اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے عدلیہ اور معزز ججز کے خلاف توہین آمیز ویڈیو بنانے والے آغا افتخار الدین کو توہین عدالت پر شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے سات روز میں جواب طلب کرلیا۔ آغا افتخار الدین مرزا توہین آمیز ویڈیو از خود نوٹس کیس کی چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ایف آئی اے کی رپورٹ فائل ہوچکی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آغا افتخار الدین مرزا کی طرف سے کون پیش ہورہا ہے، جس پر انکی وکیل سرکار عباس نے کہا آغا افتخار الدین مرزا نے غیر مشروط معافی نامہ جمع کرا دیا ہے۔ جسٹس اعجا زالاحسن نے کہا معافی نامہ ہمارے سامنے نہیں ہے۔ جو الفاظ استعمال کیے گئے کیا ایسے الفاظ استعمال کیے جاسکتے تھے۔ ایسے مقدمے میں معافی کیسے دیں۔ چیف جسٹس نے کہا آغا افتخار الدین مرزا کو 6 ماہ کیلئے جیل بھیج دیتے ہیں۔ آپ کو اس کیس کی نوعیت کا اندازہ نہیں۔ چیف جسٹس نے وکیل افتخار الدین مرزا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ اس کیس کو بہت ہلکا لے رہی ہیں۔ وکیل نے موقف اپنایا کہ افتخار الدین مرزا دل کے مریض ہیں۔ جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہم کیا کریں انکو اپنی زبان کو قابو میں رکھنا چاہئے تھا۔ وکیل سرکار عباس نے کہا گزشتہ سماعت پر وہ عدالت عظمی آئے تھے، لیکن پولیس نے انہیں پیش ہونے نہیں دیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اٹارنی جنرل کے مطابق یہ تو فوجداری اور دہشت گردی کا جرم بھی بنتا ہے۔ معافی نامہ دینے کا فائدہ نہیں ہوگا۔ فوجداری مقدمہ /انسداد دہشت گردی کے مقدمے میں معافی نہیں ہوتی۔ ایف آئی اے کے سامنے ملزم نے تسلیم کیا کہ سات نمازیوں کے سامنے ویڈیو ریکارڈ ہوئی۔ ملزم نے معافی مانگ کر اپنا جرم تسلیم کر لیا ہے۔ آغا افتخار الدین مرزا کہہ رہے ہیں میں نے جرم نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا معافی نامے کا بیان حلفی بھی قانونی طریقہ کار کے مطابق نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا سادہ کاغذ پر معافی نامہ لکھ کر دیا گیا ہے۔ آغا افتخار الدین مرزا کی شناخت اوتھ کمشنر کے سامنے کس نے کی؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اوتھ کمشنر تو آغا افتخار الدین مرزا کو نہیں جانتا۔ چیف جسٹس نے کہا آپ معافی نامہ پڑھیں لکھا کیا ہے۔ اس مقدمے کو عام مقدمے کی طرح نہ لیں۔ افتخار الدین مرزا کو ابھی سزا سنا دیں گے۔ کئی ماہ جیل میں رہنا پڑے گا۔ اس مقدمے میں کوئی رحم کی بات نہیں۔ وکیل نے کہا آغا افتخارالدین نے وہ ویڈیو نہیں بنائی بلکہ ویڈیو بنانے والا بچہ بھی گرفتار ہے۔ آغا افتخار الدین کی جانب سے بنائی گئی ویڈیو دراصل ایک کمرہ کی گفتگو تھی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا افتحار الدین مرزا کی ویڈیو کسی بچے کی بنی ہوئی نہیں۔ افتحار الدین مرزا کا اپنا ویڈیو چینل ہے۔ مرزا اپنے چینل سے پیسے کماتے ہیں۔ وکیل نے کہا وہ دل کے مریض ہیں، افتحار الدین مرزا کو ہسپتال لیکر گئے ہیں وہ مر جائیں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ایسی زبان تو گلیوں میں بھی استعمال نہیں ہوتی۔ اسلامی سکالر نے ایسی ویڈیو بنا کر دنیا کیلئے پبلک کر دی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا جب سپریم کورٹ کا نوٹس جائے گا تو چکر تو آئیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا آئندہ سماعت پر آغا افتخار الدین مرزا کو پیش کریں۔ دوران سماعت اینکر پرسن حامد میر اور محمد مالک کی جانب سے وکیل پیش ہوئے تو عدالت نے انکو سننے سے بھی انکار کردیا۔ جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کی جانب سے عدالت کو خط لکھ گیا تو چیف جسٹس نے کہا یہ خط لکھنے کا کیا طریقہ ہے۔ اگر عدالت کو کچھ بتانا چاہتے ہیں تو باقاعدہ طریقہ کار کے مطابق درخواست دی جائے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا منبر پر بیٹھ کر نجی گفتگو کیا ہوئی۔ وکیل نے کہا اب ہم معافی مانگ رہے، عدالت معاف کردے۔ چیف جسٹس نے کہا بہت ساری چیزیں معاف نہیں ہوتیں۔ وکیل نے کہا ایف آئی اے نے مقدمے میں دہشتگردی کی دفعات لگا دی ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ کی معافی ہم قبول نہیں کررہے ہیں۔ معافی نامے سمیت دلائل میں تین مختلف موقف دیئے گئے ہیں۔ پلان کے ساتھ ویڈیو بنائی گئی ہے۔ ویڈیو میں تصویریں بھی شامل کی گئیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا یہ ادارے ہیں، جن کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایسے الفاظ استعمال کرکے معافی مانگ لی جائے۔ وکیل نے ایک مرتبہ پھر کہا آغا افتخار غریب بندہ ہے اس کو معاف کردیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کیا ایسے جرم پر فوری سزا نہیں ہو سکتی۔ عدالت نے اپنے حکم نامہ میں قرار دیا کہ بادی النظر میں آغا افتخار الدین نے توہین عدالت کی اس لئے ان کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کرکے وضاحت طلب کی جا رہی ہے اور کیس کی مزید سماعت 15 جولائی تک ملتوی کی جا رہی ہے۔
ججز کیخلاف ویڈیو: ملزم کو توہین عدالت پر شوکاز نوٹس‘ معافی نہیں دینگے: چیف جسٹس
Jul 03, 2020