پاکستان کونسل برائے تحقیق آبی ذخائر (پی سی آر ڈبلیو آر) کی جانب سے جاری کردہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق 1990ء میں پاکستان ان ممالک کی فہرست میں آ چکا تھا۔ جہاں زرعی صنعتی اور گھریلو استعمال کے لئے پانی کی طلب میں اضافے کے باعث مسقبل میں خوراک اور پانی کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔مزید برآں پاکستان میں واٹر مینجمنٹ کا مسئلہ ہے اور کئی بڑے بڑے شہروں میں عوام کو لمبی لمبی قطاروں میں لگا کر ٹینکر مافیا سے پانی خریدنا پڑتا ہے۔ مذکورہ بالا رپورٹ کے تحت کیا قومی سلامتی کے لئے سب سے بڑا مسئلہ پانی کی قلت کا ہو گا؟ کیا آئندہ ملک میںپانی پر صوبوں کے درمیان جھگڑے ہوں گے؟ یہ بات زیر غور ہے کہ پاکستان کے دریا تیزی سے ریگستانوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ ریت جمع ہونے کی وجہ سے تربیلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 30 لاکھ ایکڑ فٹ کم ہو گئی ہے۔ زیادہ پریشان کن امر یہ ہے کہ پاکستان صرف 30 دن کے لئے پانی ذخیرہ کر سکتا ہے۔60 کی دہائی کے بعد سے اب تک کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر نہ ہونے کے باعث ہر سال 130ارب ڈالر مالیت کا 1140 کروڑ فٹ سے زیادہ میٹھا پانی سمندر کی نذر ہو جاتا ہے اور ناقص منصوبہ بندی سے صرف 36% پانی استعمال میں لایا جاتا ہے۔ ڈیم بنانے کی بات ہمیشہ سیاست کی نذر ہو جاتی ہے۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی حکومت کئی بار اقتدار میں آئی مگر ان کی ترجیحات میں پانی کے سنگین بحران کا حل ہی نہیں تھا۔ صرف سیاست چمکانے کے لئے ایسے منصوبے دعوؤں یا کاغذوں کی حد تک ہی رہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ واٹر ایمرجنسی ہو چکی ہے معیشت کی لائف لائن 90% زراعت پر مشتمل ہے۔ پانی نہیں ہو گا تو بجلی نہیں ہو گی۔ بجلی نہیں ہو گی تو صنعتیں بند ہو جائیں گی۔ معیشت مضبوط نہ ہوئی تو صف بہ صف کھڑے دشمن ہم پر قابض ہو سکتے ہیں۔ خطرے کی بات یہ ہے کہ بھارتی تیزی سے ان دریاؤں پر ڈیم تعمیر کر رہا ہے جو کہ پاکستان کو پانی فراہم کرتے ہیں اس کا مطلب تو یہ ہے کہ بھارت کو فل کمانڈ ہے کہ وہ پاکستان کا پانی روک لے۔ ان تمام حالات کو سامنے رکھتے ہوئے کیا ایسی ٹھوس واٹر پالیسی تشکیل دی جائے کہ بحران کی سی کیفیت سے بخوبی نمٹا جا سکے۔ کالاباغ ڈیم پر اختلافات کا خاتمہ تو فی الوقت محال ہے البتہ ہنگامی طور پر چھوٹے چھوٹے ڈیمز کی تعمیر کی جائے تا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گلیشیئرز پگھلنے اور بارشوں کی صورت میں پانی کا ذخیرہ کیا جا سکے۔سب سے بڑی ضرورت تو یہ ہے کہ پانی کی اتھارٹی بنائی جائے۔ ماہرین پر مشتمل ٹیم تشکیل دی جائے جو کہ پانی پر حکمت عملی پیش کریں۔ پانی کی گورننس کا نظام واضح کیا جائے۔ یہ ٹیم ریسرچ کرے، منصوبہ بندی کرے اور پانی کی رسائی کو خشک علاقوں تک بڑھانے کے لیے احسن حکمت عملی پیش کرے۔ صاف پانی عوام کو مہیا کیا جائے۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں لوگ خرید کر پانی پینے پر مجبور ہیں۔ کیونکہ گھروں میں پانی تو آتا ہے مگر وہ غیر معیاری ہوتا ہے۔ بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو کم عمری میں بوڑھے معلوم ہوتے ہیں بظاہر اس کی وجہ گھریلو پریشانی یا غربت ہو سکتی ہے۔ لیکن درحقیقت مذکورہ بالا وجوہات کے علاوہ 90% وجہ غیر معیاری پانی ہے جس کی وجہ سے دل، دماغ،پیٹ، جلد، آنکھوں اور نفسیاتی امراض سے لے کر بالوں کا گرنا، ہپاٹائٹس، بلڈ پریشر، شوگر، قوت مدافعت کا کم ہو جانا وغیرہ شامل ہے۔ امیر تو پانی خرید سکتے ہیں مگر غریبوں کو کھانے تک کے پیسے میسر نہیں وہ صاف پانی کا اہتمام کہاں سے کریں؟ یہ حکومت وقت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے کہ صاف پانی سب کی دسترس میں ہو۔
اس وقت پاکستان میں خطرناک حد تک پانی کی شدید قلت کا سامنا بلوچستان میں نظر آ رہا ہے۔ بلوچستان میں چھوٹی چھوٹی جھیلوں میں پانی ختم ہوتا جار رہا ہے جھیلوں پر کائی جم رہی ہے اور لوگ پھر بھی کائی زدہ پانی پی رہے ہیں۔ لوگ پانی کے لئے بھیک مانگ رہے ہیں۔ صورت حال دن بدن گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔ پانی کی قلت سے نمٹنا کوئی بڑا چیلنج نہیں ہے لیکن بروقت منصوبہ بندی اور عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے ورنہ مستقبل قریب لوگ پانی کی قلت کی وجہ سے مرنا شروع ہوجائیں گے۔ بحیثیت محب وطن ہر پاکستانی کا فرض بنتا ہے کہ وہ پانی کو ضائع ہونے سے بچائے کیونکہ یہ ایک قیمتی وسیلہ ہے۔
گھر کا سربراہ گھر کا نگہبان ہوتا ہے۔ تبدیلی کا آغاز گھر سے کیا جائے۔ بچوں خواتین اور ملازمین کو تلقین کی جائے کہ پانی دھیان سے استعمال کریں۔ نیز پورے ملک میں درخت ایک قومی فریضے کے طور پر لگائے جائیں۔ ورنہ زرخیز ملک پاکستان کوتاہی اور ناقص منصوبہ بندی کے تحت بنجر ریگستان میں تبدیل ہو جائے گا جو کہ تاریخ کا عظیم نوحہ ہو گا۔
آبی بحران…قحط سالی کا خوفناک بگل
Jul 03, 2020