’’دیکھو دیکھو، احتیاط سے۔۔ گاڑی کسی چیز میں مارو گے۔ خیر تو ہے، آج سوئے نہیں کیا؟اتنے اوازار کیوں ہو؟‘‘ میرے دوست اپنے ڈرائیو سے مخاطب ہوئے جو خلافِ معمول گاڑی قدرے بیزاری سے چلا رہا تھا ۔ وہ کہنے لگاـــــــــــ،’’سر، کل شام سے بہت پریشانی ہے۔ رات نیند بھی ٹھیک سے نہیں آئی‘‘۔ ’’کیوں ،کیا ہوا۔۔؟‘‘ میرے دوست نے پوچھا ۔ڈرائیور کہنے لگا، ’’سر، آپ جانتے ہیں،کل وزیرِ خزانہ نے اعلان کیا ہے کہ سرکاری ملازم کے انتقال پر اُس کی فیملی کو صرف دس سال تک پینشن ملے گی۔ چند روز قبل پنجاب کی نگران حکومت نے بڑھاپے کو پہنچ کر ریٹائر ہونے والے سرکاری ملازمین کی دوران سروس’’کمائی گئی‘‘ چھٹی کے عوضانہ (Leave Encashment) کو مختصر کردینے کا پہلے ہی اعلان کر رکھا ہے۔ میںساری رات سوچتا اور پچھتاتا رہا کہ جب سرکار میں ڈرائیور کی نوکری ملی تھی تب مجھے بیرونِ ملک جانے کا بھی ایک بھر پور موقع ملا تھاجسے میں نے یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا تھا کہ سرکاری نوکری کو چونکہ ہر طرح کا تحفظ حاصل ہے اس لئے میرا یہیں پر اچھا گزارا ہو جائے گا ۔ آج وہ سب خواب سا لگتا ہے۔اگر مجھے آج کچھ ہو جاتا ہے تومیری جوان بیوی ،جو پڑھی لکھی بھی نہیں، کہاں روزگار ڈھونڈتی پھرے گی۔میری بیٹیوں کا کیا بنے گا۔آپ جانتے ہیں، صبح آٹھ بجے سے لے کر رات گئے تک آپ کے ساتھ دفتر میں ہوتا ہوں۔ وقت بچ ہی نہیں پاتا کہ کہیں کوئی جُز وقتی کام ہی کر لوں۔جو پچاس ہزار روپیہ تنخواہ ملتی ہے اس سے بجلی اور گیس کا بل ، بچوں کے سکول کی فیس اور دال روٹی بمشکل پوری ہوتی ہے ۔سر، میں کل سے سوچوں کے کس کرب میں مبتلا ہوں، آپ کو بتا نہیں سکتا۔‘‘
سرکاری ڈرائیور کی تشویش بلاوجہ نہ تھی۔ صبح نو بجے سے لے کر رات گئے تک دفتروں میں دیانت داری سے مشقت کرنا، تھکے ہارے گھر آنا او ر اگلی صبح پھر وہیں سے کام کا آغاز کر نا، سرکاری ملازمین کی اکلوتی مصروفیت ہے۔ جو احساسِ تحفظ ’’سر سُٹ‘‘ کے صبر اور استقامت کے ساتھ کولہو کے بیل کی طرح مسلسل چلتے رہنے پر آمادہ رکھتا تھا ، وہ رخصت ہوتا دِکھائی دیتا ہے۔ چند سال قبل جب عمر رسیدہ پنشنرز نے انپی رضامندی سے کٹوتی کرائی گئی پنشن کی ، مقررہ وقت گزرنے پر،بحالی کیلئے عد التِ عالیہ کا رُخ کیا تو عدالتِ عالیہ نے سائلین کے مطالبہ کو درست مانتے ہوئے نہ صرف ان کے حق میں فیصلہ دیا بلکہ فرمایا کہ سرکاری ملازمین اپنی زندگانی کا انتہائی قیمتی حصہ سرکار کی خدمت میں گزار دیتے ہیں۔ لہٰذااُنہیں پینشن اور اسکے ساتھ وابستہ اضافوںسے محروم رکھنا اُنکے ساتھ صریحاً زیادتی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب پینشنرز کو حسبِ ضابطہ فیملی پنشن ،لیوانکیشمنٹ اور دیگر مالی مراعات پہلے ہی با احسن دستیاب تھیں ۔ ان تمام ’’گزارہ جاتی مراعات‘‘ کو پی ڈی ایم کی جملہ جماعتوں نے با اتفاق بتدریج ختم کرنے کی جانب ’’انقلابی قدم‘‘ اٹھایا ہے۔ایک طرف عبوری وزیرِ اعلیٰ پنجاب ،جو صوبے کے مستقبل کے دیر پا فیصلے کرنے کا استحقاق ہی نہیں رکھتے، نے چھٹی کے قوانین کو بدل کے رکھ دیا ہے، جن کے تحت سرکاری ملازمت سے ریٹائرہونے والا شخص جس بھی سکیل میں بھلے جتنی سروس کر کے ریٹائرڈ ہو وہ لیوانکیشمنٹ موجودہ تنخواہ کی بجائے اپنے گریڈ کی بنیادی تنخواہ پر ہی وصول کرپائے گا، جو بسا اوقات اُس کی موجودہ تنخواہ کے نصف سے بھی کم ہوتی ہے ۔
یہاں لیوانکیشمنٹ کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔اِس وقت سرکار میں دو طرح کے محکمے پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو اپنے انتظامی معاملات میں خود مختار ہیں، اور دوسرے سرکاری محکمہ جات ہیں جن کی مزید دو اقسام ہیںایک وہ جہاں گرمی اورسردی کی چھٹیوں کا رواج ہے اور وہ لازمی ہوتی آرہی ہیں۔ ایسے محکموں کے ملازمین ہر ماہ ایک چھٹی کمانے کا استحقاق رکھتے ہیں۔جبکہ ایسے ملازمین جن کے ہاں گرمی یاسردی کی چھٹیوں کا دستور نہیں ہے،اور انہیںپورا سال اپنے فرائضِ منصبی انجام دینے ہو تے ہیں، وہ ایک ماہ کے عوض چار چھٹیاں کماتے ہیں۔ اس طرح اِن کی سال کی اڑتالیس چھٹیاں بنتی ہیں۔ وہ یہ چھٹیاںاستعمال کرنے کیلئے حسبِ ضرورت درخواست گزار سکتے ہیں۔تاہم دفتری مجبوریوں اور ضروریات کے تحت اُنہیں اکثر چھٹی دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ نتیجتاًوہ مسلسل کام پر آتے رہتے ہیں۔ اِس طرح اُن کی چھٹیاں ہر سال جمع ہوتی رہتی ہیں۔ جو بسا اوقات ہزاروں میں چلی جاتی ہیں۔ تمام خود مختار اداروں، جیسے سرکاری بنک وغیرہ کے ملازمین اپنی ایک ایک چھٹی کا عوضانہ لینے کا استحقاق رکھتے ہیں اور وہ اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل اپنی تمام چھٹیوں کاعوضانہ یا انکیشمنٹ وصول کر لیتے ہیں۔ جبکہ سرکاری محکموں میں ریٹائرمنٹ کے وقت اگر ملازم کے کھاتہ میں تین سو پینسٹھ دن یا اس سے زیادہ کی چھٹی موجود تھی تو اسے تین سو پینسٹھ دن کی لیوانکیشمنٹ دی جاتی رہی ہے۔ اگراس کی کمائی گئی چھٹی تین سو پینسٹھ دن سے کم نکلی تو اُسکو اُتنا ہی کم عوضانہ ملتا رہا ہے۔ دوسری طرف تین سو پینسٹھ دن سے زائد دنوں کی چھٹی کو ضائع کر دیا جاتا رہا ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ ایک سرکاری ملازم جس نے اپنی صحت پر، بچوں کی تعلیم پر، اُن کی سیرو تفریح پر، والدین کی خدمت پر سمجھوتہ کر کے چھٹیاں قربان کی ہوتی تھیں، چاہیے تو یہ تھا کہ اسے تمام چھٹیوں کا عوضانہ اُسی طرح دیا جاتا جس طرح بنکوں اور خود مختار اداروں کے ملازمین کو دیا جاتا ہے، لیکن اسے محض تین سو پینسٹھ دن کی چھٹیوں کا عوضانہ دینے پر اکتفا کیا جاتا۔ حالانکہ یہ چھٹیاںاسکے خون پسینہ کی کمائی ہوتی تھی۔ تاہم تین سو پینسٹھ دن کی چھٹیوں کا عوضانہ ملازم کو ملنے والی آخری تنخواہ کی شرح سے دستیاب تھا۔ موجودہ عارضی حکومت نے ملازمین کیساتھ ’’ محبت کے پہاڑ توڑ دیئے ہیں‘‘۔ لیو انکیشمنٹ کو آخری تنخواہ سے گھٹا کر متعلقہ گریڈ کی پہلی اسٹیج پر منجمد کر دیا ہے ۔ مثال کے طور پر پہلے اگر کسی کو تین سو پینسٹھ چھٹیوں کے عوض دس لاکھ ملنا تھا تو اب اسے ساڑھے چار لاکھ کے قریب ملا کریگا۔(جاری)