ہمارے یہاں سیاست بہت مزے کا کام ہے کیونکہ یہ وہ واحد کام ہے کہ جس میں آپ جو کچھ کہتے ہیں وہ درحقیقت آپ نے کرنا ہوتا نہیں ہے اور جو کرنا ہوتا ہے وہ نا آپ کو پتا ہوتا ہے اور نہ ہی آپ بتاتے ہیں۔ سیاستدان صرف وقت دیکھتے ہیں اور حالات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد حکومت کو بچانا اور اپنے اقتدار کو طول دینا ہے ۔ اس کی خاطر وہ انہیں اپنا ہی منشور جو کہ الیکشن کے دنوں میں لاتعداد پرنٹ کرا کے بانٹا جاتا ہے پر کوئی عمل نہیں کرتے۔ اصولاً دیکھا جائے تو کسی بھی سیاسی جماعت کا منشور ریاست کو مضبوط بنانے اور عوام کی فلاح پر مرکوز ہوتا ہے اور اس میں جتنی باتیں لکھی ہوتی ہیں اگر ان میں سے آدھی کیا کچھ پر بھی عمل ہو جائے تو ملک اور عوام دونوں کی تقدیر بدل جائے ۔ مگر بدقسمتی تب شروع ہوتی ہے جب اقتدار میں آنے کے بعد سیاستدان عوام سے لاتعلق ہو جاتے ہیں اور دیکھا جائے تو عوام کا بھی کیا ہو سکتا ہے جو ان جیسے حکمرانوں کو صرف نالی یا گلی پکی کرانے پر ووٹ دے دیتے ہیں اور اگلے پانچ سال اپنی تقدیر ان لوگوں کے ہاتھوں میں دے دیتے ہیں۔میرا تعلق لاہور سے ہے اور یہاں رہتے ہوئے میں نے ترقی کی رفتار دیکھی ہے۔ اچھرہ سے جنرل ہسپتال پہنچنے تک کتنے اشارے آتے تھے اب تو کئی یاد بھی نہیں رہے۔ میٹرو بن گئی اور سڑک رو دویہ اور سگنل فری ہوگئی اب آپ کو پتہ بھی نہیں چلتا اور فراٹے بھرتے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں۔لاہور شہر کے ہسپتالوں میں صحت کی اچھی سہولیات میسر ہیں ۔ لاہور جسے کالجوںکا شہر کہتے تھے اب اس کے دامن میں بیشمار جامعات کھل چکی ہیں۔ کارخانے اور دیگر صنعتوں نے یہاں اس قدر ترقی کی ہے کہ لاہور شہر گزشتہ چند سالوں میں بے حد وسیع ہو گیا ہے ۔ مگر اس ترقی نے جہاں ہمیں بہت سی خوشیاںدیں ہیں وہیں دیگر علاقوں کے لوگوں کو بہت زیادہ احساس محرومی کا شکار کر دیا ہے۔ کیونکہ رحیم یار خان اور صادق آباد سے آنے والے سائل کو جب لاہور آ کر ہڑتال یا کسی اور مطلوبہ افسر کی چھٹی کا معلوم ہوتا تو آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اس کے دل پر کیا بیتتی ہو گی۔ ایک بندہ جو نو سے دس گھنٹے کا سفر کر کے آئے اور اسے یہ کہہ دیا جائے کہ صاحب ابھی نہیں ہیں کل یاپھر اگلے ہفتے آنا۔ تو ایسے کسی بھی شخص کے لئے لاہور کی ترقی باعث خوشی یا باعث سکون نہیں ہو سکتی۔اس کے علاوہ مرکز سے دوری کی بنا پر بہت سارے مسائل ایسے ہیں جو آج تک جوں کے توں ہیں۔ بہت سارے سکولوں میں امیروں کے جانور بندھے ہیں اور غریب کا بچہ صرف ان کے کھیتوں پر پانی باندھنے ، جانور چرانے اور کھیتوں میں کام کرنے کیلئے پیدا ہوتا ہے۔ اور پیدا بھی کیسے ہو جاتا ہے ؟ بہت سارے بچے نا مکمل صحت کی سہولیات کے باعث یا تو اپنی آنکھیں کھول ہی نہیں پاتے یا پھر جلد اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
پاکستان میں جب بھی الیکشن ہوا تو اقتدار اس کو ملا جو تخت لاہور پر براجمان ہوا اور اس تحت پر بیٹھنے والوں کی پیٹھ ہمیشہ انہیں دور دراز علاقوں کے رہنے والے غریبوں نے تھپتھپائی جو یہ سمجھتے تھے کہ اب کی بار ہمارے قائد نے ہمیں وعدہ کیا ہے کہ وہ ہماری زندگی میںآسانیاں لائے گا مگرگزشتہ ستر سالوں میں ایسا کبھی ہو نہ سکا۔ حتی کہ پچھلے دور میں ان علاقوں سے کوئی اتنا قابل بندہ نہ ملا ان حکمرانوں کو کہ وہ اسے کوئی وزارت دیتے جس سے یہ احساس محرومی اور زیادہ بڑھا۔مگر اتنی محرومیوں اور مشکلوں کو برداشت کرنے کے بعد امید کا ایک جھونکا تب ہمیں میسر آیا جب پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کو حکومت بنانے کیلئے اکثریت ملی تو وزارت اعلی کیلئے بہت سارے ناموں پر غور ہو رہا تھا تو پارٹی قیادت نے یہ ذمہ داری پنجاب کے دوردراز علاقوں میں بسنے والے ایک قبیلہ کے سردار کے سر سونپی۔ جس نے بچپن سے اپنے قبیلہ اور اس کے مکینوں کے جان و مال کے تحفظ کی قسم کھائی ہوئی ہے اور اب اس نے اپنے صوبے کی عوام کے فلاح و بہبود اور ترقی کیلئے حلف اٹھایا ہے اور اس کیلئے ہر دم عزم اور حوصلہ سے آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اب جہاں وہ پنجاب کی ترقی کیلئے کوشاں ہیں تو ایسا ممکن نہیں کہ آپ ایک پورے خطے کونظرانداز کر کے ترقی کی امید کر سکیں۔ اس لئے انہوں نے جنوبی پنجاب کے ان نظر انداز کئے ہوئے مسائل کو بھی سامنے رکھا ہے اور ان کے حل کیلئے کوشاں نظر بھی آتے ہیں۔
ان مسائل کے حل کیلئے پنجاب کے دور دراز علاقوں میں بسنے والوں کی فلاح اور آسانی کیلئے جہاں اس بجٹ میں غریب اور متوسط طبقے کیلئے بہت سارے اقدامات کئے گئے وہیں وزیراعلی نے اپنی بجٹ تقریر میں زاہد اختر زمان کو ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنوبی پنجاب اور انعام غنی کو وہیں ایڈیشنل آئی جی تعیناتی کا اعلان کیا۔ یہ ایک لمبا سفر ہے جس کا آغاز اگر آپ سب کو یاد ہو اکتوبر 2018ء میں "Executive Council for Creation of South Province" کے قیام سے ہوا۔ اس کونسل کے قیام کا بنیادی مقصد جنوبی پنجاب کو ایک الگ صوبہ کا درجہ دینا تھا۔ اور اس میں اس بات کا خیال رکھنا بھی یقینی تھا کہ یہ مکمل طور پر ایک ایسا انتظامی ڈھانچہ بنایا جائے جو کہ عوام کیلئے آسانیوں کا باعث ہو نا کہ اس میں لسانی زہر ہو۔اس کونسل کے پہلے اجلاس میں ہی متعدد کمیٹیوں کے قیام کا فیصلہ ہواجن کا مقصد نئے صوبے کیلئے درکار وسائل اور دیگر امور کو طے کرنا تھا۔ ان کمیٹیوں نے بڑی محنت سے اپنا کام کیا اور جلد اپنی سفارشات پیش کر دیں جس کی نظر میں جنوبی پنجاب کیلئے الگ سے پبلک سروس کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ ہوا اور رفاہ عامہ کے سولہ اداروں کو مکمل خودمختاری دی گئی کہ وہ جنوبی پنجاب میں اپنے الگ دفاتر کا قیام عمل میں لائیں۔ اسکے علاوہ جنوبی پنجاب کیلئے مختص 33%بجٹ کی ریفینسنگ کی گئی کہ یہ پیسہ کہیں اور استعمال نہ ہو سکے۔