نئیں لبھنے لعل گواچے۔۔۔!

 3جولائی ، نِظام دین کی برسی کا دن ہے ۔ وہی نظام دین جوریڈیو کی پہچان اور ریڈیو کے مشہور پروگرام ’’جمہور دی آواز کی جان تھے۔ریڈیو، اور پاکستان ہم عمرہیں۔ یوں تو یہ ادارہ بہت پہلے وجود میں آ گیا تھا تاہم اسے تب آل انڈیا ریڈیو کہا جاتا تھا۔14اگست 1947‘‘کی رات ٹھیک بارا بجے ،مصطفی ہمدانی کے اس تاریخی ساعت میں ،پاکستان کی آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان نے اپنا سفر شروع کیا۔ اس وقت موقع پر جو اہم شخصیات موجود تھیں ان میں ایک شخصیت نظام دین کی بھی تھی جو بظاہر آج ہم میں نہیںمگر وہ عوام کے دلوںمیں آج بھی زندہ ہے۔ نظام دین اورریڈیو پاکستان ایک دوسرے کی پہچان تھے۔ نظام دین کانام سُنتے ہی دل کی تاریں بجنے لگتیںہیں۔ 15جنوری 1917کو وہ دن طلوع ہواجس دن امرتسر کے علاقے،’ اَٹاری شام سنگھ والی‘ کے ذیلدارکے گھرپنڈ’ مودے‘میں۔اس نصیبوں والے بچے نے آنکھ کھولی جس نے آگے جا کرزمانے کی آنکھیں کھولنا تھیں۔ والدین نے اس کا نام ’’ سلطان بیگ‘‘رکھا،۔۔لیکن انہیں شہرت’’نظام دین ‘‘کے نام نے دی ۔سلطان بیگ نے میٹرک اَٹاری سکول سے پاس کیا 1937میں امرتسر خالصہ کالج سے تعلیم مکمل کر کے دِلی چلے گئے۔وہاں ’ریاست ‘اخبار میں چھ آنے یومیہ پر نوکری کرلی۔ 1939میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو مرزا سلطان بیگ فوج میں چونتیس روپے مہینہ پر ’سٹورمنشی‘ مقرر ہوئے۔ جنگ ختم ہوئی تووہ محکمہ راشننگ میں ملازم ہو گئے۔ ’اُوم پرکاش‘ ریڈیو کے صدا کاراورانکے دوست تھے، انہوں نے ریڈیو اور عوام پر ایک بڑا احسان کیا۔1946میں۔ انہوں نے مشہور ڈراما ، فلم آرٹسٹ اور کہانی کار شیخ اقبال (جو ’’جمہور دی آواز ‘‘ میں، شہاب دین کا رول بھی کرتے تھے)کے ڈرامے ’نیت دا پھل‘ میں ایک نئی آواز متعارف کروائی،اس ڈرامے میں سلطان بیگ نے تھانیدار کا رول کیا،جس سے ان کی نیک نیت کو پھل لگا’اُوم پرکاش‘ نے سلطان بیگ کو اطلاع دی کہ ریڈیو کے دیہاتی پروگرام میں صدا کاروں کی ضرورت ہے تم اسٹیشن دائریکٹر سے ملو۔ وہ ریڈیو اسٹیشن پہنچے۔ان دنوں ’جے کے میہرا ‘(جُگل کشور میہرا)اسٹیشن ڈائریکٹرتھے۔ یہ سیدھے ان کے کمر ے میںگئے۔ پانچ روپے کا نوٹ نکال کر کہنے لگے’’ جموں کشمیرکا ٹکٹ یہیں سے ملے گا؟انہوں نے کہا ’’ لڑکے یہ بسوں کا اڈا نہیں‘‘۔ سلطان بیگ نے کہا’’باہر لکھا ہواہے ’’جے اینڈ کے‘‘ یعنی جموںاینڈ کشمیر ۔ ’جے کے میہرا‘ نے اندازہ لگایا کہ اس لڑکے میں ’’گُن‘‘ ہیں۔ پوچھنے لگے،’’تم کیا کرتے ہو؟انہوں نے جواب دیا کہ محکمہ راشننگ وچ ملازم ہوں ۔ جے کے میہرا نے کہا ’’تمہیں اڑھائی روپے روزانہ کے حساب سے 75 روپے مہینہ ملے گا۔۔لیکن پورے چار بجے آنا ہو گا۔۔۔ سلطان بیگ مسکرائے اور کہا۔۔۔’’میں کوئی کمیٹی دا نکا آں۔۔کسے ویلے بندہ لیٹ وی ہو جاندااے ‘‘یہ سن کر وہ مسکرائے اور کہنے لگے،’’بندے کام کے ہو، کل سے آ جاؤ‘‘۔ان دِنوںریڈیو پر طفیل فاروقی ’’فتح دین‘‘ اور اُوم پرکاش ’’رام داس‘‘ کے نام سے،دیہاتی پروگرام کرتے تھے۔سلطان بیگ نے خیراتی لعل ناگ بھاگ ، پیارے لال سود اوررحیم بخش ، عبداللطیف مسافر (چودھری صاحب) سلطان کھوسٹ ( نور دین)کے ساتھ کام شروع کیا۔ انہوں نے ان کا ’’نظام دین‘‘ رکھ دیا۔یوں مرزا سلطان بیگ آنیوالے وقت میں ’’نظام دین ‘‘ کے نام سے شہرت کی بلندیاں پر ایک روشن ستارے کی طرح جگمگانے لگے۔ان کا کرداران کی شخصیت پر ایسا غالب آیا ۔۔۔کہ ’’مرزا سلطان بیگ‘‘ کہیں دور۔۔۔پیچھے رہ گیا اور ’’نظام دین‘‘ عوام کے دلوں پر راج کرنے لگا۔ ’نظام دین‘ پنجاب کا جیتا جاگتا، چلتا پھرتا’’ انسائیکلوپیڈیا ‘‘ تھے ۔نظام دین بات سے بات نکالنے اور بات بنانے کا ’ فن‘جانتے تھے ۔ انکے سامنے کوئی موضوع ہوتا ، وہ فی البدیہہ بولتے جاتے اور اکثر سانس لینا بھی بھول جاتے َ۔نظام دین کی یادداشت بلا کی اور حاضر جوابی کمال کی تھی۔انہیں یہ سب وراثت میں ملا۔ وہ بڑے فخر سے کہا کرتے کہ ’’کوئی یہ فخر نہیں کر سکتا کہ وہ میرا استاد ہے‘‘۔انہوں نے 13 سال پنجابی ادب پڑھا، ہزاروں شعر اور اکھان انہیںزبانی یادتھے۔ جنگ ہو یا امن۔۔ ریڈیو نے اپنی بساط سے بڑھ کر کردار ادا کیا۔ یہاں نظام دین کی خدمات کو نہیں بھلایا جاسکتا۔ مجاہدوںکا لہو گرمانا ہویاان تک پیغام پہنچانا ہو ،یہ کام انہوں نے ایمانی اور قومی جذبے سے کیا۔ نظام دین ایک ایسا فنکار تھا جس کا کوئی بدل آج تک پیدا نہیں ہوسکا۔بڑے بڑے فنکار آئے اور چلے گئے مگرانکانعم البدل آج تک پیدا ہوا نہیں ہوسکا نہ ہو سکے گا۔کوئی نظام دین نام رکھ بھی لے تو وہ خوبیاں کہاں سے لائے گا جو ان میں تھیں؟دنیا بھر میں خوشیاں بانٹنے والا یہ فنکار،۔ صدا کاری کے جہان کا سلطان 03جولائی 1991کومنوںمٹی اوڑھ کر ایسی گہری نیند سویا جس سے آج تک کوئی نہیںجاگا۔۔۔۔’’نئیںلبھنے لعل گواچے، مٹی نہ پھرول جوگیا۔۔۔!

ای پیپر دی نیشن