احمد ریاض، بڑا شاعر، عظیم انسان

Jul 03, 2022

 احمد ریاض اسی معاشرے کا ایک فرد تھا اور وہ خود زندگی بھر معاشرتی ستم رانیوںکا نشانہ بنتا رہا۔ اسکے اشعار میں بھی اپنی ستم رانیوں کی تلخی بھری ہوئی ہے۔ وہ ایک شاعر تھا، شاعر کا آبگینۂ دل پہلے ہی بڑا نازک ہوتا ہے اور جب اسے شعر و ادب کی بجائے کسی مل کی چار دیواری میں اینٹ اور گارا اٹھانے کی مشقت کرنا پڑے اور ان آزمائشوں سے گزرنے کے بعد بھی اسے روٹی میسر نہ آئے اور اطمینان کا سانس نصیب نہ ہو تو اس سے اشعار کے ذریعے داستانِ لب و رخسار سننے کی توقع وابستہ رکھنا عبث ہے۔
احمد ریاض لدھیانہ میں پیدا ہوئے، ان کے والد شیخ ممتاز احمد ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں سپرنٹنڈنٹ تھے۔ آپ نے بہت کم باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ بچپن ہی سے شعر کہنے شروع کردیے تھے اور باقاعدہ تعلیم کی کمی اور کم عمری کے باوجود ان کے ابتدائی اشعار کی پختگی پر لوگوں کو حیرانی ہوتی تھی۔ احمد ریاض جن کا اصل نام ریاض احمد تھا شروع میں جگر قریشی کے نام سے بھی لکھتے رہے مگر بعد میں انہوں نے ’احمد ریاض‘ نام اختیار کرلیا۔ احمد ریاض مرحوم اپنی حساس طبیعت اور نازک طبعی کی وجہ سے بچپن ہی سے پریشاں حال رہے۔ ان کے اشعار سے ان کے جذبات کی شدت اور احساس کی نزاکت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کی پُوری زندگی کش مکش اور غم دوراں میں گذرتی ہے۔ قیام پاکستان سے قبل انہوں نے اچھے دن نہ دیکھے اور قیام پاکستان کے بعد بھی انہیں آسودگی نصیب نہ ہوسکی۔ تقسیم ہند سے پہلے انہوں نے دکن کی آزادی کی تحریک میںسرگرم اور پُرجوش حصہ لیا۔ قحط بنگال کے موقع پر احمد ریاض نے معرکے کی کئی نظمیں لکھیں۔ تقسیم کے بعد احمد ریاض لاہور میں مقیم ہوگئے پھر منٹگمری (حالیہ ساہیوال) چلے گئے اور وہاں سعادت حسن منٹو اور منیر نیازی کے پرچے ’سات رنگ‘ میں لکھتے رہے۔ ’چھٹا دریا‘ ’خانقاہیں‘ اور ’جواب دو‘ منٹگمری کے قیام کے دوران کہی گئیں۔ احمد ریاض کو منٹگمری میں بھی مناسب ذریعہ معاش نہ مل سکا اور وہ کراچی چلے گئے۔ کمزور اور ناتواں احمد ریاض کو جسم و روح کا رشتہ استوار رکھنے کے لئے یہاں پر مشقت اور محنت کرنا پڑی لیکن یہاں بھی انہیں معاش کا کوئی معقول ذریعہ نہ مل سکا اور وہ مایوس ہو کر بھلوال ضلع سرگودھا میں اپنے ایک دوست کا سہارا لینے پر مجبور ہوگئے۔ جب وہاں بھی اطمینان نصیب نہ ہوا تو چک جھمرہ چلے گئے جہاں ان کے خاندان کے دوسرے افراد رہائش پذیر تھے۔ چک جھمرہ میں قیام کے دوران انہوں نے لائل پور میں کاروبار کے لئے ہاتھ پائوں مارے۔ لائل پورسے اپنے ایک دوست رانا الطاف احمد کے اشتراک سے روزنامہ ’’ہمارا پاکستان‘‘ جاری کیاجو تین ماہ سے زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکا۔ پھر ماہنامہ ’’قلمکار‘‘ کی ادارت سنبھالی مگر مزاج کا اختلاف رکاوٹ بنااور یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ اور بالآخرانہوں نے مقامی روزنامہ ’’غریب ‘‘میں بطور اسسٹنٹ ایڈیٹرملازمت حاصل کرلی۔ ملازمت کا یہ سلسلہ ان کی مہلک بیماری تک جاری رہا۔ روزنامہ ’’ غریب‘‘ میں ملازمت کے دوران احمد ریاض بارہ بارہ گھنٹے کام کرتے رہے، اپنے کنبہ کا پیٹ پالنے کے لئے انہیں روزی کے دوسرے ذرائع بھی تلاش کرنا پڑے۔ وہ روزنامہ ’’امروز‘‘ کو لائل پور کی خبریں بھیجتے اور شب و روز کی پریشان حالی سے جو کچھ میسر آتا اس سے اپنے بال بچوں کی روٹی کا بندو بست کرتے۔ احمد ریاض مشاعروںمیں بہت کم شریک ہوتے تھے۔ لائل پور میں قیام کے دوران وہ کلچرل ایسوسی ایشن کے شعبہ ادب کے جنرل سیکرٹری کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ 
دن رات کام کرنے سے احمد ریاض کی صحت خراب ہوگئی اور بالآخر وہ تپ دق ایسے موذی مرض میں مبتلا ہوگئے۔ اس مرض نے ایسا گھر کیا کہ احمد ریاض کو روزنامہ ’’غریب‘‘  کی ادارت چھوڑنا پڑی اور اس طرح ان کی آمدنی کا آخری ذریعہ بھی ختم ہوگیا۔ ان کے بعض خیر خواہوں نے ان کی بیماری کی خبر سنی تو اس عظیم شاعر کی حتّی المقدور مدد کی مگر ان کی مدد علاج معالجہ کی بجائے غریب ریاض کے کنبہ کی کفالت پر اٹھتی رہی اور 28 دسمبر1958 ء کو برصغیر ہند و پاکستان کا یہ معروف شاعرعلاج معالجہ کی سہولتوں سے محرومی اور اپنے ہم وطنوں کے عدم التفات کا ماتم کرتے ہوئے راہیٔ ملک عدم ہوا۔ آہ ! موت کے بے رحم ہاتھوں نے ایک نوعمر بیوی کا سہاگ لوٹ لیا، ایک کم سن بچی یتیم ہوگئی اور اردو ادب اپنے ایک ذہین و باشعور فنکار سے محروم ہوگیا۔ احمد ریاض کو چک جھمرہ میں سپرد خاک کیا گیا، ان کے جنازہ میں بہت کم لوگ شریک ہوئے۔
احمد ریاض بحیثیت انسان بہت بلند مقام رکھتے تھے، میرے ان کے ساتھ نیاز مندانہ مراسم تھے۔ ان سے میری پہلی ملاقات دفتر ’’غریب‘‘ میں ہوئی تھی۔ وہ بچوں کے صفحہ کے نگران تھے اور اس صفحہ پر میرے بھیجے ہوئے لطائف اور کہانیاں شائع ہوتی تھیں، میں نے احمد ریاض کو بچوں کے اجلاس میں شرکت کیلئے لائل پور سے ٹوبہ ٹیک سنگھ آنے کی دعوت دی۔ انہوں نے پہلے تو اپنی مصروفیت کا ذکر کرکے معذرت چاہی مگر میرے اصرار اور بھائی کفایت علی خان کی سفارش پر یہ دعوت قبول کرلی۔ وہ اس اجلاس میں شریک ہوئے اور بچوں کو بڑے مفید مشورے دیے۔ احمد ریاض صاحب سے روابط کا یہ سلسلہ ان کی زندگی کے آخری ایام تک قائم رہا۔ انہوں نے وقتاً فوقتاً میری ابتدائی تحریروں کی غلطیوں کی نشان دہی کی اور مفید مشورے دیے اور میری جو تحریر انہیں پسند آتی ہمیشہ بڑی فراخ دلی سے اس پر اظہار پسندیدگی کیا۔ 1958ء کے آغاز میں ایک مرتبہ میں احمد ریاض سے ملنے کے لئے دفتر ’’غریب‘‘ گیا۔ مجھے یہ سن کر بے حد تشویش ہوئی کہ ریاض صاحب اپنی علالت کے باعث دفتر نہیں آرہے۔ مجھے اندازہ تھا کہ ان کی علالت ان کے لئے مزید اقتصادی پریشانیوں اور الجھنوں کا باعث بن رہی ہوگی۔ چنانچہ میں نے احمد ریاض سے ملاقات کے لئے چک جھمرہ جانے کا قصد کیا۔ چک جھمرہ پہنچنے پر احمد ریاض کا مکان تلاش کرنے میں کافی دشواری پیش آئی۔ غالباً انہیںوہاں ان کے اعزہ اور مقامی نیوز ایجنٹ کے علاوہ اور کوئی نہ جانتا تھا۔ بہر حال مجھے بھی اس نیوزایجنٹ ہی سے رہنمائی ملی اور میں ان کے مکان تک پہنچ گیا، دستک دی، دروازہ کھلا اور ریاض صاحب نے اپنی روائتی سنجیدگی سے، جو ان کے مزاج کا خاصہ بن چکی تھی، خیر مقدم کیا۔ (جاری) 

مزیدخبریں