اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیاسی جماعت سے انتخابی نشان واپس لینے کے الیکشن کمشن کے اختیار کے خلاف کیس کی سماعت 5 جولائی تک ملتوی کر دی۔ سیاسی جماعت سے انتخابی نشان واپس لینے کے الیکشن کمشن کے اختیار کے خلاف کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کی۔ الیکشن کمشن اور وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں کیس زیرسماعت ہونے کے باعث سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کر دی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انتخابی نشان واپسی اور تضادات سے متعلق کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، وکیل الیکشن کمشن نے کہا کہ الیکشن کمشن کو سیاسی جماعت سے انتخابی نشان واپس لینے کا اختیار ہے۔ وکیل اظہر صدیق نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ میں الگ معاملہ زیرسماعت ہے، میری درخواست الگ ہے، جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ لگ رہا تھا سپریم کورٹ پیر تک کیس نمٹا دے گی لیکن لگتا ہے کچھ وقت اور لگے گا۔ وکیل الیکشن کمشن نے کہا کہ آج بھی جوڈیشل کمشن اجلاس کی وجہ سے ڈیڑھ گھنٹے سماعت کا کہا گیا ہے، لگتا یہی ہے کہ کل یا پرسوں تک سپریم کورٹ کیس کا فیصلہ کر دے گی۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ایک شخص آزاد الیکشن لڑتا ہے لیکن کہتا ہے کہ اس سیاسی جماعت سے ہوں تو ہو سکتا ہے؟۔ وکیل الیکشن کمشن کا کہنا تھا کہ میں بتاتا ہوں کہ ہوا کیا تھا، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ جو ہوا اس کو چھوڑ دیں میں مفروضوں پر بات نہیں کر رہا، عدالتی سوال کا جواب دیں، پی ٹی آئی بطور جماعت موجود ہے، اس کے چیئرمین، سیکرٹری وغیرہ ہیں نا؟ وکیل الیکشن کمشن نے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف نے انٹراپارٹی انتخابات نہیں کرائے، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی نے الیکشن کروا کر الیکشن کمشن میں جمع کرائے تو ہیں، آپ نے ہاں، نہ نہیں کی لیکن انہوں نے تو الیکشن کرا کے جمع کرا دیا ہے ناں۔ انہوں نے غلط الیکشن کرایا ہو گا لیکن کرا کر بھیج تو دیا ہے ناں؟ تحریک انصاف کی بنیادی رکنیت تو موجود ہے نا؟ جسٹس عامر فاروق نے وکیل الیکشن کمشن سے مکالمہ کیا کہ یہ سوالات آپ کے سامنے رکھ دیے ہیں، آئندہ سماعت پر جواب دیں۔ اظہر صدیق نے کہا کہ ہم نے تو اس حد تک کہا تھا کہ آپ نے انتخابی نشان نہیں دینا لیکن پارٹی ممبر تو تسلیم کریں۔