پولیس اور عدالتی نظام میں اصلاحات ہر دور کی حکومت کے ایجنڈا پر رہے ہیں۔آبادی میں اضافہ اور انصافی کی فراہمی کے کسی مناسب نظام کی عدم دستیابی ایسی دو بڑی وجوہات ہیں جن کے باعث عوام اکثر شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ پولیس وقت پر مقدمہ درج نہیں کرتی، پراسیکیوشن مقدمہ درست نہیں لڑتی اور عدالتیں مقدمات کے فیصلے تاخیر سے کرتی ہیں۔ اگر آبادی میں ہونے والے اس تیز رفتار اضافے کا سدباب نہ کیا گیا تو کریمینل جسٹس سسٹم کیلئے مختص اضافی فنڈز بھی کچھ ہی سالوں میں ناکافی ثابت ہوں گے۔ آپریشنل سطح پر دیکھا جائے تو ہمیں کریمینل جسٹس سسٹم سے جڑے اداروں کے ذمہ داران یہ شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ شکایت کنندگان کے مسائل حل کرنے اور جرائم کی روک تھام کیلئے سہولیات ناکافی ہیں۔ ڈسٹرکٹ کورٹس میں ہمیشہ سائلین کی بھیڑ دکھائی دیتی ہے کیونکہ سہولیات ناکافی ہیں اور مقدمات میں کمی کی کوئی صورت بھی دکھائی نہیں دیتی۔ یہ صورتحال دیہی اور شہری علاقوں میں یکساں ہے۔ یہی صورتحال محکمہ پراسیکیوشن میں ہے جہاں موجودہ کیسز کا بوجھ دستیاب عملے کی سکت سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ابھی ہم صرف مقدمات کے عددی بوجھ کا ذکر کر رہے ہیں: پرایکیوشن کی عمدگی اور اس کا معیار ایک الگ معاملہ ہے۔ اگر جیلوں کی بات کی جائے تو وہ بھی گنجائش سے تین گُنا زیادہ قیدیوں کا بوجھ برداشت کر رہی ہیں جبکہ انتظامیہ پر نئے قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا زبردست دبائو بھی ہے۔ بہرحال ابھی سب کچھ بگڑا اور کریمینل جسٹس سسٹم میں کئی لحاظ سے جدید انداز کو اپنایا جا رہا ہے۔ حال ہی میں چیف جسٹس آف پاکستان نے ایک سُبک رفتار عدالتی نظام متعارف کروایا ہے جس کے تحت 5700 سے زائد کیسز کو فاسٹ ٹریک پر نمٹایا گیا ہے اور عدالتی فیصلوں میں تاخیر کی عام شکایات کو دور کرنے کیلئے مزید ماڈل کورٹس قائم کی گئی ہیں۔ جناب چیف جسٹس نے ویڈیو لنک کے ذریعے مقدمات کی سماعت کا پائلٹ پراجیکٹ بھی شروع کیا ہے جس کی بدولت تمام سٹیک ہولڈرز کا وقت، سرمایہ اور توانائیاں بچیں گی سوائے ان افراد کے جو ناپید نظام عدل سے فوائد اٹھانے والے تھے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی پہلے ہی عالمی ماہرین کے منظور شدہ طریقہ کار کے عین مطاب نارویجیئن پولیس اور عدلیہ کیساتھ ملک کر ویڈیو لنک کے ذریعے بین الاقوامی ٹرائلز منعقد کر چکی ہے۔ٹیکنالوجی کے ذریعہ سرکاری اداروں میں بہتری کے بہت سے مواقع ہیں جن کا استعمال فیصلہ سازوںپر منحصر ہے۔ میں یہاں چند آسان اور قابل عمل طریقہ کار بیان کرنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے تو روزانہ کی بنیاد پر عدالتی مقدمات کی سماعت اور صرف اگلی تاریخ لینے کیلئے آنے والے ہزاروں قیدیوں کی اس لایعنی آمدورفت کو بآسانی روکا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کیلئے متعلقہ عدالت اور جیل کے مابین ویڈیو لنک کے ذریعے رابطے کا نظام قائم کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح دوسرے شہروں میں موجود گواہوں کو عدالت میں لانے کی بجائے ان کی گواہی ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کی جا سکتی ہے۔ اس طریقہ کار سے جہاں وقت اور لاگت کی بچت ہو گی وہیں اہم گواہوں کی حفاظت اور سلامتی کو بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں بے چہرہ منصفین، پراسیکیوٹرز اور گواہان کی تصویر دنیا بھر میں رائج ہے اور پاکستان کے سرکاری اداروں میں اس ضمن میں تمام تر وسائل دستیاب ہیں۔ چوتھی بات یہ کہ عدالتی مقدمات میں دستیاب ثبوتوں اور ریکارڈ کو ٹیکنالوجی کے ذریعے ناصرف محفوث اور الیکٹرانکلی منتقل کیا جا سکتا ہے بلکہ اسے تفتیشی اور پراسیکیوشن عملے کے زیر اثر تبدیلی یا بگاڑ سے بھی بچایا جا سکتا ہے۔ پانچواں نقطہ یہ ہے کہ عدالتی کیس مینجمنٹ سسٹم اب بھی قابل عمل ہے اگرچہ اس سے قبل اس نظام کو سمجھنے اور لاگو کرنے کی بھرپور کوشش نہیں کی جا سکی اور دوسری جانب پرانے نظام سے مستفید ہونے والے بھی اس راہ میں رکاوٹ بنے رہے۔یہاں تجویز کردہ مربوط کریمینل جسٹس سسٹم کے تحت موجودہ عدالتی نظام کے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک پیج پر لاکر وقت اور سرمائے کی بچت یقینی بنائی جا سکتی ہے۔ اس نظام کے تحت پولیس، پراسیکیوشن، عدالتوں اور جیلوں کے درمیان الیکٹرانک رابطے کا محفوظ نیٹ ورک قائم کیا جا سکتا ہے جو کہ قانون میں رہتے ہوئے مخصوص ایس او پیز کے تحت کام کرے گا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس نئے مربوط نظام میں افسر شاہی کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے ورنہ ہی کسی اور ایسے ادارے کا عمل دخل مفید ہو گا جس کا نظام انصاف سے براہ راست تعلق نہ ہو۔ ہم ایک ایسے مربوط کریمینل جسٹس سسٹم کی بات کر رہے ہیں جو نا صرف نہایت کم لاگت میں موجودہ عدالتی نظام کی کارکردگی اور سکت کو بڑھا سکتا ہے بلکہ یہ عدالتوں میں انصاف کے متلاشی عوام کی زندگیاں آسان کرے گا جنہیں کرپشن سے پاک اور تیز ترین انصاف مہیا کیا جا سکے گا۔ اس طریقہ کار سے ریاست اور عوام کی جانب سے عدالت میں ملزم گواہان کو پیش کرنے پر خرچ ہونے والے کروڑوں روپے کی بچت ہو گی اور روزانہ کی بنیاد پر سکیورٹی کے درپیش مسائل کا بھی خاتمہ ممکن ہو گا۔
مربوط کریمینل جسٹس سسٹم
Jul 03, 2019