جمہوری ریاستوں میں فیصلے کثرت رائے سے اور مجموعی قومی مفادات کو مدنظر رکھ کر کیے جاتے ہیں۔کسی بھی فرد یا گروہ کے سیاسی مفادات قومی مفادات پر غالب نہیں آتے۔چین میں شنگھائی کے قریب ایک ڈیم کی تعمیر پر حکومت بضد رہی اور آج چین اس ڈیم سے مستفید ہورہا ہے۔ پاکستان میں پانی کا بحران دن بدن سنگین سے سنگین تر ہوتا چلا جا رہا ہے ۔آج کراچی سمیت لاہور، اسلام آباد جیسے بڑے شہر وں میں پانی بحران سر اٹھا رہا ہے۔آنے والے چند سالوں میں یہ بحران مزید سنگین ہو جائے گا ۔زمین بنجر اور فصلیں تباہ ہونے کا خطرہ منڈلانے لگا ہے۔ آنے والے چند سالوں میںلوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہو گا۔ ماہرین اس حوالے سے مسلسل خطرات سے آگاہ کر رہے ہیں مگر بدقسمتی سے حکومت کی توجہ ہے اور نہ ہی متعلقہ اداروں کی جانب سے کوئی پرواہ نظر آتی ہے۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں کالاباغ ڈیم کو لے کر کافی بحث ہوئی۔ چیف جسٹس نے تو قوم کو خوشخبری سناتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ”دو ڈیمز بنانے پر اتفاق ہو گیا ہے ۔ڈیمز کی تعمیر قرض معافی سے وصول ہونے والی رقم سے ہو گئی “۔میڈیا کے مطابق کالا باغ سے قبل دیا میر، بھاشا اور منڈا ڈیمز کی تعمیر کی جائے گی۔ اس کے لئے سی سی آئی پہلے ہی 6.1ٹرلین روپے کا فنڈ مختص کر چکی ہے ۔پاکستان میں واٹر سیکٹر کے لئے 891.2ٹرلین روپے کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ان ڈیمز کی تعمیر اور سرمایہ کاری کے بعد پاکستان 28ملین ایکٹر فٹ پانی ذخیرہ کرنے کے قابل ہو جائے گا ۔یہ ایک واقعی خوش آئند اقدام ہے۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے بھی اتفاق رائے پیدا کرنا چاہے۔ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انڈین لابی سے تعلق رکھنے والوں نے کالاباغ ڈیم جیسے اہم منصوبے کو متنازعہ بنا دیا ہے۔ ایسی رپورٹس بھی متعدد مرتبہ میڈیا پر آچکی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ بھارت کالاباغ ڈیم منصوبے کے خلاف کروڑوں روپے کا فنڈ مختص کرتا ہے۔ اور اس حوالے سے را نے اپنے ہیڈ کوارٹر میں ایک ڈسک بھی قائم کر رکھا ہے ۔آبی منصوبے ملک کی بقااور سلامتی وخوشحالی کے ضامن ہیں۔یہ خواہ کسی بھی نام سے بنیں تعمیر ہونے چاہئیں۔اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو ملک بنجراور عوام پانی کی بوند بوندکوترس جائیں گے۔
کچھ عرصہ پہلے لاہور ہائی کورٹ نے مشترکہ مفادات کونسل کی سفارشات کی روشنی میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا حکم دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو ہدایت دی تھی کہ اس مقصد کے لئے ضروری اقدامات کیے جائیں۔دستور پاکستان پانی اور بجلی سمیت متعدد امور کے متعلق مشترکہ مفادات کی کونسل سی سی آئی کو وفاق کی پالیسیاں تشکیل دینے کا خصوصی اختیار دیتا ہے۔سی سی آئی کا فیصلہ تسلیم کرنا اس وقت لازم ہے جب تک دستور کے آرٹیکل(7)154کے تحت پارلیمنٹ اس میں ترمیم نہیں کرتی۔ کالا باغ ڈیم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے سابق چیئر مین واپڈا اور خیبر پختونخواہ کے سابق وزیر اعلیٰ شمس الملک نے کہا تھا کہ صوابی اور نوشہرہ کا لاباغ ڈیم کے مقام سے ایک سو پچاس کلومیٹر دور ہیں۔ڈیم کی تعمیر سے دونوں شہروں کو نقصان پہنچنے کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں“۔ اس کی تعمیر سے ملک کی معیشت، زراعت، صنعت کو فائدہ اور مہنگائی کم کرنے میں مددملے گی۔ ٹھٹہ، بدین اور سندھ کے دیگر اضلاع میں20لاکھ ایکڑ مزید زیر کاشت آئیں گے۔ خیبر پختونخواہ میں ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں و دیگراضلاع میں8لاکھ ایکڑ کی آب پاشی ممکن ہوجائے گی۔ بلوچستان میں7لاکھ ایکڑرقبہ مزید سیراب ہوگا اور اس کی تعمیر سے پنجاب کو بھی خاطر خواہ فائدہ حاصل ہوگا۔کالاباغ ڈیم سے3600 میگاواٹ سستی بجلی پیدا ہوگی اور بجلی صارفین کو132 ارب روپے کا بلوں میں ریلیف ملے گا۔ لوڈشیڈنگ ختم کرنے میں یہ ڈیم نہایت مددگار ثابت ہوگا۔ ملک کو سالا نہ350 سے 300 ارب روپے کا فائدہ ہوگا۔ زرعی و دیگر پیداواریں 15فیصد بڑھ جائیں گی۔ صنعت کی پیداواری لاگت15فیصد کم ہوجائے گی جس سے ملک کی بر آمدات میں7سے 10ارب ڈالر کا اضافہ ممکن ہوسکے گا۔ یعنی کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے درآمدات اور برآمدات کا25ارب ڈالر کا فرق کم ہوکر15ارب ڈالر تک رہ جائے گا۔ بجلی و پانی کی بڑھتی ہوئی قلت اور ہر سال سیلاب کی تباہ کاریوں کے پیش نظر کالا باغ ڈیم کی تعمیر ناگزہر ہوچکی ہے۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ قوم فیصلہ کرے اس کو کالاباغ ڈیم کی تعمیر کرنی ہے کہ نہیں۔ جوذرا سوچیے! جو لوگ کالاباغ ڈیم کی تعمیر چاہتے ہیں ان کا سیاسی فائدہ کیا ہے؟۔ لوگ اس کی تعمیر کے حوالے سے اختلاف رائے رکھتے ہیں ان سب کو ایک ٹیبل پر بیٹھنا ہو گا۔ بھائی چارے کو فروغ دیتے ہوئے تحمل سے ایک دوسرے کو مو¿قف کو سننا چاہے۔ دشمنوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کےلئے ہمیں افہام و تفہیم اور عقل و دانش سے فیصلے کرنا ہونگے۔