پیپلزپارٹی‘ وفاق کی علامت

دنیا میں بہت کم خوش نصیب لیڈر ہوتے ہیں جو اپنے پرائے سب جگہ مقبول ہوتے ہیں اور لوگ ان سے پیارکرتے ہیں کیونکہ اصلی حکمرانی تو دلوں پر ہوتی ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ بانی پاکستان ایک انگریزی میں تقریر کر رہے تھے تو ایک خوانچہ فروش سے کسی نے پوچھا تم بہت غور سے سن رہے ہو تمہیں معلوم ہے کہ یہ قائداعظم کیا کہہ رہے ہیں اس پھل فروش نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم یہ کیا کہہ رہے ہیں مگر جو بھی کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے اورملک اور قوم کے مفاد میں ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے بعد پاکستان کی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو جیسا لیڈر پیدا ہوا اور مختلف مرحلے طے کرتا ہوئے اقتدار کی منزل تک پہنچا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی خوبی یہ تھی کہ وہ محب وطن تھے اور اپنی ذہنیت سے پاکستان کے چاروں صوبوں کے عوام میں یکساں مقبول تھے جس کی وجہ سے انہیں وفاق کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء میں ایک بہت جامع ، واضح اور متفقہ آئین دیا جس پر تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کے ان لیڈروں کے دستخط موجود ہیں جو 1973ء کی اسمبلی میں موجود تھے۔ اس آئین میں بھٹو شہید نے تمام صوبوں کے یکساں حقوق وضح کر دیئے اور عملی طور پر اس پر اقدامات کیے جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی کو نہیں بلکہ بھٹو خاندان کو وفاق کی علامت سمجھا گیا۔ شہید قائد ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو بھی چاروںصوبوں کی زنجیر کے لقب سے نوازا گیا۔ بھٹو شہید نے اپنے دور حکومت میں ناراض بلوچیوں کو پہاڑوں پر جا کر گلے لگا لیا۔ یہ واقعہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ جس کی وجہ سے بلوچ ہمیشہ پیپلزپارٹی سے خوش رہے اور پھر شہید بی بی کا رشتہ آصف زرداری سے ہوا تو وہ بھی بلوچ ہیں۔ بھٹو پاکستان کے 9 ویں وزیراعظم تھے جو 1971ء سے 1977ء تک اقتدار میں رہے اور اس دوران ایسے اپنے کارنامہ کیے جو تاریخ کا حصہ بن گئے۔ بھٹو نے گوادر سی پورٹ کا آغاز کیا جس سے بلوچستان کے لوگ ہمیشہ خوش ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھٹو دور میں مینگل، مگسی، بگٹی، مری، تمام بلوچی قبیلے پیپلزپارٹی سے خوش تھے۔ اس طرح صوبہ سرحد (کے پی کے) کے اہم خاندانوں کو اہم وزارتیں دیکر قومی دھارے میں شامل کیا جبکہ پنجاب میں بھٹو خاندان سندھ سے زیادہ مقبول تھا اس طرح بھٹو شہید کی ذہنیت نے پیپلزپارٹی کو وفاق کی علامت بنا دیا اور آج تک نہ صرف ہماری جماعت بلکہ بھٹو خاندان وفاق کی علامت ہے۔ آج پورا ملک انتشار کا شکار ہے صوبے اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں۔ کوئی ہے جو بکھیرے ہوئے پاکستانیوں کو یکجا کرسکے۔ اس کام کیلئے شہید بھٹو اور شہید بی بی جیسی ذہنیت، سیاسی بصیرت چاہئے انسان جب سیاست میں قدم رکھتا ہے تو اسے اپنی انا، اپنے گھر میں چھوڑ کر بازار سیاست میں آنا چاہیے اور اس میدان میں حقیقی جذبہ خدمت خلق اور محب وطن بہت ضروری ہے اگر موجودہ حکمران پیپلزپارٹی کی تاریخ سے سبق سکھ لئے یہ پی ٹی آئی کے حق میں بہترہوگا۔ صرف بھٹو شہید کی ذات کو دیکھا جائے تو انہوں نے ایک روپے کی بھی کرپشن نہیں کی بلکہ 22 خاندانوں کو پیسہ واپس کرنے پر مجبور کردیا۔ اللہ تعالیٰ انسان کا ساتھ اس وقت دیتا ہے جب اس کی نیت صاف ہو۔ پیپلزپارٹی کی تاریخ عروج و زوال کا سرچشمہ ہے۔ آج بلاول بھٹو زرداری اپنی والدہ کے طرز سیاست پر عمل پیرا ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ وہ اپنی ماں بے نظیر بھٹو کے مشن کو پورا کریں گے اور چاروں صوبوں میں پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے عوام کو یکجا کریں گے۔ بلاول بھٹو یقینا کامیاب ہونگے کیونکہ ان کی نیت صاف ہے ویسے بھی نظریاتی جماعت کبھی ختم نہیں ہوتی اور آج پاکستان کے وفاق کو بچانے کیلئے ہم سب بلاول کی قیادت میں متحرک ہو رہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...