لوگ منور حسن سے اس وقت متعارف ہوئے جب وہ امیر جماعت بنے۔ جماعت کے محبان آگاہ تھے ایک ایسا آدمی لگی لپٹی کے بغیر جو محسوس کرتا ہے کہ ڈالتا ہے نہ مصلحت نہ خوف نہ سیاست بس شاہ صاحب ایسے ہی تھے تقریباً انیس سال تک وہ مرحوم قاضی حسین احمدکے ساتھ جنرل سیکرٹری رہے ہمیشہ قاضی صاحب کی تائید کرتے، کبھی کوئی قاضی صاحب کی بات کرتا تو کہتے امیر وہ ہیں میں نہیں… وہ بڑے شگفتہ مزاج بھی تھے ہلکی پھلکی گفتگو کرتے۔ میں بھی خوش قسمت ہوں تو جب کبھی پنڈی آتے تو میرے گھر ٹھہرتے رات تہجد پڑھتے اور کہتے نماز با جماعت مسجد میں پڑھوں گا ۔مسجد میرے گھر سے دور تھی اب نزدیک بن گئی ہے میں ساری رات نہ سوتا کہ صبح اٹھنا مشکل نہ ہو جائے لیکن جب بھی دیکھتا ان کے کمرے کی بتی جل رہی ہوتی تو خوشگوار حیرت ہوتی ۔ ایک مرتبہ صبح نماز کے لئے جانے لگے تو ایکْ جوتا غائب؟ کہنے لگے بھئی دوسرا بھی لے لو میں پریشان ہوا کہ نماز کا وقت نہ گزر جائے خود ہی انہیں یاد آیا چھوٹے شاہ صاحب میرے ساتھ کھیل رہے تھے میں اپنے کمرے میں گیا تو اس نے اپنے کھلونوں میں رکھا ہوا تھا لا کر دیا صبح اٹھے تو میرا بیٹا ضد کرنے لگا یہ جوتا تو میرا ہے !کہنے لگے شاہ صاحب گھر کا معاملہ ہے ابو نیا لے دیں گے۔ یادش بخیر عمران خان سیاست میں آئے تو ڈاکٹر فرخ نے کہا کہ ہمیں عمران کے ساتھ مل جانا چاہئے اسے آگے کرکے ہم کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ کہنے لگے ٹھیک ہے ہمیں تو کوئی ووٹ دیتا نہیں مگر یہ بات جماعت میں کرنا مشکل ہے ان کی امارت میں بڑی کوشش کی کہ پی ٹی آئی کو جماعت کے ساتھ ملا دیا جائے منور صاحب آمادہ بھی تھے مگر پی ٹی آئی کا لبرل طبقہ مخالف تھا جس کی وجہ سے بات نہ بن سکی ۔ وہ ایم ایم اے کو بحال کرنے کے بھی خلاف تھے میرے حلقے میں مولانا سرور مرحوم کے رمضان کے ایک پروگرام میں ضرور آتے۔ ایک مرتبہ میرے ساتھ گئے تو جوتا رکھنے کی جگہ نہ ملی رش تھا میں نے کہا آپ جائیں میں دیکھ لوں گا میں نے جوتا پکڑ کر شاپر میں ڈال لیا باہر نکلے تو جوتا نہ پا کر کہا بھئی جوتا پھر غائب؟ میں نے کہا نہ گھبرائیں پھر ان کو جوتا اپنے ہاتھوں پہنایا۔ جماعت کے لوگ بھی دیکھ رہے تھے انہوں نے باتیں بھی کیں مگر میں تقوی کی بنیاد پر ان کی قدر کرتا تھا جب امیر بنے تو میں ملنے کے لئے گیا کہا اب کیا کرنا چاہئے؟ میں نے کہا جیسے امریکہ ہمارے تمام معاملات میں حاوی ہو گیا ہے اس کے خلاف ہی بات کرنا چاہئے۔ مشرف دور تھا مگر پھر نہ جانے کب ملک میں انقلاب کے قائل ہو گئے کہ طالبان کا طریقہ ٹھیک ہے اس پر میرا ان سے اختلاف ہونا شروع ہوا امیر بننے کے بعد بھی میں جب بھی وقت مانگتا کہتے آجائو ۔ ابرار صاحب کا فون آجاتا کہ امیر صاحب نے بلایا ہے۔ ایل مرتبہ میں اور ہمارے ایک بزرگ لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ رضوان قریشی ان کے پاس گئے تو بڑی لمبی بات ہوئی ہمارا موقف تھا کہ آپ فوج کے خلاف بیانات نہ دیں اس سے جماعت اور فوج کو نقصان ہوگا مگر ان کی اپنی رائے تھی جس سے ہم اختلاف کرتے تھے ایک دن میں نے پھر بات کی میں نے کہا آپ دستور میں ترمیم کر لیں کہ انقلاب کے ذریعے انقلاب لانا ہے؟ کہنے لگے اگر زیادہ اعتراض ہے تو آپ الگ ہو جائیں، میں نے کہا ٹھیک ہے خدا حافظ …مجھے پتہ تھا کہ کچھ لوگ یہی چاہتے تھے خیر اپنی رائے کی قیمت تو ادا کرنا پڑتی ہے چناچہ منصورہ سے اپنا سامان اٹھایا اور آ گیا۔ جب امیر دوسری مرتبہ نہ بنے تو ملنے کے لئے گیا کہا کراچی جا رہا ہوں میں نے کہا جانا تو آپ کا بہت پہلے ٹھہر گیا تھا آپ کو بھی قیمت تو ادا کرنا تھی مگر افسوس ہے آپ کو ارکان نے ہرا دیا۔ منور حسن صاحب باہر دوروں پر جاتے جو تحائف ملتے وہ جماعت کو دے دیتے کہ یہ جماعت کی وجہ سے ملے ہیں ایک مرتبہ کھانے کا وقت ہو گیا کہنے لگے کھانا میرے ساتھ کھائو میں نے کہا ٹھیک ہے حاضر ہوا میں نے ایسے پوچھ لیا میں سید ہوں ؟کھانا صدقات کا تو نہیں ،کہنے لگے کھانے کا بل جیب سے ادا کرتا ہوں ہدیہ سمجھ کے کھالو …آخری ملاقات حافظ سلمان کے بیٹے کی شادی میں ہوئی بڑے تپاک سے ملے۔ جب بیمار تھے تو ان کو ملنے کراچی شباب ملی کے صدر صلاح الدین کے ساتھ منور صاحب کے گھر گئے ناظم آباد میں ایک فلیٹ میں رہتے تھے ایک بلا بھی پالا ہوا تھا ۔منور حسن صاحب ایسے تقوی سے بھرپور نیک قناعت پسند دلیر رہنما نہ جانے قوم کو کب نصیب ہوں گے ۔واجپائی کے آنے پر لاہور میں احتجاج ہوا قاضی صاحب کو قائل کر لیا یہ تو بہت برا ہو رہا ہے بڑا احتجاج ہوا نواز شریف کو اچھا نہ لگا اس نے جماعت کی تمام لیڈر شپ کو گرفتار کر ادیا۔کھانے میں دوا ڈال دی جس سے سب قیدیوں کے پیٹ خراب ہو گئے پھر مختلف جیلوں میں شفٹ کر دیا اب قیدیوں کی ویگن میں سب کے پیٹ خراب جس میں منور صاحب بھی شامل تھے بڑا کڑا وقت تھا مگر منور صاحب حوصلہ بڑھاتے حالانکہ خود بھی بیمار تھے ایسے افراد حوصلے جیسے پہاڑ اب چلے گئے ہماری آپا عائشہ نے بھی ان کا بھر پور ساتھ دیا اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے آمین غالب نے درست کہا
مقدور ہو تو خاک سے پونچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراماں کیا کئے ؟
منورحسن ، روشن عہد تمام ہوا
Jul 03, 2020