گھٹنے تو وہ پہلے ہی ٹیک چکے تھے، وزیر خزانہ اسحق ڈار سے وزیر اعظم محمد شہباز شریف تک مسلسل یہ اعلان فرما رہے تھے کہ عالمی مالیاتی ادارے، آئی ایم ایف کی تمام شرائط ہم تسلیم کر چکے، ان کے ہر حکم پر عمل کیا جا چکا، اب ہم مزید کچھ نہیں کر سکتے، آئی ایم ایف اگر اب بھی معاہدہ پر آمادہ نہ ہوا تو ہمارے پاس متبادل بی پلان موجود ہے، ملک کو کسی صورت نادہندگی کی جانب نہیں جانے دیں گے۔ مگر پھر نہ جانے کیا ہوا کہ وزیر اعظم جو نئے عالمی مالیاتی معاہدے کے سلسلہ میں فرانس میں منعقدہ سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے گئے تھے اور وہ وہاں بھی دنیا کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ جب تک عالمی سطح پر معاشی انصاف نہیں ہو گا، دنیا خطرات سے دو چار رہے گی، وسائل کی منصفانہ تقسیم کے حوالے سے دنیا کو پالیسی مرتب کرنا ہو گی، ورنہ جب تک عالمی قرض دہندگان جنگ پر اربوں ڈالر خرچ کرتے رہیں گے مگر پاکستان کو سیلاب زدہ لوگوں کی مدد کے لیے عطیات کی بجائے صرف قرض دیں گے تو ایسی صورت حال میں دنیا خطرات سے محفوظ نہیں رہ سکے گی، عالمی برادری کو انہی تنبیہات کے دوران جناب وزیر اعظم نے آئی ایم ایف کی خاتون ایم ڈی سے ایک دو نہیں پے در پے تین چار ملاقاتیں کر ڈالیں، ان ملاقاتوں میں محترمہ نے معلوم نہیں ان پر کیا جادو کیا کہ ہمارے وزیر اعظم فوری طور پر آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو گئے اور وہ جو پہلے ’’مزید کچھ نہیں کر سکتے‘‘ کی گردان کر رہے تھے، انہوں نے آئی ایم ایف کے حکم پر اپنے عوام کو کند چھری سے ذبح کر ڈالا اور ’مرے کو مارے شاہ مدار‘ کے مصداق پہلے سے مہنگائی، بے روز گاری اور غربت و پسماندگی کی چکی میں پستے عوام پر راتوں رات دو سو پندرہ ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کر دیئے گئے، مجموعی طور پر 438 ارب روپے کے ٹیکس لاگو کر کے 170 ارب روپے کا منی بجٹ بھی عوام پر لاد دیا گیا، تنخواہ دار ملازمین پر ٹیکس بڑھا کر اڑھائی فیصد کر دیا گیا جب کہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن مراعات میں بھی کمی کر کے بہت سی پابندیوں میں جکڑ دیا گیا، زراعت پر ملکی معیشت کا انحصار ہونے کے باوجود کھاد جیسی بنیادی زرعی ضرورت پر پانچ فیصد ڈیوٹی عائد کر دی گئی، جائیداد کی خرید و فروخت پر دو فیصد ٹیکس جب کہ پٹرولیم لیوی ساٹھ روپے فی لٹر کر دی گئی، وفاقی ترقیاتی اخراجات 85 ارب روپے کم کر دیئے گئے۔ عوام کی رگو ں سے رہا سہا خون بھی نچوڑ لینے کے لیے ٹیکسوں کا ہدف 9415 ارب روپے تک بڑھانے کی آئی ایم ایف کی شرط کے سامنے بھی سر تسلیم خم کر دیا گیا۔ یوں حکم حاکم کی تعمیل کے بعد اتوار کی تعطیل کے روز مجلس شوریٰ کے ایوان زیریں نے ملک کے آئندہ برس کے میزانیہ کی منظوری دے دی ہے تاہم ’’تمام‘‘ میں اضافہ شدہ شرائط بھی تسلیم کر لیے جانے کے باوجود وزیر خزانہ کا یہ فرمانا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو جائے تو ’بسم اللہ‘ ورنہ گزارا ہو رہا ہے۔ اور زمینی حقیقت یہ ہے کہ نئی شرائط تسلیم کئے جانے اور ان کے تابع قومی اسمبلی سے میزانیہ کی منظور کو تین یوم گزرنے کے باوجود، تادم تحریر آئی ایم ایف سے معاہدہ نام کی کوئی حتمی دستاویز سامنے نہیں آ سکی، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟
میزانیہ خصوصاً آئی ایم ایف کے حکم پر عائد کئے گئے نئے ٹیکسوں وغیرہ پر ایک نظر ڈالنے سے یہ بات نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ تمام ٹیکس، ڈیوٹیاں اور پابندیاں عام آدمی پر عائد کی گئی ہیں، ملک کے مراعات یافتہ طبقہ کے عیش و عشرت میں کمی کی جانب اشارہ تک نہیں کیا گیا جب کہ دوسری جانب ہماری مجلس شوریٰ نے اپنے ایوان بالا اور ایوان زیریں کے چیئرمین اور اسپیکر کے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد تاحیات جن مراعات کی منظوری دی ہے وہ شاید برطانیہ کے بادشاہ کے مقدر میں بھی نہیں، ہوں گی حال ہی میں منظور کئے گئے اس قانون کے تحت ریٹائرڈ چیئرمین سینٹ کو بھاری پنشن کے علاوہ تاحیات بارہ ذاتی ملازم، دس سیکیورٹی گارڈ، ان ملازمین کے لیے پروٹوکول گاڑیاں، شاندار گھر، اہل خانہ سمیت مرضی کی کمپنی کے جہاز پر سفر، مفت بجلی، پٹرول اور نہ جانے کیا کیا سہولتیں غریب اور مقروض قوم کے خزانہ سے ادا کرنا ہوں گے، خوفناک حقیقت یہ بھی ہے کہ شاہانہ مراعات کے اس بل کے خلاف جماعت اسلامی کے سوا حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے کسی ایک بھی رکن نے آواز بلند نہیں کی بلکہ اسے اتفاق رائے سے منظور کیا، وجہ صاف ظاہر ہے کہ خود یہ ارکان مجلس شوریٰ بھی اس قسم کی مراعات سے مستفید ہو رہے ہیں، وزیر اعظم کی اپنی کابینہ کا شمار دنیا میں سب سے بڑی کابینائوں میں ہوتا ہے اور اس میں سے بہت سے وزیروں کے پاس کرنے کو کوئی کام ہے اور نہ محکمہ مگر قومی خزانے سے تنخواہ اور مراعات مل رہی ہیں۔ ساٹھ بلٹ پروف گاڑیاں اس کابینہ کے ارکان کے زیر استعمال ہیں جب کہ ججوں، جرنیلوں، بیورو کریٹس، ارکان پارلیمنٹ اور اشرافیہ کے دیگر ارکان کے زیر استعمال گاڑیاں اس کے علاوہ ہیں، صرف وفاقی حکومت کے ارباب اقتدار کے زیر استعمال گاڑیوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہے جن کے صرف پٹرول پر سالانہ پچپن ارب روپے خرچ ہو جاتے ہیں، ڈرائیوروں اور مرمت وغیرہ کے اخراجات ان کے علاوہ ہیں، اسی طرح گنتے جائیں تو حکام کے زمرے میں آنے والے یہ چند ہزار لوگ قومی خزانے کا بڑا حصہ ہضم کر جاتے ہیں جب کہ دوسری طرف عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہو رہا ہے مگر حکومت ان پر ٹیکسوں کا بوجھ مسلسل بڑھاتی چلی جا رہی ہے… سوال یہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے پاکستانی عوام پر نت نئے ٹیکس عائد کرنے کی شرائط تو عائد کرتے ہیں اور تسلیم بھی کروا لیتے ہیں مگر یہ اشرافیہ کو حاصل شاہانہ مراعات اور عام آدمی سے بیسیوں گنا تنخواہوں میں کٹوتی اور کمی کے لیے دبائو کیوں نہیں ڈالتے… اس لیے کہ یہ اشرافیہ غیور قوم کو خوئے غلامی میں پختہ تر کرنے میں عالمی استعمار کی آلۂ کار ہے…!!!