اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ الیکشن کمشن نے عدالتی فیصلے کی غلط تشریح کی، کیا آئینی ادارے کی جانب سے غیرآئینی تشریح کی عدالت توثیق کر دے؟۔ ایک سیاسی جماعت کو الیکشن کمشن نے انتخابات سے نکال کر آئین کی خلاف ورزی کی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے پاس ریکارڈ آگیا ہے، 2002 اور 2018 میں مخصوص نشستوں سے متعلق بھی ریکارڈ ہے، سیاسی جماعتوں کی حاصل کردہ نشستوں پر ہی مخصوص سیٹوں کا کوٹہ بنتا ہے، مخدوم علی خان نے بتایا آئین کے مطابق سیٹیں سیاسی جماعتوں کو ملیں گی نہ کہ آزاد امیدواروں کو، سیاسی جماعتیں تب مخصوص نشستوں کی اہل ہوں گی جب کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہوگی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے بنیادی سوال کا جواب ہی نہیں دیا، الیکشن کمشن نے ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر کر دیا، الیکشن کمشن نے غیر آئینی اقدامات کیے تو کیا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کرے، ایک جماعت کے ووٹرز کو انتخابی عمل سے ہی باہر کر دیا گیا، آئین کی بنیاد ہی جمہوریت پر کھڑی ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آئین کے مطابق کسی صورت کوئی نشست خالی نہیں چھوڑی جا سکتی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ماضی میں کبھی آزاد ارکان کا معاملہ عدالت میں نہیں آیا، اس مرتبہ آزاد ارکان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور کیس بھی آیا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا آزاد ارکان کو پولیٹیکل پارٹیز سے الگ رکھنے کے نتائج کا ذکر نہیں ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ موجودہ اسمبلی میں تقریباً 33فیصد ارکان اسمبلی آزاد ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرٹیکل 51 کی ذیلی شق6 کی اصل لینگویج تک خود کو محدود رکھ رہا ہوں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمانی نظام جمہوریت کی بنیاد پولیٹیکل پارٹیز ہیں، اس مرتبہ آزاد ارکان کی تعداد بہت زیادہ ہے، سوال یہ ہے کہ آزاد ارکان کہاں سے آئے، الیکشن کمشن کے نقص کے سبب ایسا ہوا، اصل مسئلہ الیکشن کمشن کی غلطی کے سبب پیش آیا، الیکشن کمشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی، اگر متبادل طریقے موجود ہیں تو درستگی ہونی چاہیے، آئین سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ نشستیں خالی نہیں چھوڑ سکتیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اصل انجن ہی پولیٹیکل پارٹیز ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ متناسب نمائندگی کا مطلب ہے کہ عوامی نمائندگی جھلکنی چاہیے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرٹیکل 51 ڈی کے تحت آزاد ارکان کو الگ رکھا جاسکتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اتنی بڑی تعداد میں آزاد امیدواروں کا الیکشن کمشن کی غلطی کے نتیجے میں سامنے آنا بڑا سوال ہے، کیا سپریم کورٹ کو اس غلطی کو سدھارنا نہیں چاہیے؟ کیا لوگوں نے خود ان لوگوں کو بطور آزاد امیدوار چنا؟ کیا الیکشن کمشن نے خود ان لوگوں کو آزاد نہیں قرار دیا؟ کیا وہ قانونی آپشن نہیں اپنانا چاہیے جو اس غلطی کا ازالہ کرے؟۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا کسی فریق نے یہ کہا ہے کہ نشستیں خالی رہیں گی؟۔ ہر فریق کہتا ہے نشستیں ہمیں دی جائیں، جو معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے ہے ہی نہیں اس پر کیوں ٹائم لگا رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فیصل صدیقی نے کہا تھا اگر سنی اتحاد کونسل کو نشستیں نہیں ملتی تو خالی چھوڑ دیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں بار بار آئین میں لکھے الفاظ کی بات کر رہا ہوں، اگر آئین میں اس صورتحال کا ذکر نہیں یا غلطی ہے تو آئین جانے اور بنانے والے۔ اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ پارلیمانی پارٹی کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعت نے انتخابات میں نشست جیتی ہو، پارلیمانی پارٹی ارکان کے حلف لینے کے بعد وجود میں آتی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کی مثال غیر متعلقہ ہے کیونکہ اس معاملے کا تعلق انتخابات سے پہلے کا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ پارلیمانی پارٹی کی تشکیل کا ذکر آئین میں کہاں ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پارلیمانی پارٹی کا ذکر صرف آرٹیکل 63 اے میں ہے، آرٹیکل 63 اے کے اطلاق کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمانی پارٹی موجود ہو۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمان کے اندر فیصلے سیاسی جماعت نہیں پارلیمانی پارٹی کرتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمشن نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت قرار دینا میرے علم میں نہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ کیا اس وقت سنی اتحاد پارلیمانی جماعت ہے یا نہیں؟ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس بات کا فرق کیا پڑے گا کہ پارلیمانی جماعت ہے یا نہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ ایک جماعت کی پارلیمانی پارٹی حیثیت تسلیم کیے جانے سے کیسے فرق نہیں پڑے گا؟۔ فیصل صدیقی نے زرتاج گل کی بطور پارلیمانی لیڈر تقرری کا نوٹیفکیشن پیش کر دیا۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ نوٹیفکیشن قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے جاری کیا ہے، الیکشن کمشین نے 25 اپریل کو آزاد امیدواروں کی شمولیت اور پارٹی پوزیشن کا نوٹیفکیشن جاری کیا، الیکشن کمشن نے اپنے جواب میں بھی ارکان کا سنی اتحاد میں شامل ہونا تسلیم کیا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ان دستاویزات سے سوچ کا ایک نیا زاویہ سامنے آیا ہے، الیکشن کمشن ارکان کو سنی اتحاد کا تسلیم کر رہا ہے، حلف کے بعد پارلیمان کے اندر کے معاملے سپیکر قومی اسمبلی دیکھتے ہیں، کیا یہ تضاد نہیں کہ الیکشن کمشن ایک جانب سنی اتحاد کو سیاسی جماعت ہی نہیں مان رہا تھا؟۔ چیف جسٹس فائز عیسی نے استفسار کیا کہ اس نوٹیفکیشن کی حیثیت کیا ہے؟۔ ڈپٹی رجسٹرار کے خط کو سپریم کورٹ کا موقف کیسے مانا جا سکتا ہے؟۔ جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ سرکاری طور پر ہونے والے کمیونکیشن کو نظر انداز کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ الیکشن کمشن نے نوٹیفکیشن کس قانون کے تحت جاری کیے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے سے ان نوٹیفکیشن کا تعلق نہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک طرف کہا جا رہا ہے الیکشن کمشن آئینی ادارہ ہے، سب کچھ کر سکتا ہے، اسمبلی سیکریٹریٹ کے ساتھ الیکشن کمشن کی آفیشل خط و کتابت ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایک آئینی شق کو تنہائی میں نہیں پڑھا جا سکتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی نہیں ہے تو کیا ڈفکشن شق نہیں لگے گی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پولیٹیکل پارٹی ہی پارلیمانی پارٹی بن سکتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کی تشریح مان لیں تو پارلیمان میں بیٹھے اتنے لوگوں کا کوئی پارلیمانی لیڈر نہیں ہوگا؟ یہ موقف مان لیا تو کسی کے خلاف آرٹیکل 63 اے کے تحت منحرف ہونے پر کارروائی ممکن نہیں ہوگی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اب الیکشن کمشن کا ہی ریکارڈ ان لوگوں کو سنی اتحاد کونسل کا مان رہا ہے، بتائیں نا الیکشن کمشن انہیں پارلیمانی جماعت مان کر کیسے نشستوں سے محروم کر رہا ہے، الیکشن کمشن پارلیمنٹ کو بتا رہا ہے کہ ہمارے ریکارڈ میں یہ پارلیمانی جماعت ہے، یہ ریکارڈ کسی وجہ سے ہی رکھا جاتا ہے ناں؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی صرف آرٹیکل 63 اے کے اطلاق کے لیے ہوتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ نے بتایا کہ پارلیمانی جماعت والا نوٹیفکیشن جاری کرنا الیکشن کمشن کا اختیار نہیں تھا، کیا الیکشن کمشن ازخود کسی امیدوار کو کہہ سکتا کہ وہ آزاد ہے جماعت کا نہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لوگوں کو علم تھا کہ آزاد قرار دیے گئے امیدوار پی ٹی آئی کے ہیں، مکمل انصاف کا اختیار اور کہاں استعمال کرنا ہے جب عدالت پوری تصویر ہی نہ دیکھ سکے، کیا عدالت آنکھیں بند کر لے؟۔ جسٹس اطہر نے کہا کیا آپ چاہتے ہیں ہم نظریہ ضرورت کو دوبارہ زندہ کر دیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ کوئی پٹواری کی زمین کا تنازعہ کا کیس نہیں جو صرف اپیل تک محدود رہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت انصاف کے تقاضوں کا نہیں آئین اور قانون کا اطلاق کرتی ہے، نظریہ ضرورت کے تمام فیصلوں میں انصاف کے تقاضوں کا ہی ذکر ہے، جب کچھ ٹھوس مواد نہ ملے تو انصاف کی اپنی مرضی کی تشریح کی جاتی ہے، کسی جج سے بدنیتی منسوب نہیں کر رہا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا عدالت آئین کی سنگین خلاف ورزی کی توثیق کر دے؟۔ کیا کمرے میں موجود ہاتھی کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تین دنوں کی ڈیڈ لائن کو مدنظر رکھیں، جس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ تین دن تو آزاد ارکان کے پولیٹیکل پارٹی میں شمولیت کے لیے تھے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمشن کس اختیار کے تحت کسی امیدوار کو آزاد قرار دے سکتا ہے، کیا امیدوار ریٹائرمنٹ بھی لے سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جب مکمل انصاف کی طرف جاتے ہیں تو آنکھیں بند نہیں کر سکتے، 84 امیدواروں کو پی ٹی آئی کی وجہ سے ووٹ ملا، کیا ہم آنکھوں پر پٹی باندھ لیں، اگر ایسا کہہ دیں تو پھر مکمل انصاف کی فراہمی کو ہم نے کہاں لیکر جانا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ کہہ دیں جج جب انصاف کرتا ہے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس طرف سے بہت کچھ کہا گیا، انصاف سب چاہتے ہیں، کوئی پھانسی کے حق میں ہو سکتا ہے اور کوئی مخالف ہوسکتا ہے لیکن انصاف وہ ہے جو آئین و قانون کے مطابق ہو، یہاں مارشل لا کی توثیق کی بھی توجیہات دی گئیں، جب آئین کو لٹکانا مقصد تھا تو دیگر دروازے کھولے گئے، یہ ہوتا ہے نظریہ ضرورت، پاکستان کو اب آئین پر چلنے دیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا ہم اپنے سامنے نظر آنے والی آئینی انخراف کو نظر انداز کر دیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ آزادانہ مکمل انصاف کی فراہمی کے لیے آرٹیکل 187 کا اطلاق نہیں کر سکتی۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کے پی میں ن لیگ نے 36 نشستیں حاصل کیں انہیں مخصوص 21 نشستیں دی گئیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ فارسی کا ایک محاورہ ہے، حصہ بقدر جثہ، یہ سوال زیر بحث ہے کہ نشستیں درست دی گئیں یا نہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ میرے سوال کا جواب نہیں دیا، جس پر اٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ کافی سوالات کیے گئے۔ جسٹس یحیی آفریدی نے کہا الیکشن کمشن کو ان کا جواب دینے دیں۔ جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ آپ جو کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں۔ جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ ہر آزاد امیدوار کے لیے تین دن میں سیاسی جماعت میں شمولیت لازمی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میرے حساب سے یہ آپشن ہے لیکن لازمی نہیں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کئی سیاسی جماعتوں کو بونس میں مخصوص نشستیں ملی ہیں، اتنی نشستیں جماعتوں نے لی نہیں جتنی نشستیں انہیں دے دی گئی ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سارا معاملہ شروع ہی الیکشن کمشن کی تشریح سے ہوا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آزاد امیدواروں کی پی ٹی آئی میں شمولیت کی درخواست مسترد ہوتی تو عدالت آ سکتے تھے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق عدالت نے کہا ہے کہ موجودہ تنازع الیکشن کمشن کی غلطیوں کی وجہ سے آیا۔ سپریم کورٹ کی ڈیوٹی نہیں کہ غلطی کو ٹھیک کرے جبکہ عدالت انصاف کے تقاضوں کا نہیں آئین اور قانون کا اطلاع کرتی ہے۔