو کہ انسان، انسان کے خلاف صدیوں سے انجام دے رہا ہے اس حوالے سے مزید حیرت اور صدمے کی بات یہ ہے کہ آخر چند دنوں کی مستعار زندگی میں انسان اتنی درندگی، اتنے ظلم، اتنی و حشت و بربریت اور طویل جنگوں کی گنجائش کیسے نکال لیتا ہے؟ کیا اس کے لئے طبعی موت، بڑھاپا، بیماریاں، قدرتی آفات، موجود ناموجود کے تنازعے، نفسیاتی پیچیدگیاں، کمزوریاں اور جذباتی صدمات کم ہیں کہ وہ قتل و غارت کے اور منظم جنگوں کے منصوبے بھی بنانے بیٹھ جاتا ہے؟ دراصل جنگ انسان کے جنون اور پاگل پن کی آخری حد ہے بلکہ اس سے بڑھ کر بیک وقت مضحکہ خیز اور درد ناک عمل اور کونسا ہو سکتا ہے کہ پہلے تو قتل و غارت کی جائے، ایٹم بم کی تباہ کاریوں سے کروڑوں معصوم زندگیوں کو نابود کر دیا جائے اور پھر بیٹھ کر جنگوں پر پابندی کی بات کی جائے یا ہسپتال بنائے جائیں؟ براہ راست جنگ نہ کرنے کا خیال آج تک کسی کو نہیں آیا نہ ہی جنگ کے خلاف کوئی جنگ کرتا ہے ہمیشہ امن کے خلاف جنگ کی جاتی ہے مختصر سی زندگی کو سکون سے گزارنے اور اپنا معینہ وقت پورا کر کے مرجانے کے بجائے انسان توپ تفنگ گولہ بارود اور قتل اور پھانسی کی موت کو ترجیح دیتا ہے، عدالتی حکم کے مطابق ایک قتل پر پھانسی کی سزا موجود ہے لیکن لاکھوں بے گناہوں کو قتل کرنے کا حکم دینے والوں کے لئے پھانسی کا کوئی حکم موجود نہیں ہے وہ جو گرم سرد کمروں میں بیٹھے عیش کر رہے ہوتے ہیں محض لکڑی کی میز پر بیٹھ کر یا جنگ کے کاغذی نقشے پر جھک کر چند مخالف لفظوں کی جنگ لڑتے ہیں اور پھر اپنے دو الفاظ کے حکم سے لاکھوں جانوں کو بھون کر رکھ دیتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں یہ انسان اور انسانیت کے قاتلوں کی دانش و دانست کی بھرپور شکست ہے کہ وہ عقل کو عقل سے، دلیل کو دلیل سے اور جواز کو جواز سے مطمئن نہ کر سکے بلکہ ہتھیار کی زبان میں بات کر کے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے اسلحہ کے ساتھ مد مقابل کو ٹکڑوں ہی میں تقسیم کر ڈالے....!
کیا انسان بنیادی طور پر اس قدر بزدل ہے کہ وہ انسان کو الفاظ سے اور الفاظ کو الفاظ سے نہیں مار سکتا؟ بلکہ الفاظ ادا کرنے والے ہی کو بم مار کر اُڑا دیتا ہے؟ اس کے الفاظ اس کی دلیل اور اس کی منطق کب اتنی مو¿ثر ہو گی کہ اسے اسلحہ ایجاد کرنے یا اسے استعمال کرنے کی ضرورت نہ پڑے؟ کیا اسلحہ یا بم انسان کو تسلیم و رضا تک پہنچنے یا پہنچانے کی کمزور ترین Approach نہیں ہے؟ آخر فضا سے انسانی پوست و خون کی مسموم بدبو کب ختم ہوگی؟ کب دنیا بھر میں اسلحہ ڈھلنے کے بجائے اناج اُگے گا؟ سروں سے سر کاٹنے کا سودا کب ختم ہوگا؟ بارود سے بھرے ہوئے ذہن، خالی پیٹوں کو بھرنے کا چارہ کب کریں گے؟ کون ان سے یہ کہے گا کہ خدا کے لئے امن کے لئے جنگ کرو جنگ کے لئے جنگ مت کرو، ذہن کو ذہن کے میدان میں شکست دو بات سے بات کو ختم کرو، اختلاف کو موافقت کے سامنے لے آو¿ تاکہ ہر طرف انسانوں کی انتڑیوں کے گھچے نہ بکھرے پڑے ہوں زخمیوں کے زخموں میں پیپ نہ بلبلائے، انکی ہڈیوں میں کیڑے نہ رینگیں، اعضاءخشک جھاڑیاں نہ بن جائیں اور آنکھیں مائع خون کی طرح نہ بہہ جائیں۔
کبھی کسی نے سوچا کہ جنگ میں کام آ جانے والوں کے بچوں، بیویوں، بھائیوں بہنوں اور والدین کی رُوحانی اذیتوں، تنہائیوں، نفسیاتی بیماریوں تباہیوں اور پیچیدگیوں کی ذمہ داری کون قبول کرے گا؟ جنگ کا ایک اور مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ جنگ میں انسان ہی انسان کو زخمی کرتا ہے اسے مار ڈالتا ہے پورا ملک اجاڑ دیتا ہے اور پھر گشتی ہسپتال بھی انسان ہی میدان جنگ میں بنا کر بیٹھ جاتا ہے تاکہ زخمی آئیں تو ان کا علاج کرے قبرستان بناتا ہے کہ مر جائیں تو انہیں دفنا دے، اُسے اذیت میں دیکھے تو روپڑے، ملک راکھ بن جائے تو اسے پھر سے آباد کر لے زندگی جہاں پہ ختم ہو جائے وہاں سے اسے دوبارہ شروع کرے اور جب مکمل طور پر بربادی سے نپٹ لے، اپنے ملک کو آباد کر ڈالے تو پھر کوئی دوسرا ملک اگر اس پر ایٹم بم پھینک کر دوبارہ اسے نابود کر ڈالے آخر کیوں؟ کیوں انسان، انسان کو بنا بنا کر مٹا رہا ہے آباد کر کے اجاڑ رہا ہے؟ طبعی موت سے پہلے قبرستان میں قبریں بھر رہا ہے؟ ساری کائنات بار بار اس عمل سے کیوں گزر رہی ہے؟ تمام انسان ایک ہی بار کیوں نہیں اپنی اجتماعی حماقت کو خدائے لم یزل کے سامنے تسلیم کر کے اس سے معافی مانگ لیتے؟ اور اسے صاف کیوں نہیں کہہ دیتے کہ ہم تیری نعمتوں، زندگیوں اور کائنات کی قدر نہیں کر سکے، انہیں نہیں سنبھال سکے، نہیں سنبھال سکتے لہٰذا یہ لے ہم سے اپنی خوبصورت کائنات کو راکھ اور خاک کی صورت میں واپس لے لے۔ کوئی نہیں سوچتا کہ کیا انسان کا انسان کو بے وقت اور بلا جواز مار ڈالنا نعوذ بااللہ خداوند کریم کے دئیے ہوئے اختیارات سے تجاوز نہیں ہے؟ اُس کے عطا کیے ہوئے اعتبار سے تجاوز نہیں ہے؟ کیا انسان دوسرے انسان کے مرنے جینے کا فیصلہ خود اپنے ہاتھ میں لے کر خود مکمل بن جانے کا نہیں سوچ رہا؟ آخر کب انسان یہ سمجھے گا کہ اگر جنگیں روک دی جائیں تو دفاع خود بخود رک جائے گا اسلحے کی تیاری بند کر دی جائے تو اس کی ترویج اور استعمال ختم ہو جائے گا اور جب ایسا ہو جائے گا تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی۔

ای پیپر دی نیشن