تحریر۔محمد عمران الحق۔ لاہور
قرآن پاک مسلمانوں کی سب سے زیادہ مقدس کتا ب ہے۔جس کی حرمت پر ڈیڑھ ارب مسلمان اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی نہیں گھبراہتے۔ آج دشمنانِ اسلام قرآنِ پاک کو اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر ایک شخص کی جانب سے قران کے نسخے کو نذر آتش کیا گیا۔ قرآن جلانے کے واقعے میں ایک عراقی نڑاد شحص ملوث ہے جس نے اس مظاہرے کے لیے عدالت سے باقاعدہ اجازت لی تھی۔ سویڈن عدالت کی سرپرستی میں قرآن پاک کے نسخے جلا کر شہید کرنے کے اشتعال انگیز انہ فعل کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اظہار رائے کی آڑ میں ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل آزاری کرنا شرمناک اقدام ہے۔ اس واقعے کے خلاف دنیا بھر کے مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ہر جگہ لوگ سراپا احتجاج ہیں۔
میں اپنے قارئین کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ سویڈن سمیت دیگر مغربی ممالک میں، اس سے قبل بھی قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات پیش آچکے ہیں۔ 2013میں فرانس کے صدر میکرون نے گستاخانہ خاکے آویزاں کرنے کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ ڈنمارک، ناروے اور امریکہ میں بھی مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی جاتی رہی ہے اور بد قسمتی سے مسلم حکمرانوں کے کمزور موقف اور رویے کے باعث یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔اسلاموفوبیا کا شکار ہو کر مغرنی ممالک اور امریکہ اسلام کی حقانیت سے خوفزدہ ہیں۔ شعائر اسلام کی توہین آمیزی سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات بری طرح مجروح ہوئے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ عالم اسلام کو اس حوالے سے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔عالمی امن کو یقینی بنانے کے لئے تعصب کی عینک کو اتارنا ہوگا۔ محض’’او آئی سی‘‘کا اجلاس بلا نا اور ایک اعلامیہ جاری کر دینا کافی نہیں، توہین آمیزی کے واقعات کی مستقل روک تھام کے لئے مل کر عملی اقدامات کئے جائیں۔ توہین رسالت اور توہین قرآن کے بڑھتے واقعات کے سدباب کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا۔ او آئی سی اور اسلامی ممالک کے حکمران توہین رسالت اور توہین قرآن کے واقعات پر خود کو صرف مذمت تک ہی محدود نہ رکھیں۔ یہ عناصر دنیا میں بدامنی کے اصل ذمہ دار ہیں کہ جو توہین رسالت اور توہین قرآن کو اظہار رائے کی آزادی قرار دیتے ہیں، اس طرح کے شرپسند عناصر کے خلاف اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو ہر قسم کے بائیکاٹ کا اعلان کرنا چاہئے۔امت محمدیہ (?)کی طرف سے سخت ترین ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہی عالمی سطح پر حضور ?کی عزت و ناموس اور قرآن کریم کی حرمت کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ توہین رسالت اور توہین قرآن کے مرتکب عناصر کی مکمل سرکوبی کے لئے عملی اقدامات میں پہل کرے اس حوالے سے ابتدائی طور پاکستان سویڈن کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات کو فوری طور پر منقطع کرے۔ اسلام ایک پر امن مذہب ہے اور تمام مذاہب کی تعلیمات اور عقائد کے احترام کا درس دیتا ہے۔ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں کسی کو بھی دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی مقدس مذہبی کتابوں کی بے حرمتی کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ بنیاد پرستی و رجعت پسندی سے ابھرنے والے غیرمعتدل رجحانات اور رویّے انتہائ پسندانہ طرز فکر و عمل کو جنم دیتے ہیں اور بلاشبہ انتہائ پسندی بھی اب ایک عالم گیر مسئلہ بن چکا ہے جسے کسی خاص ملک و قوم اور مذہب و ثقافت سے نتھی کرنا بھی ایک اور قسم کا انتہائ پسندانہ بیانیہ قرار پاتا ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قرآنِ پاک اللہ تعالیٰ کی آخری الہامی کتاب ہے جس سے دنیا کے تمام تر مسلمان اپنی جان سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں کیونکہ یہ اللہ کا کلام ہے۔اللہ تعالیٰ کے اس آخری کلام کا بڑا معجزہ یہ ہے کہ اس کی پیشگوئیاں حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئیں اور سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ قیامت تک اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔بے شمار مسلمانوں نے قرآنِ پاک کو حرف بہ حرف یاد کر رکھا ہے اور قرآن دنیا بھر میں نہ صرف سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے بلکہ یہ سب سے زیادہ یاد کی جانے والی کتاب بھی ہے۔رسول اللہ ? کی مختلف احادیث اور خود قرآنی آیات سے بھی قرآنِ پاک کی اہمیت و افادیت کا پتہ چلتا ہے۔حقیقی لبرل ازم میں ایک فرد کی آزادی معاشرے کے دیگر افراد کے احترام اور حریَت و حرمت سے مشروط ہوتی ہے جس کا کم ازم کم دائرہ یہ بنتا ہے کہ ہر فردِ انسانی کو اْس کے جان، مال، آبرو اور عقیدہ و مذہب کے تحفظ کا حق مساوی طور پر حاصل ہے۔ آئے روز مغربی سرزمین پر توہین ِ رسالت صلی علیہ و آلہ وسلم اور توہین قرآن کے ظہور پذیر مذموم واقعات مغربی لبرل ازم کے بطن میں موجود تعارض و تضاد کی واضح نشان دہی کرتے ہیں۔