درندہ صف بھارت کے ظلم کی انتہا‘ کمسن نواسے کے سامنے نانا شہید‘ انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں عالمی قوتوںکیلئے لمحہ ٔ فکریہ
بھارتی فورسز کی درندگی انتہا کو پہنچ گئی۔مقبوضہ کشمیر میں قابض فوج نے سو پور میںساٹھ سالہ شخص کو تین سال کے نواسے کے سامنے شہید کر دیا۔ بچہ عیاد جہانگیر سہما ہوا نانا کی نعش پر بیٹھ کر روتا اور مدد کو پکارتا رہا۔عیاد کو بھارتی اہلکار گاڑی میں بٹھا کر لے گئے اور بسکٹ دلانے کا کہا، معصوم ہچکیاں لیکر نانا کو یاد کرتا رہا۔مقتول بشیر احمد خان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ان کے والد سامان لینے کا کہہ کر گھر سے نکلے تھے تو قابض فورسز نے والد کو کار سے اتارکر گولیاں مار دیں۔ جس وقت پولیس نے بچے کو اپنی تحویل میں لیا اس وقت وہ انتہائی خوفزدہ نظر آرہاتھا۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کی انتہا کردی گئی ہے۔ تین سالہ معصوم فرشتے کے سامنے اس کے نانا کو گولیوں سے بھون ڈالنے کے واقعہ نے دل دہلا دئیے ہیں۔اس سے بڑی بربریت کا عملی مظاہرہ نہیں کیا جاسکتا۔ یورپی یونین کو تمام صورتحال سے آگاہ کیا ہے۔ یہ واقعہ ماورائے عدالت قتل کے زمرے میں آتا ہے۔ پاکستان اس واقعے کو بھی ہرفورم پر اٹھائے گا۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی بربریت اور سفاکیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ وادی میں انسانی حقوق نہ صرف معطل ہیں بلکہ انکی بری طرح پامالی بھی کی جاتی ہے۔ گیارہ ماہ سے نہتے کشمیری کرفیو کی پابندیوں میں جکڑے ہوئے ہیں‘ گھر سے کوئی بھی شخص اجازت کے بعد نکل سکتا ہے۔ ایسے لوگوں کو بشیر احمد کی طرح وحشت ناک انجام سے دوچار کردیا جاتا ہے۔ جس روز معصوم نواسے کے سامنے اسکے نانا کو بے دردی سے شہید کیا گیا‘ اسی روز ایک جعلی اپریشن کے دوران راجوڑی میں دو نوجوانوں کو بھی شہید کردیا گیا۔ بھارت میں کرونا کے سدباب کیلئے لاک ڈائون کیا گیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کو کرونا کی کوئی پرواہ نہیں‘ کشمیریوں کو محض اس اقدام کیخلاف احتجاج سے باز رکھنے کیلئے محصور کردیا گیا جس کے تحت کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی اور لداخ کو یونین ٹیرٹیری کا خصہ بنالیا گیا۔ کشمیری اس اقدام کو تسلیم کرنے کیلئے کسی صورت تیار نہیں ہیں۔ ان کو جب بھی موقع ملتا ہے‘ کرفیو کی پابندی توڑ کر مظاہرے کرتے ہیں۔ انکے ساتھ کس طرح کا بہیمانہ سلوک روا ہوتا ہوگا‘ اس کا اندازہ ایک پرامن شہری کے گھر سے نکلنے سے لگایا جا سکتا ہے جسے اسکے باوجود شہید کردیا گیا کہ اسکے ساتھ تین سال کا بچہ بھی تھا۔
ایک طرف مقبوضہ وادی کے شہری علاقوں میں کرفیو کی پابندیاں ہیں تو دوسری جانب انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور آزاد عالمی میڈیا کو وادی میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔ دوسرے ممالک کے پارلیمنٹیرین کو تو کجا‘ اپنے ملک کی اپوزیشن کے عوامی نمائندوں کے داخلے پر بھی پابندی ہے۔ وادی میں بھارتی فورسز کے نہتے لوگوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا بہت سا حصہ دنیا کے سامنے نہیں آسکتا جو کچھ سامنے آتا ہے‘ وہ بھی انسانی ضمیر کو جھنجوڑنے کیلئے کافی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز ظلم وجبر کے تمام حربے اور ہتھکنڈے آزما رہی ہیں‘ بھارت کے اندر سے بھی اقلیتوں کے حوالے سے خیر کی خبریں نہیں آرہیں۔ انسانیت کی تذلیل، بھارت کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست کرناٹک میں کرونا سے ہلاک افراد کی بے حرمتی کی گئی۔ مسلمانوں اور مسیحیوں کی لاشیں گڑھوں میں پھینکی جانے لگیں جس کی دلخراش واقعات کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ مسلمانوں اور مسیحیوں کو مذہبی رسومات کی اجازت بھی نہیں ملتی۔ تجہیز و تکفین کی بجائے مرنے والوں کو کوڑے کے ڈھیر میں دفنایا جاتا ہے۔
سوپور میں بشیر احمد کو جس طرح شہید کیا گیا‘ اسکی ویڈیو تو سامنے نہیں آسکی جس سے پتہ چلتا کہ انہیں کس طرح بہیمانہ طریقے سے شہید کیا گیا تاہم انکی شہادت کے بعد جس طرح ان کا نواسہ نعش کے قریب بیٹھا ہے‘ اس نے انسانیت کی رمق تک رکھنے والے ہر دل کو دہلاکے رکھ دیا۔ دیکھنا ہوگا یہ تصویر عالمی ضمیر کو بھی جھنجوڑتی ہے یا عالمی برادری اس پر بھی بے حسی کا مظاہرہ کریگی۔
اس تصویر کو دیکھ ر لوگ دلگرفتہ ہیں۔ بھارتی فورسز کی مذمت کے بیانات بھی جاری ہونگے جن کا بھارت نے پہلے اثر لیا نہ اس پر اب کوئی فرق پڑیگا۔ بھارت کی اس ہٹ دھرمی اور دیدہ دلیری سے یہی تاثر ابھرتا ہے کہ وہ کسی دبائو اور عالمی قانون کو خاطر میں نہیں لاتا۔انسانی حقوق کے علمبردار سارا منظر نامہ خود پر طاری کرکے سوچیں تو ان پر واضح ہو سکے گا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ بھارت کو متعلقہ عالمی ادارے اور بااثر ممالک مزید ظلم و ستم جاری رکھنے کا موقع نہ دیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل اور بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے زبانی جمع خرچ نہیں‘ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ بھارت کی ایسی دیدہ دلیری صرف کشمیریوں کیلئے ہے‘ لداخ میں یہی بھارت چین کے سامنے بھیگی بلی بنا ہوا ہے۔