سپریم کورٹ کا پنچائتی فیصلہ

Jul 03, 2022

 رجیم چینج کی جب سے کارروائیوں کا آغاز ہوا ہے بحران تھمنے کا نام نہیں لے رہے۔ معاملات کو چلانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے بلکہ آوٗٹ آف دی وے سپورٹ کی جا رہی ہے لیکن حالات کنٹرول میں نہیں آ رہے۔ اس پیدا شدہ بحران کے اصل حل کے بارے میں بھی سب کو احساس ہے اس کا ذکر عدالت عظمیٰ کے معزز چیف جسٹس صاحب نے بھی اپنی آبزرویشن میں کیا لیکن یار لوگوں کو کچھ اور مطلوب ہے۔ سارے سٹیک ہولڈرز معاملات میں الجھ کر بری طرح پھنس کر رہ گئے ہیں ۔معاملہ بقا اور اناوٗں کا بن چکا ہے۔ جس کے نتیجے میں طرح طرح کے بحران جنم لے رہے ہیں۔ بہرحال ہمیں انہی بحرانوں کیساتھ زندگی گزارنی ہے۔ سپریم کورٹ کے پنجاب کے حوالے سے فیصلہ پر طرح طرح کے تبصرے ہو رہے ہیں۔ جید دانشور اور وکیل بھی اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ کیا سپریم کورٹ کو ایسا کرنا چاہیے تھا یا نہیں۔  لیکن میری نظر میں سپریم کورٹ نے زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر شاندار فیصلہ دیا ہے جسکے دور رس اثرات مرتب ہونگے۔ اس سے چار ماہ سے جاری آئینی اور سیاسی بحران میں کسی حد تک کمی آئیگی لیکن اصل معاملہ سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ حالات کو کس طرف لیکر جاتے ہیں سپریم کورٹ نے ایک بار سیاستدانوں کی ثالثی کروا دی ہے آگے سیاستدانوں کو ہمت اور حوصلہ کرنا چاہیے اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہتری کا راستہ نکالنا چاہیے۔
 یہ بھی حقیقت ہے کہ عدالتوں کے بعض ناقص اور تاخیری فیصلوں نے مسائل پیدا کیے 163Aبارے صدارتی ریفرنس پر اگر بروقت فیصلہ آجاتا تو بہت سارے مسائل پیدا ہی نہ ہوتے۔ اسی طرح جب پنجاب اسمبلی میں وزارت اعلی کے انتخاب پر پیدا کیے جانے والے ماحول کا نوٹس لیا ہوتا تو کشیدگی اس حد نہ بڑھتی بلکہ اگر وفاداریاں تبدیل کرنے بارے عدالتی حکم پہلے آجاتا تو 25 ارکان صوبائی اسمبلی اپنی وفاداریاں تبدیل نہ کرتے اور حمزہ شہباز شریف کسی صورت وزیر اعلی نہ بن سکتے لیکن شاید سسٹم کو یہ منظور نہ تھا اسے سیاسی انجینئرنگ کہیں، مینجمنٹ کہیں یا قدرتی طور پر پیدا ہونیوالے حالات کہیں اگر پنجاب اسمبلی کے 25 ارکان آج ایوان میں موجود ہوتے تو پھر بھی حمزہ شہباز کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ ایسے حالات میں الیکشن کمیشن نے 25 ارکان کو ڈی سیٹ کرنے میں تو منٹ نہ لگایا لیکن 5 مخصوص نشستوں پر نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے کیلئے آخری حد تک گیا بلکہ عدالتی حکم کے باوجود تاخیری حربے استعمال کیے ۔
موجودہ حالات میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ جس میں فوری طور پر وزیر اعلی کا دوبارہ الیکشن کرانے کی بجائے پرانے الیکشن میں 25 ووٹ منہا کر کے رن الیکشن کروانے کا حکم دیا گیا تھا ۔ عدالت نے یہاں تک پابند کر دیا کہ فیصلہ کے اگلے روز اسمبلی کا اجلاس بلوایا جائے اور اس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک سیکنڈ پول نہ ہو جائے اور اگلے روز 11بجے گورنر پنجاب وزیر اعلی سے حلف لیں۔ساتھ ہی یہ بھی عدالتی پابندی لگا دی گئی کہ اگر ایوان کے اندر کسی نے احتجاج کیا اور ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی تو سکے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو گی۔ اگر ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اسمبلی کا اجلاس منعقد ہو جاتا تو پھر دوسرے فریق کے پاس یہی راستہ بچتا تھا کہ یا تو وہ بائیکاٹ کر کے ایوان سے باہر چلے جاتے یا پھر ایوان کی کارروائی نہ چلنے دیتے اور ایسی صورت میں اتنی بڑی تعداد میں اراکین اسمبلی کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی ایک نئے بحران کو جنم دیتی۔ پنجاب کی وزارت اعلی کا انتخاب پہلے ہی متنازعہ تھا یہ مزید متنازعہ ہو جانا تھا ۔سپریم کورٹ نے نہایت دانشمندی سے کام لیتے ہوئے فوری کارروائی کی۔ اسمبلی کے اجلاس کو رکوایا اور ایک قابل قبول حل نکالا لوگ اس میں بھی کیڑے نکال رہے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ عدالت نے کتابی فیصلہ کی بجائے حقیقی فیصلہ کیا ہے۔ بالفرض اگر عدالت دوسرے فریق کو دس بارہ دن کا وقت بھی دے دیتی تو یہ بحران برقرار رہنا تھا جب تک ضمنی انتخاب کے بعد ایوان مکمل نہ ہوتا اس وقت تک کوئی بھی فیصلہ موثر ثابت نہیں ہو سکتا تھا ۔عدالت نے اس کا مستقل حل نکالا اور ضمنی الیکشن کے بعد تک کا وقت دے دیا اس کیلئے فریقین کو بھی سمجھوتہ کرنا پڑا۔ اب پنجاب کے اقتدار اور مستقبل کی سیاست کا فیصلہ 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن نے کرنا ہے۔ فریقین کیلئے یہ الیکشن زندگی اور موت کا مسئلہ ہے جو جماعت ضمنی الیکشن میں اکثریت حاصل کرلے گی وہ پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیگی اگر تو موجودہ سسٹم کو چلانا ہے تو پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت ضروری ہے اگر ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف فیصلہ کن اکثریت لے جاتی ہے اور اسکے نتیجے میں چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلی پنجاب بن جاتے ہیں تو پھر وفاقی حکومت کا چلنا مشکل ہو جائیگا کیونکہ موجودہ وفاقی حکومت ساری طاقت پنجاب سے لیتی ہے۔ اگر مسلم لیگ ن کو پنجاب میں حکومت نہیں ملتی تو وفاق کی کسی اکائی میں ان کی حکومت نہیں ہو گی اور میاں شہباز شریف کی حکومت چند وفاقی محکموں تک محدود ہو کر رہ جائیگی، ۔ اب پاکستان کی ساری سیاست کا فوکس پنجاب کے ضمنی الیکشن ہیں ان انتخابات میں اربوں روپے کا سرمایہ خرچ ہو گا اثر ورسوخ بدمعاشی جوڑ توڑ پولیس انتظامیہ کا کردار ہر حربہ استعمال ہو گا اور عین ممکن ہے کہ ان ضمنی الیکشن میں کشیدگی اس حد تک بڑھ جائے کہ الیکشن ملتوی کرنے پڑیں۔

مزیدخبریں