حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ آرائی سے اکتائے دل ودماغ کو دیگر موضوعات کی تلاش میں مدد دینے کے لیے عید کی چھٹیوں سے قبل میں نے چند کتابیں الماریوں سے ڈھونڈ کر نکالیں۔ سوشل میڈیا سے ہر ممکن پرہیز کا عہد باندھا اور کم از کم دو کتابیں ختم کرڈالیں۔ارادہ تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے عید گزرنے کے بعد پہلاکالم ان کتابوں کی بدولت دریافت ہوئے کسی موضوع پر لکھوں گا۔ اسے مناسب حد تک شیئرز اور لائیکس وغیرہ مل گئے تو ایسے ہی موضوعات سے چپکا رہوں گا۔
میری قسمت میں شاید ا رادے باندھ کر انھیں عملی شکل دینے سے گریز ہی لکھا ہوا ہے۔ عید کا دن شروع ہوا تو خبر آگئی کہ بالآخر آئی ایم ایف ہماری ’مدد‘ کو رضامند ہوگیا ہے۔ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے سے ہم گزشتہ حکومت کے ا ختتامی دنوں سے ہی ایک بلین ڈالر کی قسط مانگ رہے تھے۔سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی تڑیاں اور بعدازاں منت ترلے اس کے حصول میں ناکام رہے۔ ان کی ناکامی نے تحریک انصاف کو یہ داستان پھیلانے کے لیے ٹھوس مواد فراہم کیا جس کے مطابق خود کو دنیا کی واحد سپرطاقت سمجھتا امریکا کرکٹ سے سیاستدان ہوئے عمران خان کے آزادمنش رویے سے خفا ہوگیا ۔ دھیرے دھیرے جمع ہوتی خفگی اس وقت مخاصمت میں بدل گئی جب یوکرین پر حملے سے عین ایک دن قبل پاکستان کے سابق وزیر اعظم روسی صدر سے ملاقات کے لیے ماسکو پہنچ گئے۔
ہمیں بتایا گیا کہ پوٹن سے ہوئی ملاقات نے بائیڈن انتظامیہ کو پاکستان میں ’رجیم چینج‘ کی سازش رچانے کو مجبور کیا۔ماضی کی اپوزیشن جماعتوں کے انتہائی تجربہ کار اور کائیاں شمار ہوتے سرکردہ افراد غالباً اپنے تئیں اس قابل نہ تھے کہ باہمی اختلافات بھلاکر عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کے لیے یکجا ہوجاتے۔ ان کے ’بنجر‘ ذہنوں کو واشنگٹن نے موصوف کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا راستہ د کھایا۔ ’سائفر‘ کی دہائی مچاکر عمران حکومت نے مذکورہ تحریک کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تو ریاست کے طاقت ور ترین اداروں سے بقول تحریک انصاف ’میر جعفر وصادق‘ ڈھونڈ لیے گئے۔رات گئے سپریم کورٹ کھلا اور تحریک عدم اعتماد پر ہر صورت گنتی کروانے کا حکم صادر ہوا۔ گنتی ہوگئی تو وطن عزیز پر’امپورٹڈ حکومت‘ مسلط کردی گئی۔
وہ جسے ’امپورٹڈ حکومت‘ ٹھہرا کر مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا گیا آئی ایم ایف کے دل میں نرمی پیدا کرنے میں اگرچہ قطعاً ناکام رہی۔اس حکومت کے پہلے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو پٹرول کے نرخوں میں ناقابل برداشت اضافہ کرنا پڑا۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی بڑھانا پڑیں۔ آئی ایم ایف کو رام کرنے کی خاطر لیے مذکورہ اقدامات نے پاکستانیوں کی بے پناہ اکثریت کو حواس باختہ بنادیا۔ انھیں تسلی دینے کے لیے مفتاح اسماعیل قربانی کے بکرے کی صورت فارغ ہوئے۔ ان کی جگہ ’ڈالر شکن‘ کی شہرت والے اسحاق ڈار تشریف لائے۔ اب کی بار ڈالر مگر ان کے قابو میں بھی نہیں آیا اور آئی ایم ایف بھی ’ڈومور‘ ہی کا متقاضی رہا۔
آئی ایم ایف کے سخت گیر رویے نے جناتی انگریزی میں مجھے اور آپ کو معاشیات سمجھانے والے تمام ’ماہرین‘ کو یہ دہائی مچانے کو مجبور کردیا کہ معاشیات کی مبادیات سے مبینہ طورپر لاعلم اسحاق ڈار شریف خاندان سے قریبی رشتہ داری کا غیر ذمہ دارانہ انداز میں فائدہ اٹھارہے ہیں۔آئی ایم ایف ان کی ’رعونت‘ برداشت کرنے کو آمادہ نہیں۔ اپنی ضد کی وجہ سے وہ پاکستان کو اس مقام تک لے آئے ہیں کہ نئے مالیاتی سال کی پہلی سہ ماہی گزرنے کے بعد ہماری ریاست رواں برس کے اکتوبر میں سری لنکا کی طرح دیوالیہ ہوسکتی ہے۔ پاکستان کے دیوالیہ کی جانب بڑھتے امکانات کو ٹھوس شکل دینے کے لیے جو اعداد و شمار پیش کیے جاتے انھیں رد کرنے کی گنجائش نہیں تھی۔
علم معاشیات کی باریکیوں سے قطعاً نابلد ہوتے ہوئے بھی اگرچہ میں کبھی کبھار نہایت قریبی دوستوں کے ساتھ اس خیال کا اظہار کرنے سے باز نہ رہتا کہ ہماری سیاست کے 1985ءسے نمایاں کردار ہوتے ہوئے شریف خاندان اپنے دور اقتدار میں پاکستان کو دیوالیہ کروانے کی ’بدنامی‘ مول نہیں لے سکتا۔نظر بظاہر نوازشریف اور شہباز شریف اقتدار کا کھیل اپنی اولاد کو بھی منتقل کرنا چاہ رہے ہیں۔خدانخواستہ پاکستان شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دوران ’دیوالیہ‘ ہوگیا تو مریم نواز یا حمزہ شہباز کے لیے سیاست کرنا ہی ناممکن ہوجائے گا۔ اقتدار کا حصول تو دور کی بات ہے۔
میرے ’گرانقدر‘ خیالات سن کر بھائیوں جیسے دوست اکثر حیران ہوجاتے۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ میں شہباز شریف کے اندازِ حکومت کا شدید ناقد ہوں۔ میری دانست میں وہ ’ٹاپ ڈاﺅن‘ فلسفے کی تقلید کرتے ہیں جہاں مسائل کا ’سیاسی‘ کے بجائے ’بیوروکریٹک‘حل تلاش کیا جاتا ہے۔میرا شبہ لیکن درست ثابت ہوا۔ وزیر اعظم شہبازشریف نے نہایت مہارت سے آئی ایم ایف سے روابط کا تمام تر ذمہ اسحاق ڈار کو ناراض کیے بغیر اپنے سر لے لیا۔ اپنی صحافتی زندگی میں جوتین دہائیوں سے زیادہ ہوچکی ہے میں نے پاکستان کے کسی وزیر اعظم کو آئی ایم ایف کے ساتھ اس انداز میں ’براہ راست‘ ہوتے نہیںدیکھا جو شہباز صاحب کا مقدر ہوا۔ آئی ایم ایف کے سربراہ کی پیرس میں منت ترلے کرتے شہباز شریف ایک حوالے سے ہماری اجتماعی شرمندگی کا باعث بھی تھے۔ 25کروڑ کی حد کو چھوتی آبادی کا ملک جو ایٹمی قوت بھی ہے اپنے وزیر اعظم سے ہزاروں اختلافات کے باوجود اسے ’غیروں‘ کے سامنے جھکادیکھ کربراہی محسوس کرے گا۔ یہ سوال مگر اپنی جگہ قائم ہے کہ وزیر اعظم کے پاس اس کے سوا کون سا ’باعزت‘ راستہ باقی رہ گیا تھا۔ قومی حمیت اور غیرت کی باتیں بقول حبیب جالب ’علاج غم نہیں فقط تقریر‘ ہوا کرتی ہیں۔بہرحال شہبازشریف بالآخر اپنی کاوشوں میں کامیاب رہے۔ آئندہ نو مہینوں تک ہمیں تین بلین ڈالر کی ’امدادی رقم‘ دینے کا وعدہ ہوگیا ہے۔اس کو عملی شکل دینے کے لیے پاکستان کو اگرچہ اب بھی بجلی وغیرہ کے نرخوں کے حوالے سے ’ڈومور‘ کرنا پڑے گا۔ ’دیوالیے‘ کا خطرہ مگر یقینا ٹل گیا ہے۔
آئی ایم ایف سے معاملات طے ہوجانے کی خبر میں نے اپنے موبائل فون پر دیکھی تو چند گھنٹوں بعد کتاب چھوڑ کر لیپ ٹاپ کھول لیا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ چند ایسے ’ماہرین معیشت‘ جو گزشتہ کئی مہینوں سے تواتر کے ساتھ ’دیوالیہ، دیوالیہ‘ کی دہائی مچارہے تھے اپنے ٹویٹس کے ذریعے یہ تاثر پھیلارہے تھے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہوئے معاہدے نے گویا پاکستان کے لیے تیار ہوئے ’انقلاب‘ کا راستہ روک دیا ہے۔ چند ’ماہرین‘ نے آئی ایم ایف کی یہ کہتے ہوئے مذمت بھی شروع کردی کہ پاکستان کو ’اصلاحات‘ پر مجبور کرنے کے بجائے اس نے ’شہباز حکومت بچانے‘کو ترجیح دی ہے۔
میں جان بوجھ کر ان ’ماہرین‘ کے نام نہیں لکھ رہا، نہ ہی ان کے لکھے ٹویٹس کا براہ راست ذکر کررہا ہوں۔ ان کی ’سفاکی‘ نے تاہم مجھے ہکا بکا بناڈالا۔ سری لنکا میں دیوالیہ نے وہاں کے عام آدمی کے لیے جو قیامت خیز مشکلات کھڑی کیں ان میں سے چند کا ذکر اس کالم میں اکثر ہواہے۔لبنان دیوالیہ تو نہیں ہوا لیکن وہاں بینکاری کا نظام تباہ ہونے کی وجہ سے ڈیبٹ کارڈ کے حامل افراد کے ساتھ جو ہورہا ہے اس کا بھی ذکر کرتا رہتا ہوں۔ مجھے ہرگز توقع نہیں تھی کہ گزشتہ کئی مہینوں سے دیوالیہ، دیوالیہ کی تکرار کے بعد حکومت پاکستان کو آئی ایم ایف کے روبرو سرجھکانے کی ’صلاح‘ دینے والے چند ’معتبر دانشور‘ مذکورہ ادارے کے ساتھ ڈیل ہوجانے کے بعد ایسا ’سیاپا‘ مچائیں گے۔کاش مجھے کوئی اس سیاپے کی حقیقی وجوہات سمجھاسکے۔