ایک وقت تھا جب شہروں میں جگہ جگہ اکھاڑے، کرکٹ، فٹ بال، والی بال اور بیڈمنٹن کلبیں ہوتی تھیں۔ میلوں ٹھیلوں کا رواج تھا۔ سرکس، موت کا کنواں، دو سَروں والا لڑکا، مچھلی کے دھڑ والی لڑکی بچے شوق سے دیکھتے تھے۔لاہور کے لوگ گوجرانوالہ صرف تِکے کھانے جاتے تھے۔ دودھ، دہی، گھی خالص تھے اور فروخت کنندہ انہیں خدا کا نور کہتے تھے اور ملاوٹ ایک گناہ سمجھا جاتا تھا۔ایک وقت تھا جب پاکستان کا نام ہاکی، کرکٹ اور سکوائش میں بہت اونچا تھا۔ سپورٹس کی ترقی کے لئے کسٹم کی خدمات بھی کسی سے کم نہ تھیں۔
کلاشنکوف، پستول کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ سب سے زیادہ اپنا زورِ بازو تھا یا پھر زیادہ سے زیادہ آہنی پنجہ۔ جگہ جگہ طوطا توپ چلاتا، مداری کے کرتب، سپیرے، سانپ ،بندر، ریچھ اور بکرے کے تماشے لگتے تھے۔جگہ جگہ ماسیوں نے بھٹیاں لگائی ہوتی تھیں جہاں سے لوگ دانے بھنوا کر کھاتے تھے۔ شکر کولا، ستو، کانجی، گنے کا رَس، گاجر، مولیاں، کھیرے، ککڑی اور چِکڑ چھولے عام کھائے پیئے جاتے تھے۔وہ تاش کی دوہری چال کی سرعام بیٹھکیں،4 کھیلنے والے اور30 دیکھنے والے۔ وہ چوپٹ، شطرنج، کبوتر بازی کی شرطیں اور مینڈھوں کی لڑائیاں۔وہ جگہ جگہ مالشیوں کے ڈیرے۔وہ بچوں کا پہیہ چلانا، پٹھو گرم، بنٹے، اخروٹ، باندر کِلا اور سگریٹوں کی ڈبیوں سے کھیلنا۔ وہ امیر لوگوں کا سجے تانگوں پر سالم (اکیلے) سفر کرنا۔ وہ پاک ٹی ہائوس، چائنیز کافی ہائوس، لارڈز، شیزان کی محفلیں۔ جگہ جگہ مشاعروں کا اہتمام۔وہ ڈھول کے ذریعے مختلف اعلانات عوام تک پہنچانا۔ وہ کلائی پکڑنے اور گلی ڈنڈا کے مقابلے۔وہ جگا گجر، اچھا شوکر والا، بائو وارث، کاکو لوہار، بالا، وادہا ملک کی بدمعاشیاں اور جنرل موسیٰ کا گولی کا حکم اور اِن کا غائب ہونا۔رات کے آٹھ بجے ریڈیو پاکستان پر شکیل احمد، انیتا غلام علی کی زبانی خبریں سننے کا پنواڑیوں کی دوکانوں پر جم غفیر۔وہ تبت سنو (Tibet Snow) والوں کا پہلی دفعہ انعام میں گاڑی کا نکالنا۔ شادیوں پر وہ بڑے بڑے قدوں والے بھانڈوں کاآنا جو سارے لاہوریوں کا شجرہ نسب جانتے تھے اور باجے والوں کے چرچے۔چار روپے گیلن پٹرول۔ 20 روپے من آٹے کا ہونا اور اُس پر حبیب جالب کا شور۔وہ لنڈی کوتل میں کسٹمز کی طلباء سے زیادتی اور چینی کا چار آنے بڑھنا اور ایوب کا زوال۔وہ بھی دور تھا جب بھاشانی نے گھیرائو جلائو مہم چلا کر غیرملکی سرمایہ کاروں کو بھگایا اور باقی کی کسر بھٹو صاحب کی صنعتوں کو قومیانے نے پوری کر دی۔وہ کرکٹ میچوں پر لوگوں کا کھانے کا ٹفن، تکئے اور گدیاں لے کر جانا۔ سب یاد ہے۔ پہلوانوں کے دنگل سے قبل رنگ برنگی پگڑیوں اور زرق برق کپڑوں میں ڈھول کی تھاپ پر تانگوں کا جلوس۔ وہ یونیورسٹی کے فٹ پاتھ پر بیٹھے انڈر میٹرک پروفیسر کا لوگوں کی قسمت کا حال تابناک بتانا اور اپنی قسمت کا پتہ نہ ہونا۔
وہ سردیوں کی شاموں کو چھابڑی میں گیس لیمپ جلا کر تِڑوے، ریوڑیاں، پیٹھے، گرم مونگ پھلی اور انڈے گرم کی آوازیں۔ایک وقت تھا جب باغوں میں رَش، دریا میں کشتی چلانا اور نہروں میں نہانا۔ اگر محلے میں کسی کا اپنی اوقات سے بڑھ کر رہن سہن دیکھنا تو اُس سے خفیہ نفرت شروع کر دینی۔وہ گرائونڈوں میں بچوں کا امتحانوں کے دنوں میں کتابوں سے تیاری کرنا… پھر لوگوں کا روزگار کی تلاش میں دبئی، بحرین اور سعودیہ نکلنا۔وہ ہتھ پنکھوں سے سیلنگ فین، وہاں سے کولر پھر AC سپلٹ پر آنا۔تختیاں چھوڑ کر کاپیوں پر لکھنا۔ وہ پہاڑوں کی رَٹائی اور کیلکولیٹر کا آنا۔ مٹن سے برائلر پر آنا۔ایسا دور آیا ہے کہ ٹماٹر،پیاز اور لیموں کا رتبہ جنت کے پھل والا ہو گیا۔ سبزیاں آسمان پر اُگنے لگیں۔ جہنم سے آئی دال بھی ناپید ہوگئی۔ آٹاغائب، چینی غائب، پٹرول غائب، دوائیاں مہنگی، ملاوٹ کا عروج، ہسپتالوں میں جگہ نہیں۔ ایسی بے برکتی، منحوسیت اور چونگے میں ٹڈی دل کے حملے۔ ملک میں ایک گیت ہی مقبول ہے۔ ؎
میں چور تو چور ہم سب چور
دنیا میں سب چور چور
……………… (ختم شد)