حافظ محمد عمران
محمد معین
دنیا کھیل کے میدانوں میں کرکٹ کھیل رہی ہے، کہیں ورلڈکپ کوالیفائنگ راونڈ کھیلا جا رہا ہے تو کہیں عالمی کپ مقابلوں کی تیاری کے لیے فنڈز جاری ہو رہے ہیں۔ کرکٹ کھیلنے والے ممالک کھیل کے میدان میں حریفوں کو زیر کرنے کے لیے حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں۔ اپنی طاقت کو بڑھانے اور خامیوں کو دور کرنے کے لیے سوچ بچار کر رہے ہیں لیکن پاکستان میں حالات مکمل طور پر مختلف ہیں۔ ہماری کرکٹ کھیل کے میدانوں کے بجائے عدالت میں پہنچ چکی ہے۔ ہمارے سٹیڈیمز تو خالی ہیں اور ہماری کرکٹ عدالتوں میں کھیلی جا رہی ہے۔ شائقین جو کبھی شاہین آفریدی کے پہلے اوور سے لطف اندوز ہوتے تھے اور ہر گیند پر وکٹ گرنے کے منتظر رہتے تھے، وہ جو کبھی بابر اعظم اور محمد رضوان کی بہترین اوپننگ پارٹنر شپ پر داد دیتے اور بابر اعظم کی کور ڈرائیو کا مزہ لیتے تھے، وہ جو کبھی حارث روف کے تیز باونسر سے لطف اندوز ہوتے تھے، فخر زمان کے چھکوں کا مزہ لیتے تھے، شاداب خان کی گھومتی گیندوں پر وکٹیں گرنے سے خوش ہوتے تھے، وہ شائقین جو کبھی ایل بی ڈبلیو کی اپیل پر امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کی دعائیں کرتے تھے آج سب کی نظریں عدالتوں پر لگی ہیں کہ وہاں سے کیا فیصلہ آتا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین کے لیے انتخابات اس انداز میں متنازع ہوئے ہیں کہ دنیا میں پاکستان کرکٹ کا مذاق بن رہا ہے۔ ایک ایسا سال جب پاکستان نے پندرہ سال بعد ایشیا کپ کے میچز کی میزبانی کرنی ہے، پاکستان نے بھارت میں ہونے والے ون ڈے ورلڈکپ میں شریک ہونا ہے اس کے ساتھ ساتھ کئی اہم فیصلے بھی کرنے ہیں۔ ہمارے معاملات چیئرمین کے بغیر ہی چل رہے ہیں۔ کرکٹ کھیلنے والے ممالک دنیا فتح کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں اور ہم اپنے ہی کرکٹ بورڈ کو فتح کرنے کے لیے ہر جائز ناجائز طریقہ اختیار کرنے کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔
کھیل کو سیاست زدہ کرنے کا سفر کچھ نیا نہیں یہ عمل دہائیوں سے جاری ہے۔ حکمران ہر دور میں اپنے پسندیدہ افراد کو چیئرمین پی سی بی لگانے کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ ان دنوں بھی یہی حالات ہیں۔ گذشتہ برس دسمبر میں حکومت نے نجم سیٹھی کی سربراہی میں تیرہ رکنی مینجمنٹ کمیٹی قائم کی تھی۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ نجم سیٹھی کو یقین دلایا گیا تھا کہ وہ مستقل طور پر کرکٹ بورڈ کو سنبھالیں گے لیکن بعد میں حالات بدلے، مینجمنٹ کمیٹی بھی انتخابی عمل مکمل کرنے میں ناکام رہی۔ اس دوران انتخابی عمل پر بھی سوالات اٹھتے رہے اور بین الصوبائی رابطے کی وفاقی وزارت کے وزیر احسان مزاری نے یہ گفتگو شروع کر دی کہ چیئرمین پی سی بی کی تقرری پاکستان پیپلز پارٹی کا حق ہے یوں جون کا مہینہ آن پہنچا۔ حکومتی سطح پر نجم سیٹھی کے نام پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے انہیں رات گئے ایک ٹویٹ کے ذریعے خود کو چیئرمین پی سی بی کی دوڑ سے الگ کیا۔ وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے چوہدری ذکا اشرف اور مصطفی رمدے کو بورڈ ممبر نامزد کر دیا۔ مینجمنٹ کمیٹی تحلیل کر دی گئی۔ مینجمنٹ کمیٹی تحلیل ہونے کے بعد اس میں شامل افراد چیئرمین پی سی بی کے انتخاب کو روکنے کے کیے عدالت جا پہنچے اب سب کی نظریں امپائر کی طرف ہیں۔ امپائر خود فیصلہ کرتا ہے یا کسی تھرڈ امپائر کی مداخلت ہوتی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس انوارحسین نے ملک ذوالفقار کی درخواست پر سماعت کی۔درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ مینجمنٹ کمیٹی کی منظوری سے بنائے گئے بورڈ آف گورنرز کو پی سی بی الیکشن کمشنر نے عہدوں سے ہٹا دیا، پی سی بی الیکشن کمشنر نے غیر آئینی اقدام کرتے ہوئے بورڈ آف گورنرز کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیتے ہوئے نیا بورڈ آف گورنرز تشکیل دیا۔ پی سی بی الیکشن کمشنر کا از خود نیا بورڈ آف گورنرز تشکیل دینے کا اقدام غیر آئینی قرار دیا جائے اور عدالت عدالتی فیصلہ آنے تک چیئرمین پی سی بی کا انتخابات روکنے کا حکم جاری کرے۔ پشاور ہائی کورٹ میں پی سی بی کے بورڈ ا?ف گورنرز کے سابق رکن کبیر آفریدی نے درخواست دائر کی۔ پشاور ہائی کورٹ نے چیئرمین پی سی بی کے انتخاب کا عمل روک دیا اور چیئرمین پی سی بی کے انتخاب کے خلاف عدالت نے حکم امتناعی جاری کردیا۔ بلوچستان ہائی کورٹ بھی چیئرمین پی سی بی کے انتخابات روکنے کے احکامات دیتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کرچکی ہے۔ بلوچستان ہائی کورٹ نے چیئرمین پی سی بی کے الیکشن 17 جولائی تک روکنے کا حکم دیا ہے اور وزیراعظم، وزارت بین الصوبائی رابطہ اور ذکا اشرف سمیت فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سلمان بٹ کہتے ہیں کہ "وزیراعظم کے نوٹیفکیشن سے آنے والے اسی دفتر سے آنے والے نوٹیفکیشن کے ذریعے جانے والوں کے پاس شور مچانے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔ پاکستان کرکٹ کو عدالتوں میں نہیں جانا چاہیے۔ جیسے آتے ہیں ویسے ہی جانے کا حوصلہ بھی رکھنا چاہیے۔ جہاں تک تعلق مینجمنٹ کے فیصلوں کا ہے اس حوالے سے بڑا اختلاف ہے بالخصوص قومی ٹیم کے کوچنگ سٹاف کو دیکھیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس معاملے میں غیر ضروری طور پر غیر ملکی کوچز پر انحصار کیا گیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ٹیم ڈائریکٹر اور ہیڈ کوچ کو سلیکشن کمیٹی کا بھی حصہ بنایا گیا۔ مصباح الحق پر اسی لیے تنقید ہوتی تھی کہ ان کے پاس دو عہدے کیوں ہیں۔"
جونیئر سلیکشن کمیٹی کے سابق سربراہ ٹیسٹ کرکٹر باسط علی بھی پی سی بی انتخاب کو روکنے کے لیے عدالتوں میں جانے کے خلاف ہیں۔ باسط علی کہتے ہیں کہ "پاکستان کرکٹ کا مذاق بنا ہوا ہے۔ یہ کیا طریقہ ہے کہ جس سال ایشیا کپ اور عالمی کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کھیلا جانا ہے ہمارا بورڈ چیئرمین کے بغیر ہی چل رہا ہے۔ امید ہے کہ آئندہ ہفتے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ کرکٹ بورڈ کے بعض افسران بھی چاہتے ہیں کہ چیئرمین کے انتخاب کا معاملہ طوالت اختیار کرے۔ اس میں ان کا فائدہ ہے۔ کسی کو پاکستان کرکٹ کی فکر نہیں ہے۔ ہمارے لیے شرم کا مقام ہے کہ سلیکشن کمیٹی میں اعداد و شمار کے ایک ماہر کو شامل کیا گیا ہے۔ کیا ٹیسٹ کرکٹرز کم پڑ گئے ہیں کہ ایسے لوگوں کو شامل کیا گیا ہے جنہوں نے کبھی وہ کرکٹ ہی نہیں کھیلی۔ اگر ٹیم ڈائریکٹر سلیکشن کمیٹی کا حصہ ہو سکتا ہے تو پھر کپتان کو بھی سلیکشن کمیٹی کا حصہ ہونا چاہیے۔"
دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے انتخاب کو روکنے کے لیے عدالت جانے والے افراد کی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو لگ بھگ چھ ماہ تک مینجمنٹ کمیٹی کا حصہ رہے۔ عہدہ ختم ہونے کے بعد عدالت جا پہنچے کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ پاکستان کرکٹ کے وسیع تر مفاد کے لیے عدالتی راستہ اختیار کرنے کے بجائے کھیل کے میدانوں کو آباد کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جاتی۔
یہ واضح رہے کہ پی سی بی کے سابق چیئرمین نجم سیٹھی واضح کر چکے کہ وہ اس دوڑ کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ نجم سیٹھی نے ملکی کرکٹ کو مالی طور پر مضبوط بنانے کے لیے بہت کام کیا ہے۔ پاکستان سپر لیگ کا آغاز اور ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کے لیے بہت کام کیا ہے۔ موجودہ حالات کی ساری ذمہ داری حکومتی اتحاد پر عائد ہوتی ہے۔ انہیں بائیس دسمبر 2022 کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے تھا کہ پی سی بی چیئرمین کے لیے کس جماعت نے اپنا حق استعمال کرنا ہے۔ اگر نجم سیٹھی کو تعینات کیا گیا تھا تو پھر انہیں مکمل وقت ملنا چاہیے تھا اگر کوئی سیاسی اختلاف تھا تو ملکی کرکٹ کو تنازعات سے بچانے کے لیے دسمبر 2022 میں کوئی بھی فیصلہ سوچ بچار کے بعد کرنے کی ضرورت تھی۔ سیاسی طور پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ملکی کرکٹ کو تنازعات میں الجھانا کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ اب وفاقی حکومت نے نجم سیٹھی دور کے چھ ماہ کا سپیشل آڈٹ کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ اس سیاسی لڑائی پاکستان کرکٹ کو نقصان ضرور پہنچے گا۔ نجم سیٹھی اور ذکا اشرف ماضی میں بھی اس عہدے کے لیے عدالت میں تھے آج نجم سیٹھی عدالت میں نہیں ہیں لیکن ذکا اشرف پھر کا انتخاب پھر عدالتوں میں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے حمایت یافتہ چوہدری ذکا اشرف پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ وقت کرے گا لیکن یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا اور کرکٹ کے نام پر سیاست سے باز نہیں آئے۔