لاہور (وقائع نگار خصوصی) سابق وزیر داخلہ احسن اقبال نے عدلیہ مخالف تقریر پر ایک مرتبہ پھرغیر مشروط معافی مانگ لی اور خود کو عدالتی رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ ہائیکورٹ نے احسن اقبال کی تحریری معافی پر فیصلہ گرمیوں کی چھٹیوں تک موخر کر دیا اور واضح کیا کہ ان کے رویے کا بڑے غور سے جائزہ لیا جائے گا۔ فل بنچ نے ریمارکس دئیے کہ بیس روز بعد سب کو جواب مل جائے گا کہ دال کس بھاﺅ بکتی ہے۔ جسٹس عاطر محمود نے باور کروایا کہ عدالت میں کچھ کہا جاتا ہے اور باہر جا کر کچھ اور بات کی جاتی ہے، متواتر یہی موقف اپنایا جارہا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ عدلیہ کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں۔ وکیل نے وضاحت پیش کی کہ احسن اقبال نے ایسی کوئی بات نہیں کی بنچ نے کہا کہ ریکارڈ منگوا کر اس کی ویڈیو دیکھ لیتے ہیں۔ فل بنچ نے ریمارکس دئیے کہ عدالت سے نکلتے ہی اس لیڈر کے جیالے بن جاتے ہیں جو ہاتھ دھو کر عدلیہ کے پیچھے پڑا ہے۔ فل بنچ نے افسوس کا اظہار کیا کہ عدالتوں کو سیاسی رنگ نہ دیں۔ فل بنچ نے احسن اقبال کو باور کروایا کہ اگر آپکی حکومت نہیں آتی اور پھر آپکے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی ہے تو پھر آپ نے انہی عدالتوں میں آنا ہے۔ ابھی آپ کے لیڈر صرف سیشن جج کے سامنے 100 مرتبہ پیش ہو چکے ہیں ابھی تو ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کی باری ہے، بنچ کے رکن جسٹس عاطر محمود نے احسن اقبال کو مخاطب کیا کہ آپکی حکومت بھی ہے اور اداروں کے خلاف بھی بات کرتے ہیں۔ سماعت کے دوران فل بنچ نے نشاندہی کی کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ظلم ہوا ہاتھ ہوا لیکن ان پر آفرین ہے ان کی جانب سے کتنے بیانات آئے؟ بنچ نے احسن اقبال کو باور کرایا کہ تقریب ایسی تھی جہاں عدلیہ کے خلاف بات کی جاتی؟ لاہور ہائیکورٹ نے احسن اقبال کے وکیل کی استدعا مسترد کر دی کہ سابق وزیر داخلہ کے خود کو عدالتی رحم و کرم پر چھوڑنے پر ان کے خلاف کارروائی نمٹا دی جائے۔ فاضل عدالت نے درخواست پر مزید کارروائی ستمبر تک ملتوی کر دی۔ ہائیکورٹ کے احاطے میںگفتگوکرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا ہے کہ لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ ن لیگ ملک میں تبدیلی لائی ہے، انتخابی مہم میں تشدد کا عمل قابل مذمت ہے، ہمیں تشدد پر مبنی تقاریر نہیں کرنی چاہئے۔ الیکشن سے کوئی تبدیلی آئی تو 45ارب ڈالر داﺅ پر لگ جائیں گے۔ سی پیک منصوبوں کی تکمیل کے لئے گزشتہ 5سال کا تسلسل چاہئے، ن لیگ کے 5سال میں ملک کا امیج بہتر ہوا، لوگ اس بات کو محسوس کر رہے ہیں۔
ہائیکورٹ احسن اقبال