بت اور مجسمہ میں فرق

مادام تسائو میوزیم نیویارک میں ہو یا لاس اینجلس میں ، لندن میں ہو یا ہالی ووڈ میں، ایمسٹرڈم میں ہو یا برلن میں، ہانگ کانگ میں ہو یا شنگھائی میں اس میں جانے والوں کی لمبی لمبی قطاریں میوزیم کے باہر مہنگی ٹکٹیں خرید کر میوزیم دیکھنے کے لیے اپنے شوق اور صبر کا منظر پیش کرتی ہیں۔ یہ ہر وقت دیکھی جا سکتی ہیں۔ اہلِ مغرب نے مجسمہ سازی کے فن کی قدر کم ہوتے دیکھی اوراسکے چاہنے والوں کی مجسموں کو خریدنے میں دلچسپی کم ہونے لگی یا ان کی قوتِ خرید میں کمی آئی تو انہوں نے مجسمہ سازی میں عوام کی دلچسپی واپس لانے کیلئے انہیں فروخت کرنے کی بجائے ان پر ٹکٹ لگا کر صرف دکھانے تک خود کومحدود کر کے کاروبار کو چمکا بھی لیا اور پھیلا بھی لیا۔ بہت لمبی قطاروں کے آخری سرے پر کھڑا ہو کر گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ انتظار کرنے سے بچنے کیلئے سفارشی یا صرف پرچی کے استعمال سے اپنی ترقی یافتگی کے باوجود یہ شہر اور یہ ملک ابھی پاکستان کے مقابلے میں بہت پسماندہ ہیں البتہ ایسے لوگوں کے لیے تیز قطار یا فاسٹ ٹریک کی سہولت ہے جس کے لیے اس قطار میں دس پائونڈ زیادہ دیکر نسبتاً چھوٹی قطار میں کھڑا ہوا جا سکتا ہے۔ نیو یارک میں میرے بیٹے مصطفیٰ خالد نے تین بار مادام تسائو میوزیم کے قریب گاڑی کھڑی کر کے ہمیں مجسمہ سازی کے اسی نمائشی میوزیم کی سیر کراناچاہی کچھ بارش اور کچھ پارکنگ نہ ملنے کی وجہ سے ہم مادام تسائو میوزیم میں نہ جا سکے مجھے 1990ء میں واشنگٹن میں میوزیم دیکھنے کے بعد اس کی چنداں رغبت بھی نہ تھی لیکن اب کے لندن میں بچوں کے صرار پر جب فاسٹ ٹریک کے طویل ہونے اور کافی انتظار کرنے کا بہانہ یا وجہ نہ مانی گئی اور یہ قطار بہت جلد ختم ہو جائیگی کا جواز زیادہ وزنی بنا تومیوزیم میں جاکر مجسموں اور بتوں میں فرق کو سمجھنا اور سمجھانا میرے اس سیرسپاٹے کا کلیدی نقطہ بن گیا۔ مجسمہ سازوں نے ان ممالک کے مشہور لوگوں کے مجسمے زیادہ بنا کر میوزیم میں سجائے ہوئے ہیں جن کے سیاح زیادہ تعداد میں آتے ہیں۔ میرے مشاہدے میں بھارت کے سیاحوں کی تعداد ہر سیر کرنے والی جگہ یا سیاحتی مقامات پر زیادہ تھی۔ مادام تسائو میوزیم میں بھارتی اداکاروں ، کھلاڑیوں اور بعض دوسرے لیڈروں کے مجسمے ان کی کسی دوسری خوبی سے زیادہ بھارتی سیاحوں میں اپنائیت کا ماحول پیدا کرکے یا ان کی اہمیت ظاہر کرکے سیاحوں کو اس کی طرف کھینچنے کا ایک ایسا کاروباری حربہ ہے جسے بہت کم لوگ سمجھتے ہیں۔ لوگ مجسموں کے ساتھ اپنی تصویریں بنواتے ہیں۔ جن ممالک کے سیاح کم ہوں‘ اس ملک کی مشہور شخصیات کے مجسمے بہت کم ہونگے یا اگر رکھے جائیں تو پھر ہٹا ہی دیئے جاتے ہیں۔ لندن میں میوزیم کی سیر کے دوران میرے کان میں ہندو عورت کے الفاظ کہ اگر بینظیر کا مجسمہ ہوا تو میں اس کے کان کھینچوں گی اس کے باوجود کہ مجھے بینظیر بھٹو سے کوئی سیاسی یا غیر سیاسی وابستگی نہ رہی تھی۔ مجھے اچھے نہ لگے اور میں نے نہ جانے اس ردعمل میں بھارت کے موجودہ وزیراعظم مودی کے مجسمہ کے کان اس ہندو خاندان کے سامنے کھینچے جو بینظیر کے کان کھینچنے کی حسرت کا اظہار کر رہے تھے۔ کسی نے میری یہ تصویر بنا لی اور مجھے بھیج دی حالانکہ یہ میرے مزاج کے بالکل برعکس حرکت تھی۔ میں تو ان زندہ مجسموں کے ساتھ تصویر اتروا لوں جو محض اپنی کرسی کی وجہ سے اہم ہوتے ہیں یا اہم سمجھے جاتے ہیں تو ایسی حرکت پر خود کو معاف نہیں کرتا کیونکہ کرسی سے وابستہ عزت کرسی چھیننے کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے اور ہمارے ہاں کسی شعبہ میں کوئی اتنا بڑا آدمی موجود نہیں جس کے ساتھ تصویر بنوانا آپ کیلئے باعث عزت ہو۔ یہ جو عہدوں پر متمکن لوگ خود کو اہم سمجھ لیتے ہیں۔ ان کے ساتھ تصویر بنوانے والے محض خود کو نمایاں کرنے کے لیے یہ عارضی سا سہارا لیتے ہیں، میں اگر کسی مروت میں ایسا کر بیٹھوں تو اس پر شرمساری کی وجہ سے وہ تصویر حاصل نہیں کرتا۔ یہ وضاحت مجھے اپنے ایک دوست بریگیڈئر اشفاق احمد کے ان کمنٹس پر دینی پڑی جو انہوں نے مودی کے کان کھینچنے والی تصویر پر دئیے اور کہا کہ آپ کے شایان شان نہیں کہ آپ ڈمی کے ساتھ تصویر بنوائیں۔ اس لئے ان کی موجودگی میں جس جس زندہ اور چلتی پھرتی ڈمی کے ساتھ بھی میں نے تصویر بنوائی۔ اسے مروت سے زیادہ اہمیت نہ دی گئی اور نہ ہی دی جانی چاہئے اور اسی کے بریگیڈیئر صاحب گواہ بھی ہیں۔ بہرحال میری اسی حرکت سے ایک بات سامنے آئی۔ اس ہندو خاندان کے علاوہ وہاں موجود درجنوں بھارتیوں میں سے کسی نے بھی مجھے کچھ نہ کہا۔ اس کا برا نہ منایاتو مجھے مجسمے اور بت میں فرق کی سمجھ آگئی۔ بت کے ساتھ ایسی حرکت کرکے آپ بت خانے سے باہر نہیں آسکتے۔ وہ کسی کیلئے زندگی موت کا مسئلہ بھی بن سکتا ہے حالانکہ مجسمے اور بت میں اس اعتبار سے بہت مماثلت ہے کہ دونوں کا ایک نام ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مجسمے کے نام والا شخص اس دنیا میں کسی نہ کسی ملک میں زندہ و سلامت دیکھا جا سکتا ہے مگر بت کا نام ہونے کے باوجود حقیقی دنیا میں اس کا کوئی وجود نہیں۔ دوسری مماثلت یہ ہے کہ نہ بت بولتا ہے نہ مجسمہ۔ بت بھی کسی کا تیار کیا ہوا ہے اور مجسمہ بھی کسی کا فن پارہ۔ نہ بت اپنی جگہ سے ہٹتا ہے نہ مجسمہ۔ اسے ہٹانے سے کسی قسم کے ردعمل کی توقع نہ بت سے ہوگی نہ مجسمہ سے مگر فرق یہ ہے کہ بت جسے مجسمہ سے کم تر درجہ پر ہونا چاہئے اس کی اس ترقی یافتہ دور میں پوجا ہوتی ہے حالانکہ کئی ہزار سال پہلے جب حضرت ابراہیم نے بت خانے میں داخل ہوکر سارے بتوں کے سر کاٹ کر کلہاڑے کو سب سے بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا اور بت پرست جب بت خانے گئے تو سب بتوں کو سربریدہ دیکھ کر پریشان ہوگئے۔ چونکہ حضرت ابراہیم اپنے بت تراش والد کے علاوہ بھی کئی اہم لوگوں سے بتوں کے خلاف اپنی بے زاری ظاہر کر چکے تھے اس لئے سب لوگ اس بات پر متفق تھے کہ نوجوان ابراہیم سے پوچھا جائے یہ کس کی حرکت ہے۔ حضرت ابراہیم سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا بڑے بت سے پوچھو کیونکہ اسی کے کندھے پر کلہاڑا ہے۔ وہ بولے یہ تو بولتا نہیں حضرت ابراہیم نے فرمایا جو بولتا نہیں سنتا نہیں پھر اس کی پوجا کیوں کرتے ہو اور ساتھ ہی دعوت دین بھی دیدی۔حضرت ابراہیم کی دانائی اور معاملہ فہمی کی تو گواہی قرآن بھی دیتا ہے۔ مشرکین اور بت پرست لاجواب ہوگئے اور نوجوان ابراہیمؑ کو آگ میں جلانے کیلئے تاریخ انسانی میں آگ کا سب سے بڑا الائو تیار کیا۔ حضرت ابراہیم کو ہرگز کوئی پریشانی نہ تھی۔ انہوں نے اس موقع پر کوئی دعا نہ کی البتہ اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا اے آگ میرے ابراہیم کیلئے گلزار بن جا۔
یہ تو تاریخی صداقت تھی جو مجسموں اور بتوں میں فرق بیان کرتے ہوئے سامنے آگئی۔ اس پیش گوئی کے ساتھ کہ اس صدی میں دنیا سے بت پرستی ختم ہوجائے گی کیونکہ بت پرستوں پر مجسموں کو دیکھنے کے بعد بتوں کی اصلیت کی سمجھ آجائے گی اور مفاد پرست پنڈتوں کے چکر سے نکل آئیں گے اور یہ بات عام سوجھ بوجھ والا بھی سمجھ جائے گا کہ عام مجسمے اور بت میں ہرگز کوئی فرق نہیں۔ دونوں نہ فائدہ دے سکتے ہیں نہ نقصان کر سکتے ہیں۔ دونوں کو اہمیت دینے والے خود کوغیر اہم بنا لیتے ہیں۔ اور اپنی بے وقعت حیثیت کی وجہ جو ان کے اپنے ہی کسی قبیل کی پیدا کردہ ہوتی ہے خود اپنی نظروں میں شایان شان نہیں رہتے۔

ای پیپر دی نیشن