عمران خان نے نیوٹرلزکی اصطلاح دومرتبہ متعارف کروائی ہے ۔پہلی مرتبہ جب وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے اس وقت کرکٹ میچ میں اسی ملک کے ایمپائر کے فرائض انجام دیتے تھے جہاں میچ ہو رہا ہوتا تھا ۔ ایسے میں چند ایمپائرجو اپنے ملک کی جیت کے لئے زیادہ پرجوش ہوتے وہ دو ایک ایسے متنازعہ فیصلے کر دیتے جس سے میزبان ٹیم جیت جاتی اور بہت بدمزگی پیدا ہوتی عمران خان نے پاکستان میں ہونے والے میچو ں میں غیر ملکی ایمپائر کو بلایا اور پھر یہ تنازعہ بند ہو گیا ۔اس کے بعد انٹر نیشنل کرکٹ کونسل (ICC)کو بھی ایسا ہی کرنا پڑا۔عمران خان نے ان ایمپائر کو نیوٹرل ایمپائر کہا ۔یہ ان کی کرکٹ کے کھیل کو شفاف بنانے کی بہت بڑی خدمت تھی جس کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ عمران خان نیوٹرل ایمپائر لانے میں ہمیشہ جائز طور پر فخر کرتے ہیں۔
دوسری مرتبہ نیوٹرلز کی اصطلاع عمران خان آج کل سیاست میں استعمال کر رہے ہیں ۔عمران خان کو حکومت میں لانے کے لیے اسٹبلشمنٹ نے اپنا اثرورسوخ استعمال کیا تھا اور عمران خان حکومت کو قائم رکھنے کے لئے یہ اثر استعمال ہوتا رہا جب بھی اپوزیشن کی طرف سے کوئی خطرہ ہوا اسٹبلشمنٹ نے اس کو رفع کرنے میں عمران حکومت کی مدد کی اس کی بڑی مثال سینیٹ کے چیئر مین کے خلاف تحریک عدم اعتما د تھی ۔اس وقت تحریک پیش کرنے والوں کی تعداد 60سے زیادہ تھی جبکہ ووٹنگ کے بعد 50سے بھی کم ووٹ نکلے ۔یعنی محب وطن پر جو ش ایمپائروں کی طرح دو ایک متنازعہ فیصلے یا ایکشن بازی عمران کے حق میں پلٹتے رہے ۔عمران حکومت نے بھی کبھی اس چیز کو راز میں نہ رکھا تھا بلکہ کھلے عام کہا جاتا تھا کہ حکومت اور افواج ایک صفحہ پر ہیں ۔افواج کے نمائندے بھی یہ کہنے میں عار محسوس نہ کرتے تھے کہ ان کا کام حکومت کی حمایت کرنا ہے ان حالات میں اپوزیشن کی جانب سے جب بہت زیادہ تنقید شروع ہو گئی تو ان کو احساس ہوا کہ عمران حکومت کے ساتھ ساتھ افواج پاکستان کے بارے میں عوام میں منفی سوچ پیدا ہور ہی ہے تو انہوں نے
غیر جانبدار یا نیوٹرل ہونے کا فیصلہ کیا اور ہر جائز ناجائز بات پر حکومت کی مدد کرنا ترک کر دیا ایسے ہوتے ہی حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہونے لگا پارٹی کے ارکان اور اتحادی ساتھ چھوڑنے لگے ۔وہ عرصہ سے ناراض تھے لیکن اسٹبلشمنٹ کے پریشر کی وجہ سے ساتھ چلے آرہے تھے۔عمران خان کو جب پریشر محسوس ہوا تو انہوں نے عادت کے مطابق اسٹبلشمنٹ اور افواج کے ذمہ داران پرچڑھائی شروع کر دی ۔قرآن پاک کا حوالہ دے کر فرمایا انسان کو اچھائی کا ساتھ دینے کا حکم ہے اور برائی کے خلاف جانے کا ۔فرمایا انسان تو نیوٹرل ہو ہی نہیں سکتا نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں عمران خان کے اپنے تیئن فیصلہ کر رکھا تھا وہ صیحح راستہ پر ہیں اور ان کے مخالف چور ڈاکو غیر محب وطن ہیں لہٰذا اسٹبلشمنٹ کا فرض ہے کہ وہ عمران خان کی حمایت کریں ۔ لیکن نیوٹرل رہنے والو ں کا فیصلہ اٹل تھا اور ان کے نیوٹرل ہوتے ہیں عمران خان حکومت زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی۔ کرکٹ میں نیوٹرل ایمپائر لانا کارنامہ تھا سیاست میں اسٹبلشمنت کانیوٹرل ہونا قابل مذمت قرار پایا ۔اسٹبلشمنٹ یا فوج کو عمران خان نے سمجھا کہ ان کا فرض ہے کہ وہ ان کی حمایت کریں ان کے وزراءخاص طور پر فواد چوہدری بار بار یہ کہتے سنے گے کہ اگر اسٹبلشمنٹ چاہتی تو ہماری حکومت قائم رہتی یعنی انہوں نے حکومت بچانے میں ہماری مدد نہ کی ۔فوج کا حکومت سے کیا تعلق ہونا چاہیے ۔اس کے لیے آئین پاکستان کے آرٹیکل واضع ہیں ۔آرٹیکل 245کہتا ہے کہ افواج پاکستان کا کام فیڈرل گورنمنٹ کی ہدایت پر بیرونی خطرات سے سیکورٹی یا حفاظت مہیا کرنا ہے اور اندرونی طور پر حکومت چاہے تو اندورنی طورپر سیکورٹی مہیا کرے ۔یعنی فوج کا کام بیرونی خطرات اور اندرونی امن و امان کے لیے سیکورٹی مہیا کرنا ہے ۔کسی طور پر بھی سیاسی طور پر حکومت کو قائم رکھنے میں مدد کرنا قطعی ان کا کام نہیں ۔
سیاست اورفوج کے حوالے سے پاکستان میں آرٹیکل 244اہم ہے ۔اس میں افواج پاکستان کے ممبران کا حلف نامہ درج ہے جس میں لکھا ہے کہ "I will not engage my self in any political activities what so ever"یعنی میں کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی میں
حصہ نہیں لوں گا ۔اب دیکھنا ہے کہ قانونی طور پر سیاسی سرگرمی سے کیا مراد ہے ۔سیاسی سرگرمی سے مراد ہر وہ عمل ہے جس سے کسی سیاسی پارٹی یا کسی سیاسی عہدے کے امیدوار کے جیتنے یا ہارنے پر اثر پڑے ۔یہ کیا عمل ہو سکتے ہیں ۔اس کی مثالیں ہم انٹر نیشنل اینسانکلوپیڈیا آف سوشل اینڈ بیحوریل سائنسیز(International Encyclopedia of Social & Behavioural Sciences)سے لیتے ہیں ۔یہ 25جلدوں پر مشتمل مختلف موضو عات پر مستند کتاب سمجھی جاتی ہے اس میں سیاسی سرگرمی کی مثالیں دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ووٹ دینا ۔کسی پارٹی یا امیدوار کی الیکشن مہم میں کسی طور پر حصہ لینا ۔کسی سیاسی پارٹی یا امیدوار کو چندہ دینا سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے کی مثالیں ہیں ۔ عام طور پر الیکشن لڑے اور سیاسی پارٹی یا امیدوار کے لئے مہم چلانے کو سیاسی سر گرمی سمجھا جاتا ہے جبکہ ووٹ ڈالنے کوکبھی بھی سیاسی عمل نہیں سمجھا گیا ۔زرا سا غور کریں تو یہ بات واضع ہو جاتی ہے کہ ووٹ ڈالنا تو سب سے بڑا سیاسی عمل ہے کیونکہ اسی کے ذریعے پارٹی یا امیدار کی ہار یا جیت کا فیصلہ ہوتا ہے اگر ہا رجیت پر اثر انداز ہونے والے عمل سیاسی سرگرمی کہلاتے ہیں تو یقینا ووٹ ڈالنا سیاسی عمل ہے ۔ افواج پاکستان کے آفسران اور جوان معاشرے میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور ان کا کسی کی حمایت میں ووٹ ڈالنا ان کا اکیلا ووٹ نہیں ہوتا بلکہ بہت سے لوگ ان کی تقلید میں خاص طور پر پردیسی علاقوں میں ووٹ ڈالتے ہیں جب کوئی شخص کسی پارٹی یا فرد کے لئے ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ وہ پارٹی یا وہ امیدوار الیکشن میں کامیاب ہو جائے اور اس طرح اس کو ایک جذباتی لگاﺅ پیدا ہو جاتا ہے اور اگر اس کے اختیارات سے اس کی حمایتی پارٹی یا امیدوا ر کامیاب ہو سکتا ہے تو لا محالہ وہ اپنے اختیارات اس کو جتانے کے لئے استعمال کرتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف ووٹ ہی ڈالے اور کچھ بھی نہ کرے تو بھی وہ اس امیدوار کر جیتوانے کی کوشش کر رہا ہے اور یہ سیاسی سرگرمی ہے ۔اگر افواج پاکستان مکمل طور پر ٹیوٹرل رہنا چاہتی ہیں تو جیسا کہ آئین پاکستان کا تقاضہ ہے تو اس کے ممبران کو ووٹ بھی نہ ڈالنا چاہیے ۔