ایک واٹس ایپ گروپ میں اٹھائیس سیکنڈ پرمشتمل ویڈیوکااشتراک کیاگیا۔ویڈیو ایک انتہائی معروف و معزز موٹیویشنل سپیکر کی تقریر کے تراشے پر مبنی تھی۔ویڈیو دیکھنے اور سننے کے بعد مجھے شدیدافسوس ہوا کہ نوجوانوں کی ذہن سازی کی ذمہ داری کے دعوے داربلاتحقیق ونظرغائر اپنے من کی بات کر گزرتے ہیں۔ خواہ سننے والے پر مثبت کی بجائے منفی اثر ہی کیوں نہ ہو۔ویڈیو کے ابتدا ئی الفاظ کچھ یوں ہیں۔’’جنہیں سپورٹ ملتی ہے،وہ ترقی نہیں کرتے۔ وہ چُوچے بن جاتے ہیں۔ جنہوں نے اڑنا ہوتا ہے اور جنہوں نے فلائی کرنا ہوتا ہے،جنہوں نے آسمان کی بلندیاں دیکھنی ہوتی ہیں، انہیں کوئی سپورٹ نہیں ملتی۔اگر سپورٹ بہت ہی ضروری ہوتی تو دنیا کے سارے بڑے بڑے نبی ،رسول، پیغمبروں کو اللہ تنہا نہ کر دیتا۔اللہ انہیں اکیلا کرتا ہے اور اسکے بعد کہتا ہے میں تمہارے ساتھ ہوں۔
موٹیویشنل سپیکر کا کام سامعین کی تخلیقی قوتوں کو متحرک کرنا ہوتا ہے۔گویا استاد نے جو پڑھایا اس کو عملی شکل دینے پر اُکسانا ہوتا ہے۔اگر ایسا خطیب وسیع مطالعہ رکھتا ہوگا،زندگی کو اسکے مختلف پہلوئوںسے دیکھنے کی عمیق نظرکاحامل ہوگااورکامیابی اور ناکامی کے فلسفہ سے آشنا ہوگاتو اس کی گفتگو مایوسی اور نا امیدی کے اندھیروں میں حوصلہ و لگن اور تحریک کاچانن ثابت ہوگی لیکن دوسری جانب اگر وہ صرف اپنے فنِ گفتگو سے لوگوں کی سماعتوں میں رس گھولنے کو ہی اپنی کامیابی سمجھے گا تو بھلے اسکی بات بات پر’’ واہ واہ ،کیا کہنے ،کیا کہنے‘‘ جیسے حروف ستائش تواس تک پہنچ جائیں گے۔ لیکن عملی طور پر حاضرین کی حالت اس شخص جیسی ہو گی جو ایک شعلہ بیان مقرر کی تقریر سننے کے بعد جلسہ گاہ سے لوٹ رہا تھا۔میں نے پوچھا،’’بھائی، مولانا صاحب کا خطاب کیسا رہا؟‘‘ کہنے لگا،’’کیا پوچھتے ہو،مولانا صاحب کے خطاب کی بات!میں نے زندگی بھر اتنے جوش وولولہ سے بھرپور خطاب نہیں سنا‘‘۔میں نے کہا، ’’مولانا صاحب نے خطاب میں جو دو چار اہم باتیں بتائی ہیں،مجھے بھی ان سے مستفیض کیجیے‘‘۔اس پر وہ تھوڑا جھینپ سا گیا اور کہنے لگا، اس طرح میں ان کی باتیں تو نہیں بتا سکتا ،لیکن انہوں نے جو بات بھی کی،بڑی دلیل اور تفصیل سے کی‘‘۔
اگر یہ کہا جائے کہ ہمارا معاشرہ طالع آزمائوں کا معاشرہ ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ ہرطالع آزماجانتا ہے کہ ہمارے لوگ ریوڑ میں چلنے والی بھیڑوں کی طرح اگلی بھیڑ کے پیچھے سر جھکائے، نظریں اسکے ٹخنوں پر رکھے،ا پنے شعور کو استعمال میں لائے بغیر دہائیوں سے یونہی چلے آرہے ہیں۔یہ طالع آزما کبھی سیاستدا ن کے روپ میں، کبھی شعلہ بیان مقرر،کبھی مذہبی پروہت،پیر،حکیم یا کسی اور لبادہ میں انتہائی چابکدستی سے اپنے حصول مطالب کیلئے انہیں تختہ مشق بناتے آرہے ہیں۔زمانہ موجود میں طالع آزمائوں کی فہرست میں موٹیویشنل سپیکرز کا اضافہ ’’ہوا کا تازہ جھونکاہے۔‘‘چند ایک کو چھوڑ کر اکثریت’’کہانی بازوں‘‘پر مشتمل ہے،جو مختلف زبانوں اور قوموں کی کتابی کہانیوں کے ترجمے لہک لہک کر حاضرین کے سامنے اس مہارت سے پیش کرتے ہیںکہ مجمع میں بیٹھے ہوئے اعلیٰ تعلیمی اداروںکے سربراہان، سرکاری ،نیم سرکاری و نجی شعبوں کے مقتدر لوگ سماعتوں کا نذرانہ عقیدت سے پیش کرنے میں عام لوگوں سے قطعاً پیچھے نہیں رہتے۔شاید سقراط کے زہرکا پیالہ پی لینے کے وقت سے لوگ سوال کرنے سے خوفزدہ چلے آرہے ہیں۔لہٰذا مجمع میں سے کوئی بھی سوال کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔بولنے والا واہ واہ سمیٹے، جیب میں لفافہ ڈالے، ہوا میں ہاتھ لہراتے، گاڑی میں بیٹھ کر ،انکی نظروں کے سامنے کسی نئی منزل کی جانب گامزن ہو رہا ہوتا ہے۔موٹیویشنل سپیکر کے فرائض منصبی میں تین باتیں بہت اہم ہیں۔سبق آموز واقعات بیان کرنا، زمانہ حال کیلئے تفریح طبع کاسامان پیدا کرنا اور مستقبل کیلئے رویوںمیں تبدیلی کی طرف راہنمائی کرنا۔لیکن عملی طور پر دیکھنے میںآیا ہے کہ موٹیویشنل سپیکرزدفاتر کے سخت اور تکلیف دہ معمولات سے تھکے ہوئے لوگوں کو قصے ، کہانیاں سنا کرمحض تفریحِ طبع کا سامان ہی میسر کرپاتے ہیں۔ان قصے کہانیوں کو مستقبل کے رویوں سے جوڑنے اور مطلوبہ تبدیلی لانے میں ناکام رہتے ہیں۔اسی لیے سالانہ بنیادوں پر ایسے خطابات کا اہتمام کرنے کے باوجود سامعین کی زندگی میں وہ تبدیلی نہیں آ پاتی جو اداروں کا مطمعِ نظر ہوتا ہے۔
اب ہم ابتدائی سطور میں بیان کردہ واجب الاحترام سپیکر کے خیالات پر توجہ دیں،تو الفاظ اپنے اندر گمراہی کو سمیٹے دکھائی دیتے ہیں۔انسان کے لمحہ پیدائش سے لیکرسپردِ قبر ہونے تک، زندگی کے ہر موڑ پر،بسا اوقات سپورٹ (مدد) کی ضرورت رہتی ہے۔ دنیا میں کامیاب لوگوں کی فہرست اتنی بڑی نہ ہوتی،اگر لوگ سپورٹ یا مدد کے تصور سے آشنا نہ ہوتے۔جہاںتک نبیوں، رسولوں اورپیغمبروں کی بات ہے، تووہ عام لوگ نہیںہیں بلکہ خاص الخاص انسان ہیں،جن کی زبان خدا کی زبان اور جن کے ہاتھ خداکے ہاتھ کہلائے۔ اسکے باوجود انہوں نے زندگی کے مختلف معاملات میں خدائی مدد کو پکارا۔مثلاًنبی رحمت ختم الرّسلؐ نے اسلام کی آسان ترویج اور اہل ایمان کی مدد کے لئے عمر بن ہشام اور عمر ؓبن خطاب میںسے کم از کم ایک کے حلقہ بگوشِ اسلام ہونے کی دعا فرمائی۔حوصلہ افزائی کے خطابات منعقد کروانے والوں کو پہلے مطلوبہ شعبہ،موضوع یا ضرورتِ خاص کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے اور یہ جانتے ہوئے سپیکرکا انتخاب کر نا چاہیے کہ جیسے ہر پھول گلدستے کی زینت نہیں بن سکتا،اسی طرح ہر تربیتی یا تخلیقی تحریک کیلئے ہر شخص موزوں موٹیویشنل سپیکر نہیں ہو سکتا۔ آج اداروں کو موٹیویشنل سپیکرز سے بڑھ کر ٹرینرز کی ضرورت ہے۔