موسم گرما کے ساتھ ہی ہر سال کی طرح اس سال بھی بچوں میں خسرہ کے کیسز میں شدت سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ جس کے باعث اب تک بچوں کی اموات واقع ہوچکی۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان خسرہ سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ملکوں میں شامل ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خسرہ کے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس بیماری کی علامات فلو جیسی ہوتی ہیں اور کافی والدین بچے کو اسپتال لے جانے کے بجائے عام فلو ،بخار، کھانسی سمجھ کرعلاج کرتے رہتے ہیں۔ خسرہ کے پھیلاؤ کی دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس بیماری کا پہلا اور دوسرا ٹیکہ لگوانے میں طویل وقفہ ہونے کی وجہ سے اکثر والدین دوسرا ٹیکہ لگوانا بھول جاتے ہیں جبکہ ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ خسرہ اور چکن پاکس یا لاکڑا کاکڑا میں بہت زیادہ مشابہت کی وجہ سے والدین خسرہ کی بیماری کو لاکڑا کاکڑا سمجھ کر اس بیماری کے علاج پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔کھانسی، گلا خراب ہونا، بخار، آنکھوں کی تکلیف، جسم پر دانوں کا نمودار ہونا۔ یہ وہ تمام تر علامات ہیں جن کے نمودار ہونے پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری ہے۔خسرہ میں جسم پر دانے فوری نمودار نہیں ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے دیگر علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسے بچے کو سب سے الگ رکھیں تاکہ دیگر لوگ متاثر نہ ہوں۔بیماری اگر پیچیدگی اختیار کر لے مثلا نمونیہ، گردن توڑ بخار یا ساتھ کوئی اور انفیکشن ہوجائے تو یہ جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔
زیادہ تر ماہرین کے مطابق خسرہ کے پھیلاؤ اور وبا ء کی صورت اختیار کرنے کی بنیادی وجہ اس کا تیزی سے ایک شخص سے دوسرے تک منتقل ہونا ہے۔پاکستان بلخصوص پنجاب میں ہر چار سے پانچ سال بعد خسرہ کی وباء پھوٹتی ہے جس کی وجہ پنجاب میں بمشکل 85 فیصد لوگوں کا خسرہ سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکوں کا کورس پورا نہ کرنا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ کسی علاقے یا شہر کو خسرہ جیسے مرض کے پھیلاؤ سے روکنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس علاقے کے 95 فیصد افراد کو اس کے حفاظتی ٹیکے لگے ہوں۔ڈاکٹرز کے مطابق خسرہ سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ خسرہ کے مریض سے دور رہا جائے۔ مریض کو قرنطینہ میں رکھا جائے اور اس کے استعمال کی چیزیں بھی الگ کر دی جائیں۔ مریض کی جسمانی صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا جائے۔ماہرین اطفال کا کہنا ہے کہ خسرہ کے بارے میں لوگوں میں بہت سے مفروضے پائے جاتے ہیں جیسا کہ بچے کو نہلانا نہیں ہے، اسے گرم چیزیں کھانے کو دیں تو یہ وائرس جسم سے باہر نکل جاتا ہے یا پھر بچے کو ٹھنڈے کمرے میں نہ رکھنا۔ یہ وہ تمام تر مفروضے ہیں جس پر عمل کرنے سے بچے کی صحت مزید خراب ہو سکتی ہے۔ اس لیے ایسا کوئی اقدام مت کریں جس سے بیماری بڑھے۔ اور سب سے اہم یہ ہے کہ ڈاکٹرز کی ہدایات کے مطابق ادویات دیں۔ہمارے یہاں دیہی علاقوں میں بچوں کو عام طور پر گھریلو ٹوٹکوں کے ذریعے ہی تندرست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس سے خسرہ جیسا مرض بڑھ جاتا ہے اور پھر اسے ہسپتال لایا جاتا ہے، تب مریض کو بچانا بھی کئی بار مشکل ہوجاتا ہے۔اگر تین یا چار دن تک بخار نہ اترے، کھانسی ختم نہ ہو یا جسم سے دانے ختم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہوں اور آنکھیں سرخ ہو رہی ہوں تو بچوں کو فوری ہسپتال لانا چاہیے۔