سیاسی و انتظامی نا اہلی

لقمان شیخ 
روبرو 
عید الضحٰی کے دوران آلائشوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی گندگی اور بدبو پر قابو پانے کیلئے وزیراعظم شہباز شریف نے بیوروکریسی کو شاباش دی. مگر تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ پنجاب کے بیشتر علاقوں میں گندگی اور آلائشوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں. سیوریج کے ناقص نظام کی وجہ سے دیہی علاقوں میں گندا پانی کھڑا ہونا کی وجہ سے عام لوگوں کا جینا محال ہو گیا. میں یہاں اگر اپنے آبائی علاقے پتوکی  کی بات کروں انتظامیہ کی غفلت اور سیاسی نا اہلی کی وجہ سارا شہر گندے پانی میں ڈوبا ہوا ہے. سیوریج کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر شہر کے نامور کونسلر اور سینئر صحافی حاجی شاہد قیوم نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام لکھا جو ارباب اختیار کو ہوش کے ناخن دلوانے کے لئے کافی ہے. 
وہ لکھتے ہیں کہ
شہر پتوکی کا کروڑوں سے اربوں روپے تک جانے والا سیوریج سسٹم ناکارہ ہوگیا۔
اسسٹنٹ کمشنر پتوکی اور سیاسی لیڈر رانا حیات خاں اسکو چلانے میں بے بس ہوگئے۔سیوریج سسٹم انتظامی اْمور اور سیاست میں ہر جلسہ میں سوالیہ نشان بن گیا۔ کہا جاتا ہے لائن یہاں سے بند ہے لائن فلاں علاقے یا حلقے کی بند ہے اسے فوری کھول دیں تمام ملازمین کو فوری بھیج دیا جاتا ہے لیکن  رزلٹ صفر نکلتاہے۔میں  شہریوں سے یہی کہنا چاہتا ہوں فلاں حلقے اور فلاں علاقے میں جانے کی بجائے سیوریج کو چلانے والے ڈسپوزل کی طرف توجہ دیں جہاں پر سسٹم کو چلانے کیلئے پانچ موٹریں دس سال پہلے نصب ہوئی تھیں جس کی تعداد اب تک مذید بڑھنی چاہیئے تھی پانچ کی بجائے اب تک دس موٹریں ہونی چاہیئے تھی مگر ہوا کیا جو پانچ موٹریں لگی تھیں ان میں صرف دو چل رہی ہیں وہ بھی ایک 100 پاور کی اور ایک چھوٹی 50 پاور کی باقی سب ناکارہ  ہوئی پڑی ہیں انکے پمپ خراب پڑے ہیں۔انکے پنکھے بیرنگ خراب ہیں جس پر ساٹھ سے ستر لاکھ روپے خرچ آتا ہے سرکاری اداروں کیلئے یہ بڑی رقم نہیں ہیبہت ہی چھوٹی رقم ہے جس ادارے میونسپل کمیٹی بلدیہ پتوکی میں کروڑوں روپے کی کرپشن ہورہی ہے وہاں یہ رقم معمولی ہے۔
حالانکہ ڈسپوزل ٹھیک ہوجائے تو بہتری ان شائ￿ اللہ سو فیصد آجائے گی۔یہی غلطی سیاسی لیڈر رانا حیات خاں صاحب سے ہوئی کہ انہوں نے پچاس لاکھ کے لگ بھگ سیوریج کو چلانے کیلئے ٹھیکیدار کو لے کر دیا جو کرپشن کی نظر ہو رہا ہے جسکا احتساب ہونا مشکل تو کیا نا ممکن ہوجائیگا کئی طاقتیں اثر انداز ہوجائیں گی بات رفع دفع ہوجائے گی حالانکہ یہی پچاس لاکھ روپے ٹھیکیدار کو دینے کی بجائے اگر ڈسپوزل کو چلانے میں لگایا جاتا تو مسائل میں خاطر خواہ کمی آنی تھی۔ایک بات اور بتاتا جاوں،ہر ساون بھادوں میں بارشوں کے دنوں میں سیوریج  کھالوں کی صفائی کیلئے کروڑوں روپے فنڈز آتے ہیں۔اگر وہ بھی ایمانداری سے لگ جائیں تو بھی بہتری آجائے مگر اس فنڈز کو بیورو کریٹ کس خوبصورت انداز سے ملکر غائب کرتے ہیں کہ کسی  کو 
معلوم نہیں ہو سکتا۔مقامی بلدیہ ملازمین سے اسی تنخواہوں پر چند روز کھالوں سیوریج پر کام لے لیا جاتا فوٹو سیشن کرلیا جاتا اور کروڑوں روپے بل نکلوا لیا جاتا ہے۔
قارئین یہ چند سطور پتوکی جیسے شہر کے بارے میں ہیں جہاں انتظامیہ اور سیاسی لیڈر ملک لاکھ کروڑوں کی کرپشن کرتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتے. ایک اہم بات یہ بھی ہیکہ سابقہ حکومت نے سیوریج کے نظام کو چلانے کیلئے پائپ لائن کی صفائی کیلئے متعدد تحصیلوں کو سکر مشینوں کیلئے کروڑوں روپے فنڈز دیئے مگر پتوکی میں اس قدر بے حسی اور کرپشن عروج پر تھی کہ تین سالوں میں پتوکی کو سکر مشین کی مد میں ملنے والا فنڈز  ڈیڑھ کروڑ روپے یا تو خردبرد کردیئے گئے ہیں یا اگر تحصیل کے خزانے میں ہیں  تو سیوریج سسٹم کو چلانے کیلئے استعمال میں کیوں نہیں ہو رہے  اس بات کی احتساب اداروں میں فوری تحقیق ہونی چاہیئے . 
اگر شہر میں سیوریج اور ترقیاتی کام ایمان داری سے ہوئے ہوں تو شہری انتظامیہ اور سیاسی لیڈر شپ کو سراہتے ہیں لیکن آج پتوکی شہر میں سیوریج کے ناقص انتظامات کی وجہ سے ہر شہری سیاسی لیڈروں اور انتظامیہ کو برا کہہ رہا ہے. میں پتوکی شہر کی عوام سے التماس کرتا ہوں  الیکشن میں جب یہ سیاسی لیڈر آپ سے ووٹ مانگنے آئیں تو انکو سیورج کے گندے پانی میں  لازمی گزاریں.
اسکے ساتھ ساتھ میں وزیر اعظم شہباز شریف، چیف سیکرٹری پنجاب اور ڈی جی اینٹی کرپشن سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ   شہر پتوکی میں سیوریج اور ٹھیکوں کی مد میں ہونے والی کرپشن پر فی الفور ایکشن لیں اور شہریوں کے لئے سیوریج کے بہتر انتظامات کے لئے اقدامات کریں.اسکے ساتھ ساتھ میں ڈپٹی کمشنر قصور اور کمشنر لاہور سے اپنے کالم کے توسط سے التماس کرتا ہوں کہ وہ پتوکی شہر کا دورہ کریں اور  خود شہر کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا جائزہ لیں۔

ای پیپر دی نیشن