حبیب جالب: جہدِ مسلسل کی علامت (آخری قسط)

Jul 03, 2022

1976ء کے قومی انتخابات میں تمام اپوزیشن پارٹیاں بھٹو کے خلاف متحد ہو گئی تھیں تاہم بھٹو کی مقبولیت مناسب حد تک برقرار تھی۔ اپوزیشن پارٹیوں کا اندازہ یہ تھا کہ حکومتی ذرائع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے باوجود بہت سخت مقابلہ ہوگا اور اپوزیشن پارٹیاں بہرحال چند نشستیں زیادہ لے جائیں گی مگر الیکشن میں اتنی دھاندلی ہوئی کی الیکشن سے قبل ہی بیس کے قریب نشستیں بلا مقابلہ پیپلز پارٹی کے قبضے میں آ گئیں۔ کئی مقابلے میں آنے والوں کو کاغذات جمع کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کے دفاتر تک پہنچنے نہیں دیا گیا۔ چنانچہ فوراً بعد ہونے والے صوبائی انتخابات کا اپوزیشن نے بائیکاٹ کر دیا اور بھٹو کے خلاف ایک زور دار تحریک چلا دی۔ تحریک کو دبانے کے لیے ہر قسم کے حربے آزمائے گئے مگر اس میں مزید شدت پیدا ہوتی چلی گئی۔
حالات اس نہج تک پہنچ گئے کہ سول وار کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ کئی شہروں میں جلسے جلوس روکنے کے لیے کرفیو لگانا پڑا۔ پولیس اور فیڈرل سکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) کے ذریعے زبردست تشدد کیا گیا اور کئی جانیں گئیں۔ پہلے پیپلز پارٹی یہ کوشش کرتی رہی کہ اپوزیشن جزوی ضمنی الیکشن پر راضی ہو جائے۔ مجھے یاد ہے کہ ان کوششوں کے سلسلے میں ادیبوں کو ہموار کرنے کے لیے بشیر ریاض کو بھی لندن سے بلایا گیا جو بیگم نصرت بھٹو کے سیکرٹری تھے۔ انھوں نے پاک ٹی ہاؤس میں اس مسئلے پر ادیبوں سے نشستیں کیں۔ میرے ساتھ ایک مختصر نشست میں انھوں نے یہ اعتراف کیا کہ بیس پچیس سیٹوں پر گڑ بڑ ہوئی ہے۔ ان پر دوبارہ الیکشن ہو جائیں مگر حالات پر قابو نہ پایا جا سکا۔ آخر تنگ آ کر بھٹو نے اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں سے اس مسئلے پر مذاکرات کا آغاز کیا۔ کہا جاتا ہے کہ افہام و تفہیم سے مسئلہ حل ہونے والا تھا مگر میرے خیال میں واقعات اس کی تائید نہیں کرتے تھے۔ مذاکرات کو بیچ میں چھوڑ کر بھٹو چند دن کے لیے بیرونِ ملک چلے گئے۔ یہ ان کی بھاری غلطی تھی۔ پوری قوم کی نظریں مذاکرات کے نتیجے پر لگی ہوئی تھیں۔
اس تعطل کی وجہ سے لوگ بہت مایوس ہوئے اور اسی وجہ سے فوج کو آنے کا موقع مل گیا۔ بہت سے اہم لیڈروں کو کچھ عرصے کے لیے گرفتار کر لیا گیا جن میں بھٹو بھی تھے۔ یہاں بھٹو نے اپنی جوشیلی طبیعت کی وجہ سے ایسا تاثر دیا کہ وہ دوبارہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد ان لوگوں کا مواخذہ کریں گے۔ ایسے معاملات میں نواز شریف کئی موقعوں پر زیادہ دانا ثابت ہوئے ہیں۔ کاش بھٹو بھی ایسا ہی کرتے۔ جنرل ضیاء الحق جلد جانے کے لیے تو نہیں آئے تھے اور دنیا کی مقتدر قوتوں کو افغانستان کی جنگ کے لیے پاکستان کی ضرورت تھی اس لیے بھٹو کو احمد رضا قصوری کے والد محمد احمد قصوری کے قتل کی ایک پرانی ایف آئی آر پر گرفتار کر لیا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ چل پڑا۔ پیپلز پارٹی کے بعض ورکروں نے بڑی بہادری دکھائی۔ پولیس تشدد برداشت کیا۔ کوڑے کھائے۔ خودسوزی بھی کی مگر مارشل لاء حکومت کا مقابلہ اس طرح تو نہیں کیا جا سکتا۔
چونکہ حبیب جالب بھٹو کے زخم خوردہ تھے۔ اس لیے وہ پہلے تو خاموشی سے یہ سب کچھ دیکھتے رہے۔ ایک دن پاک ٹی ہاؤس میں جالب اور میں بیٹھے تھے کہ پیپلز پارٹی کے چند ورکرز آ گئے اور جالب سے کہنے لگے کہ تم نے ہر ظالم حکومت کی مخالفت کی ہے۔ اب خاموش کیوں بیٹھے ہو؟ جالب نے بڑے تحمل سے جواب دیا، ’میں بھٹو رہائی کمیٹی کا ممبر نہیں بن سکتا۔ جمہوریت کی بحالی کے لیے نکل سکتا ہوں۔‘ وہ لوگ چلے گئے تو جالب نے مجھے کہا، ’اب کوڑے لگتے ہیں، ان کے دور میں گولیاں لگتی تھیں۔‘ مگر جلد ہی جالب ضیاء الحق حکومت کے خلاف میدان میں آ گئے۔ افغانستان جنگ میں وہ پاکستان کے کردار کے خلاف تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس جنگ کی وجہ سے بالآخر پاکستان کو بہت نقصان ہوگا۔ اس لیے انھوں نے ضیاء حکومت کے خلاف بھی بڑی سخت نظمیں لکھیں۔ اس زمانے کی ایک نظم جو بہت مشہور ہوئی اور روایت یہ ہے کہ ضیاء الحق کو بہت ناگوار گزری، یوں شروع ہوتی ہے:
ظلمت کو ضیا ء ، صر صر کو صبا ، بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر ، دیوار کو در ، کرگس کو ہما کیا لکھنا
ایسی ہی کئی نظمیں اور بھی لکھیں۔ گزشتہ آمروں کے ادوار کی طرح اس دور میں بھی جالب کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس نے جیل میں ایک نظم لکھی:
دوستو جگ ہنسائی نہ مانگو
موت مانگو، رہائی نہ مانگو
نظم لوگوں تک پہنچ گئی۔ اس پاداش میں جالب کو بدنامِ زمانہ میانوالی جیل بھیج دیا گیا۔ پھر ضمانت ہو گئی۔ انھی دنوں وہ مشہور ریفرنڈم ہوا جس میں پوچھا گیا تھا کہ آپ اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے تھے؟ اور ہاں کی صورت میں ضیاء الحق پانچ سال کے لیے صدر منتخب ہو جائے گا۔ میں نے خود لاہور میں گھوم پھر کر مختلف پولنگ سٹیشنوں پر ہونے والی تمام کارروائی دیکھی۔ پرچی ڈالنے والے نہ ہونے کے برابر تھے البتہ ٹی وی پر دکھایا جا رہا تھا کہ لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں ووٹ ڈال رہی ہیں۔ اس ریفرنڈم پر جالب نے مشہور نظم لکھی:
شہر میں ہُو کا عالم تھا
جن تھا یا ریفرنڈم تھا
ضیاء الحق کے دور میں سپریم کورٹ کے ایک منقسم فیصلے پر بھٹو کو پھانسی دیدی گئی مگر بھٹو کے دور میں شدید ابتلا سے گزرنے کے باوجود جالب اس فیصلے کے خلاف تھا۔ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تو جالب اسے انتباہ کرنے کے لیے نظمیں لکھتے رہے لیکن بے نظیر کا رویہ جالب کے ساتھ بہتر رہا۔ اس کا پاسپورٹ جو مختلف حکومتوں نے سال ہا سال ضبط کیے رکھا تھا، بحال کر دیا گیا۔ جالب اعتراف کرتے ہیں کہ اس کا کریڈٹ اعتزاز احسن کو جاتا ہے۔ اس کے بعد انھیں بھارت کے علاوہ بہت سے بین الاقوامی مشاعروں میں کلام سنانے کا موقع ملا اور ہر جگہ بہت پذیرائی ہوئی مگر اب آمروں کے خلاف طویل جدوجہد کے نتیجے میں ان کی صحت جواب دے گئی تھی۔ زندگی کے آخری چند سال انھوں نے مسلسل بیماریوں میں کاٹے۔ پاکستان کے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج رہے۔ 1992ء میں کرامویل ہسپتال لندن سے بھی ایک ماہ علاج کرایا مگر بقول ابنِ انشا اب عمر کی نقدی ختم ہو گئی تھی۔ پاکستان واپس آ گئے اور 13 مارچ 1993ء کی رات شیخ زاید ہسپتال میں وفات پائی۔ 
جالب اگر شاعری میں عوام کی خوشحالی کا مشن نہ اپناتے تو وہ مشاعروں کے بہت کامیاب شاعر ہوتے۔ آسان، عام فہم، رومانی شاعری اور اس پر مستزاد انتہائی خوبصورت ترنم، وہ دوسرے جگر مراد آبادی بن جاتے۔ انھیں مشاعروں سے اتنا اعزازیہ مل جاتا کہ خوشحال زندگی گزارتے۔ ان کا کنبہ آرام سے گزر بسر کرتا۔ علاوہ ازیں، ان کے لیے فلمی گیت نگاری کا راستہ بھی کھلا تھا۔ انھوں نے کئی کامیاب گیت لکھے۔ اس سلسلے میں بھی انھیں بہت پذیرائی ملی۔ یہ راستہ اختیار کرتے تو دوسرے شکیل بدایونی یا قتیل شفائی ہوتے مگر انھوں نے ایک کٹھن راستے کا انتخاب کیا۔ اس طرح کوئی مفلوک الحال شخص کبھی عروج پر نہیں پہنچا اور جب تک کوئی طاقت کے سرچشموں پر قابض نہ ہو وہ ملک، قوم اور عوام کے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ جالب عوامی جمہوریت کے لیے کوشاں رہے۔ ان کی شدید خواہش رہی کہ غریب عوام کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوں، لوگوں کو اچھی تعلیم دی جائے، انصاف ملے، روزگار مہیا کیا جائے، ایسی مساوات ہو کہ زیادہ اونچ نیچ ختم ہو جائے۔ اس مشن کے لیے انھوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ ان کی ایک مشہور نظم ہے ’پاکستان کا مطلب کیا؟‘ یہ نظم ان کا منشور ہے۔ وہ اس مقصد کو حاصل کرنے میں اسی طرح ناکام رہے جیسے بہت سے دیگر انقلابی شعرائ۔ کاش تاریخِ پاکستان پر کوئی سچی فلم بنے اور اس میں اس نظم کے چند بند عوامی ترانے کے طور پر کورس کی شکل میں شامل کیے جائیں۔ قومی ترانہ بہت ضروری لیکن یہ عوامی ترانہ ہمارے عوام کو یقینا بیدار کرے گا۔
روٹی کپڑا اور دوا
گھر رہنے کو چھوٹا سا
مفت مجھے تعلیم دلا
میں بھی مسلماں ہو واللہ
پاکستان کا مطلب کیا
لا الہ الا اللہ

مزیدخبریں