آزاد کشمیر کیلئے نجی کمپنی ہوائی سروس شروع کرنے جا رہی ہے۔ قمر زمان کائرہ
وزیر امور کشمیر کی طرف آزاد کشمیر میں فضائی سروس شروع کرنے کی خبر سن کر ان لاکھوں کشمیریوں کو خوشی ہو گی جو ہوائی جہاز میں سفر کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ الحمد للہ اس وقت آزاد کشمیر میں جس طرح ڈالر ، پائونڈ اور روپے کی گنگا جمنا اور سرسوتی بہہ رہی ہیں۔ سردار قیوم سے لے کر موجودہ بیرسٹر سلطان محمود تک کی جمہوری و غیر جمہوری دور میں کرپشن اور لوٹ مار کو عروج ملا ہے۔ اس کے بعد تو صرف ایک نجی کمپنی نہیں کئی نجی فضائی کمپنیاں آزاد کشمیر کے منافع بخش روٹس پر پروازیں شروع کر کے اچھا خاصہ پیسہ کما سکتی ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ خود آزاد کشمیر کے ارب پتی سیاستدان بیورو کریٹس اور پاکستان و غیر ممالک میں رہنے والے کشمیری اپنی آزاد کشمیر ائیر لائن یا نیلم جہلم ائر لائن بنا کر یہ کام شروع کریں۔ مظفر آباد کے علاوہ راولا کوٹاور شاردا میں ہوائی اڈے بنائیں اس میں بھی کروڑوں روپے کمیشن کھانے کے وسیع مواقع ملیں گے۔ یوں جہاز بعد میں چلیں گے ، جہاز میں سفر کرنے والے پہلے پیدا ہو جائیں گے۔ خدارا کچھ تو کریں جس سے آزاد کشمیر میں ترقی کی راہیں کھلے ، جہاں آج بھی بارش برفباری کی صورت میں نیلم باغ ، کوٹلی ، کیرن، اٹھمقام جانے والی سڑکیں پانی میں برف کی طرح ہر سال گھل جاتی ہیں۔ مہینوں وہاں کے رہنے والے بیرونی دنیا سے کٹ کر رہ جاتے ہیں۔ اب خدا کرے ہوائی سروس شروع ہو۔ آزاد کشمیر کے لوگ بھی جہازوں کو اپنی فضا میں اڑتا دیکھ ’’لڑی شا‘‘ ( کشمیری زبان کا مزاحیہ ٹپہ) گنگنائیں:
آسمانی جہاز آئو ملک کشمیر
یم وچھ تیم کر توبہ تکسیر
ترجمہ آسمانی جہاز جب کشمیر میں آیا تو جس نے دیکھا وہ توبہ توبہ کرتا رہا۔
٭٭٭٭٭
مویشی منڈیوں میں سہولتوں کا فقدان۔ کروڑوں روپے ضائع ہو گئے
عیدالاضحی کے موقع پر ہر سال ملک بھر کی طرح لاہور میں بھی مویشی منڈیاں سجتی ہیں۔ جسے عرف عام میں ’’بکرامنڈی‘‘ کہتے ہیں۔ جدید نظام کے نام پر لاہور کو پاک و صاف رکھنے کے لیے ایک عشرہ قبل یہ منڈیاں شہر سے باہر منتقل کر دی گئیں تھیں۔
پہلے شہر کے ہر چوک پر بیویاری جابجا تمبو لگا کے بکروں بیلوں کا ریوڑ لے کر چارپائی بچھا کر حقہ پیتے بیٹھتے تھے جس کو ضرورت ہوتی وہ قریبی کیمپ سے جا کر جانور لے آتا۔ اب سگیاں، ٹھوکر ، بیدیاں اور نجانے کہاں کہاں مویشی منڈیاں بنا دی گئیں۔ جہاں کروڑوں روپے خرچ ہوئے مگر اس کے باوجود وہاں دستیاب سہولتوں کی بات کریں تو ندارد۔ لاہور شہر تو صاف ہو گیا مگر جانوروں مہنگے ہو گئے ان کے لائے جانے کے کرائے نے الگ مت مار دی ہے۔ ٹرانسپورٹر بھی بیوپاریوں کی طرح دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں ۔ ان مویشی منڈیوں میں پانی بجلی اور راستوں کا فائلوں میں تو ذکر ہے مگر حقیقت میں یہ موجود نہیں۔
ذرا بارش ہو تو مویشی منڈیاں کیچڑ سے بھر جاتی ہیں۔ صفائی کا بھی کوئی انتظام نہیں۔ جانوروں کے ڈاکٹروں اور ویکسینیشن کے علاوہ ادویات کا بھی شہرہ ہوتا ہے مگر یہ سب وہاں نظر نہیں آتے۔ بیوپاری بھی پریشان ہوتے ہیں کہ جانور بیمار ہو تو بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔ حکومت عید الاضحی کے موقع ان مویشی منڈیوں پر خاص توجہ دے تاکہ قربانی کے جانور خریدنے والے اور بیچنے والے اطمینان سے اپنا کام کر سکیں۔ اس کے علاوہ جو غیر قانونی مویشی منڈیاں قائم ہیں وہاں اس سے بھی ابتر صورتحال ہے ان کی بھی گوشمالی کی جائے۔
٭٭٭٭
پاکستان اور بھارت کے مابین قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ
دونوں ممالک کے درمیان اس فہرست کے تبادلے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں 682 بھارتی قید ہیں جن میں 633 ماہی گیر اور 49 عام شہری ہیں۔ بھارت میں 461 پاکستانی قید ہیں جن میں 345 شہری اور 116 ماہی گیر ہیں۔ یہ سب قیدی وہ ہیں جو انجانے میں سرحد پار کر کے ایک دوسرے کے علاقوں میں چلے جاتے ہیں اور دھر لیے جاتے ہیں۔ جان بوجھ کر کوئی شہری ایسی غلطی نہیں کر سکتا اور بہتر طریقہ تو ہے کہ ایسے عام شہریوں کو ابتدائی پوچھ گچھ کے بعد تسلی ہونے پر کہ یہ عام شہری ہیں دونوں ممالک سرحدی چیک پوائنٹس پر ایک دوسرے کے حوالے کر دیں۔ تاکہ ان لوگوں کے گھر والوں کو جو ان کی گمشدگی کی وجہ سے سخت اذیت کی زندگی بسر کرتے ہیں سکون مل سکے۔ یہی حال ماہی گیروں کا ہے جہاں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سمندر میں حدود کا تعین نہیں ہوتا اور غلطی سے ماہی گیر دوسرے ملک کی حدود میں چلے جاتے ہیں۔ ان کو بھی پوچھ گچھ کے واپس کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے پاکستان کے برعکس ان شہریوں اور مچھیروں کے ساتھ بھارت میں قید کے دوران جو سلوک ہوتا ہے اس کے تصور سے ہی جھرجھری آ جاتی ہے۔ انہیں اس قدر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ ہٹلر کی روح بھی شرما جاتی ہو گی۔ اس سلسلے میں عالمی قوانین اور انسانی حقوق کو بری طرح پامال کیا جاتا ہے۔ اگر دونوں ممالک اگر رحمدلی سے کام لیں تو ان قیدیوں کی واپسی آسان بنائی جا سکتی ہے۔ اس میں ہمارے ہی بے گناہ قیدیوں کا بھلا ہے پاکستان پھر بھی ان قیدیوں کے ساتھ نرمی اور حسن سلوک کا مظاہرہ کرتا ہے مگر بھارت سے کسی رحمدلی اور حسن سلوک کی تو امید ہی نہیں کی جا سکتی۔
٭٭٭٭
وزیر اعلیٰ کے متوقع انتخاب کے پیش نظر پنجاب اسمبلی میں پولیس کی بھاری نفری تعینات
ایسے ہی کسی موقع کی نسبت سے شاعر نے کہا تھا بلکہ خوب کہا تھا ’’وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا‘‘ تو صاحبوتمام تر حفاظتی انتظامات اور پولیس کی بھاری نفری اسمبلی ہال کے اطراف میں اور احاطے میں تعینات ہونے کے باوجود یہ اجلاس ہی نہیں سکا جس میں وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہونا تھا۔ گزشتہ 3 ماہ سے پنجاب کی سیاسی صورتحال نہایت ابتر ہے۔ ایک طرف پی ٹی آئی والے ق لیگ کے چودھری پرویز الٰہی کو شیر پنجاب بنا کر ان کی اوٹ میں مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں دوسری طرف مسلم لیگ نون والے پیپلز پارٹی کو ساتھ لے کر حمزہ شہباز کی کو شیر پنجاب بنا کر ان قیادت میں برسرپیکار ہیں۔ یوں تخت پنجاب ابھی تک خالی پڑا ہے اور چودھری پرویز الٰہی کی ’’گلیاں ہوون سنجیاں وچ مرزا یار پھرے‘‘ والی خواہش پوری نہیں ہو رہی اور حمزہ شہباز بھی ’’پنج ست مرن گواھانڈناں آدھیانوں تپ چڑھے‘‘ والی خواہش رکھتے ہیں۔ اب ان دنوں کی اس ٹسل کی وجہ سے اب یہ حالت ہو گئی ہے کہ سینئر سیاستدان رضا ربانی بھی شدت کرب سے چیخ اٹھے ہیں کہ’’ آج ہم ایسی نہج پر آ چکے ہیں ایوان بالا یعنی پارلیمنٹ کی کارروائی عدالتی لائنز پر چل رہی ہیں‘‘ سچ بھی یہی ہے کہ سیاسی جماعتوں کی باہمی جنگ میں صوبائی اور قومی اسمبلی کی خودمختاری بے معنیٰ ہو گئی ہے اور سیاسی جماعتوں کی جو جگ ہنسائی ہو رہی ہے وہ الگ ہے۔ اس بے وقاری کا علاج اب شاید ہی ہو سکے۔
٭٭٭٭٭